اس سے پیشتر کہ میں یہاں کچھ لکھوں میں اپنے پڑھ نے والوں
کو یہ بتا دوں کہ مجھے اردو پڑھ نے کا شوق تو ضرور ہے لیکن لکھنا تو صرف خط
و کتابت ہی تک محدود رہا اور اب تو جب سے کمپیوٹر میدان مین آ کودا وہ بھی
تمام ہوا۔ تو جناب گزارش یہ ہے کہ پڑھتے وقت یہ زہن میں رہے کہ آپ اس وقت
میدانِ اردو میں ایک طفل مکتب کی تحریر سے دوچار ہیں اور آپ ہی دعا بھی
کریں کہ بارِخاطر نہ ہو۔
یہ جو کچھ بھی میں آپ کے لیے تحریرکررہا ہوں یہ مجھے میرے لکھنؤ اور بمبئی
کے سفر کے دوران میرے ایک ہم سفر اقبال احمد صاھب نے بیان کیا تھا - اب
واقعہ کی صداقت پر شبہ اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ جنہوں نے واقعات بیان
کیۓ وہ ایک معتبر اور دیندار شخص تھے - اس سفر کے بعد بھی میری ملاقات ان
سے اکثر ہوتی رہی افسوس کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں - توآئے جو کچھ میرے
ذھن میں محفوظ ہے وہ میں آپ کو انہں کے الفاظ میں سناتا ہوں ـ
"آج سے تقریباً بیس برس قبل میں نے ملازمت سے سبگدوش ہونے کے بعد لکھنؤ سے
چالیس میل دور ایک گاؤں میں جہاں میرے آباؤ اجداد کی زمینداری ہوا کرتی
تھی،اپنے دیرینہ مکان کو درست کراکر رہائش اختیار کی، گاؤں میں قریب ڈیڑھ
ہزار کی آبادی میں مسلمان کم اور ہندو زیادہ تھے -ہندوؤں میں چھوٹی بڑی
ہرذات کے لوگ آباد تھے - انہیں میں ایک پنڈت سری کرشن مہاراج تھے۔ گاوُں کے
سب ہی لوگ اُن کی بڑی عزؔت کرتے تھے لیکن جب بھی کویٔ اُن کا نام لیتا تو
پنڈت سری کرشن کہنے کی بجاۓ انہیں ہمیشہ ’ناگ نرایٔن‘ ہی کہتے۔ جب کبھی میں
کسی سے اس کی وجہ پوچھتا توکویٔ ٹال جاتا یا پہر کویٔ یہ کہکر چُپ ہو جاتا
’’کہ آپکو کسی دن پنڈت جی کے گھر لےجاکر بتایٔں گے‘‘ پھر میں نے بھی زیادہ
کرید نا اس لیۓ مناسِب نہ سمجھا کہ شاید انکا کویٔ مزہبی معاملہ ہو جسے وہ
ظاہر کرنا نہ چاہتے ہوں۔
دن گزرتے رہے اور چند ہی ماہ میں میں نے اپنے کو دیہاتی ماحول میں ڈھال کر
تمام لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا -اب میں نے اپنا یہ معمول بنا لیا کہ روز
غروب آفتاب کے بعد جب کاشتکار کھیتی باڑی سے فرصت پاتے تو میں مکان کے باہر
بیٹھ کر جمع ہوۓ کسانوں سے باتیں کرتا ، کچھ میں انہیں سناتا اور کچھ ان کی
سنتا - کسانوں میں چند ایسے بھی تھے جو دوسروں کے لیے مزاق کا موزوں ہوتے ،
انھیں میں میرے ایک بچپن کے ساتھی گرپرشاد جو بھروسے حلوائی کے لڑکے تھے
اور جب بھی میرے والد ہرچھ ماہ پر لگان وصولی کے لئے گاؤں آتے تو میں بھی
ان کے ساتھ ہوتا پھر جب تک ہم وہاں قیام کرتے میرا زیادہ وقت گرپرشاد ہی کے
