بھارت سے تجارت اور بجلی،خدارا ہوش کیجئے

ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے پاکستانی حکومت نے بھارت کے ساتھ تجارت کو ایک نیا رخ دینے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے بھارت کا خصوصی دورہ کیا اور پھر اس کے بعد جو کچھ سامنے آیا وہ دنیا نے کچھ ان الفاظ میں دیکھا اور سنا۔

پاکستان اور بھارت نے تعلقات مضبوط بنانے و زمینی راستے سے باہم تجارت کا حجم بڑھانے کیلئے ایک دوسرے کو اپنی منڈیوں تک بلاامتیاز رسائی دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے واہگہ اٹاری سرحد پر ٹرکوں اور کنٹینروں کے ذریعے پہنچنے والے تجارتی سامان کی کلیئرنس پورا سال کسی تعطل کے بغیر 24گھنٹے جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان اقدامات پر عمل فروری کے آخر سے ہو گا۔ دونوں ممالک کارگو کے لئے کنٹینروں کے استعمال اور تجارت پیشہ افراد کیلئے ویزا نظام میں نرمی کا طریقۂ کار وضع کرنے پر بھی متفق ہو گئے ہیں۔ دونوں ملکوں نے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے بینکاری، ریلوے، کسٹم اور توانائی کے شعبے میں تکنیکی ورکنگ گروپوں کے اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ممالک کے بینک ایک دوسرے کی حدود میں اپنی برانچیں بھی کھولیں گے۔ بھارتی وزیر تجارت آنند شرما آئندہ ماہ بھارتی تاجروں کے ایک بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ بھی کریں گے۔ لاہور سے امرتسر تک نایاب کاروں کی ریلی بھی نکالی جائے گی۔

دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت نے پاکستان کو 1996ء میں ایم این ایف کا درجہ دے دیا تھا لیکن پاکستان کا موقف تھا کہ باہمی تجارت کا توازن یکطرفہ طور پر بھارت کے حق میں ہے۔ونوں ملکوں نے ستمبر 2012ء میں ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا تھا لیکن اس کے بعد مسلسل کنٹرول لائن پر بھارتی دہشت گردی، پانی کی بندش، مسئلہ کشمیر اور بلوچستان میں مداخلت کو لے کر دفاع پاکستان کونسل کی زبردست مخالفانہ مہم اور عوامی نفرت کے باعث تًعطل کا شکار ہو گئی تھی۔ اس سب کے بعد اب وزارت تجارت کے سیکرٹریوں کے درمیان 16ماہ کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی۔ پاکستانی وفد کے دورہ بھارت کے دوران ہی یہ بھی کہا گیا کہ بھارت سے 500میگاواٹ بجلی خریدنے کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی اور امید ہے کہ کابینہ اس کی منظوری فوری دے دے گی۔اس کے ایک ہی روز بعد وفاقی کابینہ نے بھی فوری منظوری دے دی۔

دوسری طرف اس اعلامیے اور اعلان سے پہلے پاکستانی وفد نے جب بھارت میں اپنے پہلے روز کے مذاکرات و ملاقاتوں کے بعد جو بیان دیا تھا، اس میں بھی پہلے اپنا اصولی و دیرینہ موقف دھرایا گیا اور کہا گیا تھا کہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کا توازن مکمل طور پر بھارت کے حق میں ہے اس سے امید ہو چلی تھی کہ شاید پاکستانی وفد تجارت کے اس معاملے میں کچھ نہ کچھ ملکی و قومی فائدے کو بھی پیش نظر رکھے گا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں حیرانی تو اس بات کی ہے کہ پاکستان آخر کیوں کشمیر اور پانی جیسے انتہائی سنگین اور اہم و مرکزی مسائل ایک طرف رکھ کر بھارت کے ساتھ ہر صورت تجارت کھولنے کیلئے بے چین ہے اور تجارت بھی وہ کہ جس کا سارا فائدہ پہلے بھی بھارت کو ہو رہا ہے اور آئندہ بھی اسے ہی ہو گا۔ کیونکہ اس نے تو پاکستانی مصنوعات کے اوپر عائد نان ٹیرف بیریئر تک ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ بھارت کہ جو اول دن سے ہمارے وجود کا دشمن اور انکاری ہے جس نے ہمیں دولخت کر کے ہمارے 90ہزار فوجی اور عوام قیدی بنائے، اس کو کتنے آرام اور پیار سے ہم دوست کہہ کر پیار کی پینگیں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔

