آج کئی طاقتور ریاستیں محکوم قوموں کی آواز
کو طاقت کے ذریعے دبانے میں مصروف ہیں۔ لیکن طاقت کے ذریعے مظلوم قوموں کی
آواز کو دبانے میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اگر ہم اپنی بلوچ
قوم کی مثال لے لیں- جو٦٢ سالوں سے متفوعہ ہے۔ ٦٢ سالوں کے دوران حکمران
طاقت کے ذریعے بلوچوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں- لیکن اب تک
کامیاب نہیں ہوسکے ہیں- جب ٢٠٠٢ میں بلوچ سرمچار پھر سرگرم ہو گئے سابق صدر
پرویز نے یہی کہا کہ بلوچستان میں فراری کیمپ ہیں فراری ہتھیار ڈال دیں
ورنہ کچل ڈالوں گا۔ لیکن طاقت کا بلوچ سرمچاروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان
کے ہر حملے کو ناکام بنا دیا۔
گزشتہ دنوں رحمان ملک نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس طاقت ہے ہم پاکستان
کو بچانے کے لیے اس طاقت کو کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کا مطلب تھا
کہ بلوچ سرمچاروں کو طاقت کے ذریعے کچل ڈالوں گا- دوسری جانب گورنر
بلوچستان نے کہا ہے حیربیار مری اور گوریلا کمانڈر برہمداغ بگٹی کے کہنے سے
بلوچستان آزاد نہیں ہوگا- وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ بھی کہا تھا
کہ بلوچستان میں صرف مٹھی بھر لوگ آزادی کی بات کر رہے ہیں-
لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اب بلوچ کو اپنی طاقت کا علم ہو چکا ہے- ریاست
نے پانچ مرتبہ طاقت کے ذریعے بلوچستان کو فتح کرنے کی کوشش کی ہے بہادر
بلوچ فرزندوں نے ڈٹ کر مقابلہ کر کے جانوں کا نظرانہ پیش کیا لیکن ریاستی
طاقت کے سامنے سرجھکانے سے انکار کیا، آغا عبدالکریم اور نواب بابو نوروز
خان کو قرآن کا واسطہ دیا گیا کہ پہاڑوں سے نیچے آؤ تمہاری ہر شرط مان لیں
گے لیکن بعد میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ نواب اکبر بگٹی کو فریب دینے
کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد کلسٹر بموں سے شہید کر دیا - بلوچ لیڈر واجہ
غلام محمد شہید، شہید لالہ منیر بلوچ، شہید شیر بلوچ کی لاشوں کو آئی ایس
آئی والوں نے زندہ جلا کر ویرانوں میں پھینک دیا ۔ بلوچ فرزندوں کو اغواء
کرنے کے بعد بے دردی کے ساتھ شہید کردیا جاتا ہے-
آج ہر بلوچ آزاد بلوچستان مانگ رہا ہے، اختر، برہمداغ اور حیربیار اکیلے
نہیں ہیں بلکہ پوری بلوچ قوم ان کے ساتھ ہے- ان کو پوری قوم کی حمایت حاصل
ہے اور وہ بلوچ قوم کی نمائندگی کررہے ہیں اب بلوچ قوم نے اپنی منزل کا
تعین کر لیا ہے اب مزید غلامی برداشت نہیں کرسکتے- شہید نواب اکبر بگٹی
شہید گوریلا کمانڈر بالاچ مری اور دیگر بلوچ فرزندوں کی شہادت کے بعد اب
پوری قوم میں شعور پیدا ہوگیا ہے- اور عالمی سطح پر بھی گریٹر بلوچستان کی
تحریک کو تقویت ملی ہے جس کی وجہ سے یہ مزید شدت اختیار کر چکی ہے- جیسے اب
طاقت کے زریعے روکنا ممکن نہیں آج اسکولوں میں پاکستانی جھنڈے اتار کر ان
کی جگہ گریٹر بلوچستان کا جھنڈا لگایا جا رہا ہے کوئی طلباء پاکستانی ترانہ
پڑھنے کو تیار نہیں- آج بلوچ فرزندوں کی عظیم قربانیوں کی وجہ سے اب کوئی
ایسا گھر نہیں بچا ہے جہاں پر لوگ آزادی کی آواز بلند نہ کر رہےہوں- |