ساتھ گزرتا- اب ہماری شام کی بیٹھک میں جب بھی وہ اپنا کوئی نیا قصّہ سناتا
تو ہم سب خوب مزہ لیتے -
ایک بار اسنے بتایا کی وہ کسی کی بارات میں کہیں دور کے گاؤں میں گیا تھا
-حسب معمول شادی کے پھیرے جب آدھی رات گئے ختم ہوۓ تو سب ہی زمین پر بیٹھ
کر کھانا پروسے جانے (سرو)کا انتظار کرنے لگے وہ بھی ورانڈہ میں ایک ستون
کے سہارے ٹیک لگا کر کھانا پروسے جانے کا انتظار کر نے لگا - معمول کی
مطابق پہلے پترِیاں (پتوں کی پلیٹ ) سب کے آگے رکّھی گیٔں پھر ایک ایک کرکے
پوری ،سبزی ،دال وغیرہ سب کی پتری میں ڈالی جاتی رہی اور تمام براتی کھاتے
رہے ،کھانا ختم ہونے سے کچھ ہی پہلے ساتھ بیٹھے ہوۓ رادھے شیام نے دیکھا کہ
ساہو( گُرپرساد )مُنہ کھولے بے خبر سو رہے تھے- یہ قصّہ سن کر اُن کی خوب
ہنسی اڑائ گئی-
کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی قصّہ اتنا دردناک ہوتا کہ ماحول پر کافی دیرتک
گہرا سنّاٹا چھایا رہتا ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ٹھاکر بچان سنگھ نے سنایا جسے
سن کر سبھی کی آنکھیں نم ہو گئیں - انھوں نے کھا کہ ان کے ایک رشتہ دار کے
گاؤں میں کسی لڑکی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی - شادی کے تھوڑے دن بعد ہی
پہلی بار دولہن اپنے شوہر کے ساتھ میکہ آئ ، تمام دن گھر میں جشن رہا ، رات
میں دونوں کے سونے کے لیے دومنزلہ کھلی چھت پر بستر لگایا گیا، دیر رات تک
ہنسی مزاق ہوتا رہا پھر دونون ہی اوپر سونے چلے گے -تقریباً دو بجے دولہا
کے چھوٹے سالوں نے شرارت میں چار پائی کے نیچے پٹاخوں کی جھالر رکھ کر آگ
لگا دی پھر کیا تھا آگ لگتے ہی دھڑ دھڑ پٹاخے پھٹنے لگے آواز سے آنکھ کھلی
تو گھبرا کر دولہا جو بھاگا تو سیدھا کھلی چھت سے نیچے گرا، گھر میں کہرام
مچ گیا- یہ ایسا حادثه تھا کہ سب ہی سن کرافسردہ ہو گے ۔
لوگ مجھ سے بھی کوئی واقعہ سُنا نےکی فرمائش کرتے ، میں ٹال
جاتا لیکن ایک شام سب ہی کے اسرار پر میں نے انھیں
ایک عجب واقعہ جو دادا کو پیش آیا تھا اور جو میں اکثر اپنی مرحومہ پھوپھی
سے سنا کرتا تھا انہیں کچھ یوں سنایا کہ میرے بچپن ہی میں میری والدہ
کےانتقال کے بعد میری پرورش میری پھوپھی اور پھوپھا ابّا کے زیر سایہ ہوئی
- پھوپھی اماں مجھے اپنے والد یعنی میرے دادا کے متعلق اکثر بتایا کرتی
تھیں کہ میرے دادا انگریزی دور میں منصف کے عھدے پر فائز تھے اور انکی
مستقل سکونت قصبہ کاکوری ضلع لکھنومیں ہوا کرتی تھی.انکا شمار قصبہ کے
رئیسوں میں ہوتا تھا -پھوپھی دو بھائیوں میں والدین کی اکیلی چہیتی بیٹی