بھارت سے بجلی خریدنے کے لئے ہم بے چین اور 500میگاواٹ کیلئے اس قدر تڑپ رہے ہیں کہ جیسے ہمیں محض اتنی بجلی کی ہی ضرورت ہے اور اس کے آنے کے بعد جیسے ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور پاکستان کا سارا نظام درست انداز میں چلنے لگے گا۔ آخر یہ کیو ں نہیں سوچا جاتا کہ بھارت تو خود بجلی کی زبردست قلت کا شکار ہے۔ بھارت کی پاکستان کی کل آبادی سے دوگنا آبادی وہ ہے کہ جس کے پاس بجلی سرے سے ہے ہی نہیں۔ بھارت کے اندر جگہ جگہ آئے روز بجلی کی لوڈشیڈنگ اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف پاکستان سے کہیں زیادہ شدید مظاہرے ہوتے ہیں۔ اور تو اور بھارت اس مقبوضہ کشمیر کو بھی بجلی فراہم نہیں کر پا رہا ہے کہ جو اس کے پانی اور اس کی ہائیڈل بجلی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے تو بھارت ہر روز اضافی اربوں روپیہ برباد کر رہا ہے لیکن کشمیر میں بجلی پوری نہیں ہوتی۔ گرمائی دارالحکومت سرینگر تک 24گھنٹوں میں سے بیشتر وقت اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ سارے مقبوضہ کشمیر کی کل بجلی کی ضرورت 13سو میگاواٹ ہے جو بھارت اسے مہیا نہیں کر رہا تو وہ ہمیں کہاں سے بجلی دے سکتا ہے۔ آخر ہمارے لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے بھارت کی وہ سازشیں کارفرما ہیں کہ جن کے ذریعے وہ ہمیں اپنا دست نگر بنانا چاہتا ہے۔ آخر ہم آج تک ہونے والی اس تجارت کے ڈرامے سے سبق حاصل کیوں نہ کر سکے؟

بھارت کی نیت کے کھوٹ اور پاکستان دشمنی کا ذرا اندازہ کیجئے کہ ایک طرف واہگہ سے کھلی اور 24گھنٹے تجارت کا معاہدہ ہو رہا ہے تو عین اسی وقت کنٹرول لائن کے ذریعے ہونے والی تجارت پر بھارت نے یہ الزام دھر کر اسے بند کر دیا ہے کہ پاکستان نے 1ارب 13کروڑ مالیت کی منشیات مقبوضہ کشمیر سمگل کی ہیں۔ ہمارے ڈرائیور اور تجارتی عملہ گرفتار ہے۔ اسے بھارت چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہمارے لوگوں کی اس طرف تو توجہ نہیں لیکن بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کے لئے ہم مرے جا رہے ہیں۔

بھارت کی اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس کا بڑا حمایتی، مددگار اور دوست امریکہ افغانستان سے اپنے اتحادیوں سمیت نکل رہا ہے اور بھارت پر سخت ہذیانی کیفیت طاری ہے کہ اس کے بعد اس کا کیا بنے گا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اس حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈال کر اپنے دیرینہ مسائل خصوصاً کشمیر اور پانی وغیرہ کا حل نکالنے کی کوشش کرتے جن کا بھارتی نام لینے کو تیار نہیں ہیں اور ہمیں وہ اپنی مرضی سے چلانے اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے ہمیں اپنا غلام بنانے کے لئے متحرک و سرگرم رہتا ہے۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے وزیراعظم جناب نوازشریف نے منتخب ہوتے ہی کشمیر کا مسئلہ پوری شد و مد سے اٹھایا اور من موہن سنگھ سے امریکہ میں ملاقات کے دوران پاکستان میں بھارتی مداخلت کا بھی بھرپور تذکرہ کیا۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت کی دشمنی کا ادراک رکھنے والی ہماری حکومت بھارت کے دام تجارت میں خود اس کی مرضی کے ساتھ غلامی کی سی صورت اختیار کرتے ہوئے بچھتی چلی جا رہی ہے۔ بہرحال اس نازک مرحلے پر ہم حکومت سے یہی عرض کریں گے کہ وہ اپنی اداؤں پر غور کریں۔ اتنے بڑے فیصلے جلد بازی میں نہ کئے جائیں۔ بھارت کو اس قدر سر پر مسلط کر کے اپنا نظام و زمام اس کو اس حد تک نہ دی جائے کہ ہم کل کشمیر اور پانی جیسے سنگین مسائل کا نام تک لینے کے قابل نہ رہیں۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ کل وقت نہ ہو گا۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.