تھیں - ١٨٩٨ کا سال میرے دادا کے لئے بہت صبر آزما تھا کہ انکی لاڈ لی بیٹی
شدید بیمار ہوئی ، علالت اِتنی طول پکڑ گئی کہ انہیں علاج کے لئے لکھنؤ
لانا پڑا-
وہاں آغا میر ڈیوڑھی (آج سٹی اسٹیشن کا علاقہ )میں کسی رانی صاحبہ کی کوٹھی
کراۓ پر لے کر رہ نے لگے تاکہ وہاں رہ کر کسی اچّھے ڈاکٹر سے رجوع کر سکیں
- ابھی کوٹھی میں رہتے ہوے چند ہی دن گزرے تھے کہ ایک اور پریشانی کھڑی ہو
گئی - گرمی کا موسم تھا ایک شام بعد مغرب گھر کے آنگن میں پلنگ ڈال کر سب
ہی میری پھوپھی کے گرد بیٹھے ان سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک کافی بڑا
گلاب چھت سے پھوپھی کے پلنگ پر گرا -
پھوپھی چونکہ کم عمر تھیں ، پھول دیکھ کر خوش ہو گئیں لیکن دوسروں کو جیسے
سانپ سونگھ گیا - وجہ یہ تھی کہ اول تو کوٹھی میں کہیں بھی ایسے گلاب نہ
تھے دوسرے کوٹھی کی پہلی و دوسری منزل پر گھر کا کوئی فرد گیا تھا نہ ہی
وہاں کوئی رہتا تھا-
دوسرے دن میرے دادا نے اس کا تذکرہ رانی صاحبہ کے
منیجر سے کیا - منیجر صاحب تو یہ کہ کر خاموش ہو
گیۓ کہ " آپ سے پیشترکرایہ داروں کا خیال تھا کہ
کوٹھی کی دوسری منزل میں جنّات رهتے ہیں، لیکن مجھے
اس پر بلکل یقین نہیں ہے، اب آپ ہی دیکھیں جن مکان
میں بھلا کیا کر رہے ہیں" انہوں نے جو کھا وہ
دادا ایسے مضبوط شخص کے لئے وحشت کا سبب ہو گیا -
میرے دادا تو لڑکی کی علالت سے یونہی پریشان تھے اب
دوسری مصیبت یہ آن کھڑی ہوئی - گھر واپس جاکر تو
انہوں نے کچھ نہ کھا لیکن اسکا ذکر فرنگی محل کے
ایک بزرگ سے ضرور کیا تھا اور انہیں کے حکم پر
دادا اور میری دادی نے اس بات کا خیال رکّھا کہ
اوپری منزلوں پر کوئی نہ جاۓ - راتوں میں اکثر و
بیشتر چھَت پر کسی کے قدموں کی آوزیں اکثر آتیں - ہاں ایک
بات بتانا میں بھول گیا کہ بزرگ نے اس بات کی بھی
تاکید کی تھی عمومن جنات اپنے ٹھکانے سے نکل کر پورے
گھر میں وقتؔا فوقتاؔ گھومتے ہیں لہذہ یہ بھی خیال رہے
کہ گھر کے صحن میں ناپاکی وغیرہ نہ ہونے پاے –
پھوپھی کی علالت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی - لکھنؤ کے مشہور
ڈاکٹر نگم کا علاج جاری تھا کبھی معمولی افاقہ نظر آتا
پھر چند دن بعد وہی کیفیت لوٹ آتی - دن گزرتے رہے-
ایک آدہ بار ایسا بھی ہوا کہ رات کے وقت اگر کسی
ضرورت سے کوئی اٹھتا تو کبھی کبھی شبہ ہوتا کہ جیسے
کوئی سامنے سے اچانک گزر کے اوپری منزل کو جانے والے
زینہ کی طرف چلا گیا ہو- دادا نے تو اکثر یہ تماشہ
دیکھا تھا - ہاں میری دادی صاحبہ نے توجیسے رات کو
آنگن میں جانے کی قسم ہی کھالی تھی - کیونکہ ایک
رات سب ہی نے آنگن میں لگے رات کی رانی کے پودے
کے قریب ایک با ریش بزرگ کو کھڑے دیکھا چونکہ چاندنی
چھٹکی ہوئی تھی اس لیۓ کسی کو بہی شبہ کی قطعی گُنجایٔش نہ رہی۔
پھوپھی کی طبیعت جب کچھ بحال ہویٔ تو ایک شام وہ صحن میں ٹہل رہی تھیں۔
ملازمہ نیقدم ساتھ تھی کی انہوں نے اُوپری منزل پر جانے کی ضد کی۔ ملازمہ
کی منع کرنے کے باوجود وہ زینہ کی طرف بھاگیں۔ پہلا قدم زینہ پہ رکھتے ہی
وہ ٹھٹکیں،نگاہ اٹھا کر اُپر دیکھا اور چیخ کر ’ماموں‘ کہا۔ ملازمہ جو
پیچھے تھی اس نے دیکھا کہ اوپری زینہ پرایک باریش بزرگ کھڑے پھوپھی کو دیکھ
رہے تھے۔ جھپٹ کر نیقدم نے پھوپھی کو اپنی طرف گھسیٹا اور کہا ’بٹیا اوپر
ماموں کہاں ہیں‘ لیکن پھوپھی برابر ماموں ماموں، کی رٹ لگاتی رہیں۔
’’میرے پوچھنے پر پھوپھی نے مجھ سے یہی بتایا کہ اُن بزرگ کی شکل اُن کے
ماموں سے مُشابہ تھی۔‘‘ اِس واقعہ کے بعد تو سب ہی بس یہی دعا کر رہے تھے
کہ کب پھوپھی کی صحت ٹھیک ہو اور کب وہ اِس آسیب زدہ کوٹھی کو الوداع کہیں۔
الله الله کر کے تقریباؔ ایک ماہ بعد پھوپھی کی علالت کا سلسلہ ختم ہوا تو
دادا نے کاکوری واپس جانے کی تیاری کی اورباقاعدہ ٹرین میں رزرویشن کراکر
ٹرین آنے سے کچھ دیر قبل سب کولیکرآغامیرڈیوڑھی (آج کا سٹی اسٹیشن)پہونچ
گۓ۔ خواتین کو رزرو کمپارٹمنٹ میں سوار کرانے کے بعد باہر کھڑے ہوکر دادا
میرے والد اور چچا وغیرہ سے باتیں کرنے لگے ۔ چند ہی منٹ ہوے ہوںگے کہ ایک
باریش و خوش پوشاک شخص ہاتھ میں لال کاغذ سے منہ بند مٹی کی ہانڈی لئے دادا
کے قریب آے اور سلام کرنے کے بعد ہانڈی انکی طرف بڑھایٔ اور کہا ’’بچّی کی
صحتیابی کی خوشی میں یہ مٹھایٔ ہماری طرف سے قبول کریں‘‘ دادا تو جیسے سکتے
میں آگۓ لیکن ملازم نے بڑھکر ان سے ہانڈی لے لی .میرے بڑے چچا ابا نے ان سے
کہا ’’میں نے آپ کو نہیں پہچانا‘‘
’’میں آپ کا پڑوسی ہوں‘ اُپری منزل میں میری رہایٔش ہے‘‘ اس سے پہلے کہ
کویٔ کچھ کہتا وہ الٹے قدموں واپس ھو گۓ۔۔ بقول پھوپھی کویٔ کچھ کیا کہتا
وہاں تو جیسے سب کو سانپ ہی سونگھ گیا تھا ۔
اقبال صاحب اپنی روداد سنا کر زرا خاموش ھوے تو میں نے ان سے کہا ’’ کیوں
اقبال صاحب پھوپھی مرحومہ کے واقعات جو آپنے سناۓ وہ یقیناہیں تو بعید از
قیاس لیکن یقین نہ کرنے کی کویٔ وجہ بھی نہیں چونکہ آپکی پھوپھی شاھد ہیں‘
میں آپسے یہ جانؔا چاہونگا کہ کیا اب بھی اس قسم کے واقعات دیکہنے میں آتے
ہیں “
"ہاں کیوں نہیں اب بھی ہوتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے پہلے وقتوں میں ہوتے
تھے" انکا جواب تھا .
’’ کیا ایسے کویٔ واقعہ آپکی یاداشت میں محفوظ ہے‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ ہیں تو کیٔ لیکن پہلے آپ وہ تو سن لیں جو میرے گاوُں کے قیام کے دورانِ
چشم دید ہے اور جسے خاص کر سنانے کے لیۓ ہی ہم نے گُفتگو کا سِلسِلہ شروع
کیا تھا۔ اب آپ ہی بتایٔں کہ وہ حیرتناک چشم دید واقعہ شروع کروں کہ ‘‘
میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا ’’ نہیں جناب آپ وہی سنایٔں جو آپ بہتر خیال
کریں‘‘
پھر جو واقعہ انہوں نے سنایا وہ حیرتناک ہی نہیں بلکہ تعجب خیز بہی تھا۔
کہنے لگے ’’آپکو یاد ہے کہ میں نے شروع میں ایک پنڈت سری کرشن کا زکر کیا
تھا جِن کو گاوُں میں سب ہی ناگ نرایٔن کہتے تھے اور چونکہ ہماری توجہ
دوسری باتوں کی طرف چل نکلی تھی اس لۓ آپ کو اس کی وجہ بتا نا زہن سے نکل
گیٔ تھی‘‘
’’ جی بالکل یاد ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تو جناب ایک صبح میں گھر کے باہر اپنے چبوترہ پر ٹہل رہا تھا کہ پنڈت جی
آتے دکھایٔ دیۓ ۔ آس پاس جب کویٔ نہ دکھایٔ دیا تو یہ سوچ کر کہ آج اِن سے
دودو ہاتھ ہو ہی جاۓ۔ میں نے انہیں آواز دی۔
’’ ارے پنڈت جی صبح صبح کہاں جا رہے ہیں۔ آیٔے تھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھ
لیں۔ آپ سے تو بات ہی نہیں ہو پاتی‘‘
دیہاتی لہجہ میں سلام کیا اور یہ کہ کر کہ زرا کھیت کی طرف جا رہا ہوں وہ
چبوترہ پر آگۓ میں انہیں لیکر اندر بیٹھک میں آگیا۔ اِدھر اُدھرکی باتوں کے
بعد میں نے پوچھا
’’ کیوں پنڈت جی ایک بات پوچھوں برا تو نہ مانیں گے‘‘
’’ نہیں نہیں‘ آپ مالک ہیں ھم بُرا کاہے مانیں گے آپ بے دھڑک پوچھیں‘‘
’’آپ کی یہاں سب عزؔت کرتے ہیں لیکن آپکا نام نہ لیکر سب ہی آپکو ’ناگ
نرایٔن‘ کہتے ہیں‘‘
یہ سن کر وہ ہنس دیۓ اور بولے ’’بھیؔا بات یہ ہے ‘ آپ سے کیا بتائیٔں ھمارے
گھر میں ایک جوڑا سانپ بچپن سے پل رہا ہے اور میں انکی پوری طرح دیکھ بھال
کرکے پال رہا ہوں‘‘
’’ بھلا آپ ان کی دیکھ بھال کیسے کرکے پال رہے ہیں‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’جیسے بچؔوں کی جاتی ہے، وقت وقت سے دودھ پلاتے ہیں، جب دودھ پی کر وہ
ٹہلتے ہیں اور جب تک باہر رہتے ہیں میں ان کی چوکیداری کر تا ہوں‘‘
جواب سن کر مجھے بڑی حیرت ہویٔ کہ یا الله لوگ توکہتے ہیں سانپ انسان کا
ازل سے دشمن ہے پھر میں یہ کیا سن رہا تھا۔ یہ تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے
کے لیے میں نے ہنس کران سے کہا۔
’’ پنڈت جی کبھی ہمیں بھی اپنے بچؔوں(سانپوں) سے ملایٔے نا‘‘
’’آج تو ہم گھر پر نہ رہیں گے، لیکن کل سورج ڈوبنے سے تھوڑا پہلے آپ ہمارے
گھر آئیں پھر خود ہی دیکھ لیں‘‘ پنڈت جی نے جواب دیا۔
میں دوسرے دن سورج غروب سے قبل ہی پنڈت کے گھر جانے کے لیے نکل کھڑا ہُوا۔
راستہ ہی میں وہ دودھ کا برتن ہاتھ میں لیۓ اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے مل
گۓ۔ـ گھر پہونچ کر دروازہ پر لگا تالہ کھول کر مجھے اندر آنے کو کہا۔
جونہی میں نے قدم اندر رکھا اور میری نگاہ سامنے پھن اٹھاۓ دو سانپوں پرپڑی
تو میرے قدم جہاں تھے وہیں جیسے کسی نے جکڑ لیۓ ہوں۔ میں حیرت سے اُس جوڑے
کو دیکھ رہا تھا جو شاید پنڈت کے قدموں کی آواز سنکر دہیرے دہیرے شانِ بے
اعتنایٔ سے اُن کی طرف رینگ رہا تھا۔ اس سے پیشتر میں پنڈت سے کچھ کہوں
انہوں نے مجھ سے کہا ’’ بھیّا زرا خاموش کھڑے ہوکر دیکھیں‘‘
پنڈت نے دودھ تھوڑا تھوڑا چھوٹے دو پیالوں میں انڈیلا اور ایک ایک پیالہ
دونوں سانپوں کے آگے رکھ کر دروازہ کے پاس آگۓ جہاں میں ابھی تک حیرت کی
تصویر بنا کھڑا تھا۔ عبّاسی صاحب آپ شاید یہ باور نہ کریں کہ اُس وقت میری
حالت اُس معصوم بچّہ کی طرح تھی جو کسی چیز سے خوف زدہ تو ہو پروہاں سے
ہٹنا بھی نہ چاہتا ہو۔ حیرت زدہ کھڑا میں اپنی انہی آنکھوں سے دونوں سانپوں
کواطمینان سے دودھ پیتا دیکھتا رہا۔ شکم سیر ہونے کے بعد دونوں نے پھن
اٹھاکر پنڈت کو کچھ سکنڈ تک دیکھا جیسے اُن کا شکریہ ادا کر رہے ہوں اور
پھر بہت شان سے ٹہلتے نہیں بلکہ رینگ تے ہوے لکڑیوں کی ڈھیر کیطرف چلے گۓ۔
جب کبھی یہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو جسم کے تمام رونگٹے آج بھی کھڑے ہو
جاتے ہیں۔ آپ چاہیں تو مجھے بزدل کہیں لیکن اُس دِن کے بعد میری پھر کبھی
ہمّت نہ ہویٔ کہ دوبارہ پنڈت کے یہاں قدم رکھتا۔ لیکن ہاں آخری بار ایک رات
جب میں اُن کے یہاں گیا تووہاں گاؤں کے تقریبًا سب ہی افراد جمع تھے اور
وہاں جو کچھ بھی ہم سب ہی نے دیکھا وہ اس حقیقت کی تردید کرتا ہے کہ سانپ
ازل سے انسان کا دشمن ہے۔
دراصل ہوا یوں کہ شاید نومبر کا مہینہ تھا کہ تقریباً آٹھ بجے رات میں میرے
ملازم شیوراج نے مجھے باہر آنے کو کہا۔
’’ کیا بات ہے‘‘ باہر آکر میں نے اُس سے پوچھا۔
’’ چچا (گاؤں کے ناتے سے مجھے چچؔا کہتا تھا)ناگ نرایٔن کے وہاں چوروں نے
سیند لگایٔ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چورابھی اندر ہی ہیں‘ اس نے بتایا۔
’’ تمہیں کیسے معلوم کہ چور اندر ہیں‘‘میں نے پوچھا۔
’’ ایک آدمی کا پیر دکھایٔ دے رہا ہے‘‘ ۔
’’پنڈت کہاں ہیں، گھر میں کویٔ نہیں تھا کیا‘‘
’’پاس کے گاؤں شادی کرانے گۓ ہیں، دروازہ میں تالا پڑا ہے‘‘
’’ کسی نے ان کو خبر دی‘‘
’’جگن ناتھ بلانے گیا ہے‘
‘
لباس تبدیل کرکے میں جب وہاں پہنچا تو وہاں پچاس ایک آدمی لاٹھیاں لیۓ مکان
کی چاروں طرف کھڑے تھے۔ دروازہ پر گاؤں کے پردھان بالک رام یادو بھی بندوق
لیے موجود تھے۔ مجھے آتا دیکھ کر وہ میرے پاس آۓ اور سلام کے بعد میرا ہاتھ
تھام کر سیند کے پاس لے گۓ اور جھک کر اندر کو ٹارچ سے اشارہ کیا جہان زمین
پر پڑے ہوے آدمی کا ایک پیر نظر آرہا تھا۔ میں ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ
پنڈت بھی گھبراۓ پریشان آے اور مجھے لیکر دروازہ کھولا۔ ہم دونوں ساتھ ہی
اندر داخل ہوے۔
عبّاسی صاحب اب میں آپ کو کیا بتاؤں اندر جو کچھ میں نے دیکھا وہ اگر کویٔ
دوسرا شخص ہتھیلی پر آگ رکھ کر بھی مجھ سے کہتا تو میں ہرگزاس پر یقین نہ
کرتا۔
اتنا بتا کر اقبال صاحب خاموش ہو گۓ اور گھڑی دیکھ کر بولے ’’لیجۓ بھوپال
آنے والا ہے، اب بھوپال میں چاۓ وغیرہ پی کر پھر اطمینان سے بتا یٔں گے کہ
اندر کیا دیکھا ‘‘ یہ کہہ کر وہ اس طرح خاموش ہو گۓ جس طرح ایک شاطر قصہ گو
کہانی کے نقطہ عروج پر پہونچ کر خاموش ہوجاتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ
سامعین اخطتام سنّے کے لیۓ کتنے مضطرب ہیں۔
اس میں شک نہ تھا کہ میری بیچینی بھی انجام معلوم کرنے کے لیے کم نہ تھی،
اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں سامنے کی برتھ پر بیٹھے ایک ہمسفر جو
شاید کافی دیر سے ہماری گفتگو سُن رہے تھے بول اُٹھے،
’’ بھایٔ صاحب ابھی بھوپال آنے میں تقریباً پندرہ منٹ ہیں، وہ بھی گاڑی
اگرآؤٹرسگنل پر نہ روکی تو‘‘
’’ ہاں اقبال صاحب، بھایٔ صاحب نے بات ٹھیک ہی کہی ہے اب آپ ہماری بیچینی
نہ بڑھایٔں اور اسٹیشن آنے سے پہلے ہی آپ اسکا ڈراپ سین کر دیں تو شاید ہم
سب ہی سکون سے چاۓ پی سکیں‘‘ میں نے کہا۔
’’ اکثریت کی خواہش کیسے ٹالی جا سکتی ہے‘ ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ پنڈت
شری کرشن(ناگ نرایٔن) اور میں دونوں ایک ساتھ ہی اندر داخل ہوۓ تو دیکھا کہ
صرف نیکر پہنے چور زمین پرمرا پڑا تھا اور اس کے سر سے تھوڑا پرے ہٹ کر ایک
سانپ تو پھن پھیلاۓ جھوم رہا تھا دوسرا قریب ہی کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔
پنڈت کے ساتھ دوسروں کو آتا دیکھ کر دونوں خاموشی سے اس طرح ایک جانب چل
دیۓ جیسے دونوں ہی چور کو پنڈت کے سپرد کرنے کا انتظار کر رہے ہوں۔ لیجۓ
قصہ تمام ہوا‘‘
اقبال صاحب کے خاموش ہوتے ہی ھم دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
’’ بھایٔ یہ کیا بات ہویٔ، یہ تو بتایٔں چور کو کیا ہوا تھا،آخر وہ کیسے
مرا تھا۔ آگےکیا ہوا یہ تو بتایٔن‘‘
چور کا انجام سُن کر تو میں خود بھی آج تک حیران ہوں ، چور سیند کے پاس ہی
مرا پڑا تھا ۔ حیرتناک بات یہ تھی کہ پوسٹ مارٹم کی ریپورٹ کی مطابق چور کی
موت سانپ کے زہر سے ہویٔ تھی اور عبّاسی صاحب اب آپ کیا کہیں گے ، کہ ان
پالتو سانپوں نے چور کو مار کر دودھ کا حق ادا کر دیا تھا۔
یہ واقعہ سنا کر اقبال صاحب تو خاموش ہو گۓ اور میں یہ سونچ رہا تھا کہ
انساں کا ازلی دشمن بھی دودھ کا پاس کرتا ہے لیکن افسوس آج کے دور مین بہت
سی اولادیں ایسی بھی ہیں جو ماں کا دودھ پی کر بھی دودھ کا حق ادا نہیں
کرتیں۔ |