پاکستان کبھی امن وآشتی اور
یگانگت کا مظہر تھا۔ اسی قوت کے باعث اس ملک کا قیام عمل میں آیاتھا۔ لیکن
نہ جانے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی کہ اب یہ اختلافات خصوصاً فرقہ ورانہ
نوعیت کے اختلافات کی زد میں ہے۔ ذرائع ابلاغ ان اختلافات کو بڑھا چڑھا
کرپیش کرتے ہیں اور یوں پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کی سبکی کے سامان
فراہم کرتے ہیں۔لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختلافات کو کم کرنے کو
اپنا مشن بنا لیا ہے۔ یہ لوگ خاموش انداز میں اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں
اور ان مؤثر شخصیات کو جو اختلافات کو کم کرنے میں کسی طرح بھی اپنا کردار
ادا کر سکتی ہیں، مسلسل قائل کرتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ ان سے روابط رکھتے ہیں
اور ان روابط کو اس کارِخیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قارئین ، ناظرین اور سامعین کو مژدہ ہو کہ آج کی اس تحریر میں ایسے ہی تین
اشخاص کے ایک مجموعے کو متعارف کرایاجارہاہے۔جنہوں نے10 محرم کو راجہ بازار
راولپنڈی کے سانحے کے بعد یہ قسم کھائی کہ وہ اﷲ کی رضااور اس کے رسول صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے لیے ملک بھر کے علمائے کرام ، دانشوروں
اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے روابط کو بڑھائیں گے اور جو کچھ نقصان
راولپنڈی کے سانحے کی وجہ سے اسلام اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچا ہے اسے کم
کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔ بڑی مشکل سے ان حضرات نے اس بات کی اجازت
دی کہ ان کے ناموں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ ان تینوں شخصیات کا تعلق
کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ان میں قدرِ مشترک پاکستان سے ان کی گھٹی میں
پڑی ہوئی محبت ہے۔ وہ اس لیے بھی پاکستان کے دکھ کو برداشت نہیں کر سکتے کہ
ان کا اپنا وطن غلام ہے اور وہ آزادی کی قدر وقیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
یہ شخصیات محمدحنیف خان آف راولا کوٹ آزاد کشمیر، سردارمحمدایوب خان آف باغ
آزاد کشمیر اور راجہ محمدامجد خان آف اسکردو ، گلگت بلتستان حال مقیم
راولپنڈی ہیں۔
مختلف مواقع پر ان تین حضرات سے جو ملاقاتیں ہوئیں ان کی تلخیص کچھ یوں ہے:
محمدحنیف خان آف راولا کوٹ: میں نے سانحہ راولپنڈی کے فوراً بعد متعلقہ
علمائے کرام کو فرداً فرداً خطوط لکھے اور ان کے معاملات کو صحیح نہج پر
لانے کے ضمن میں ادا کیے گئے کردار کو سراہا۔ یہ خطوط ایک عقیدت مند کے
خطوط تھے جو ہر طرح کے اختلافات سے بلند ہو کر لکھے گئے تھے۔ میری رائے میں
علمائے کرام نے مثالی کردار ادا کیا تھا اس لیے میں نے اپنے خطوط میں انہیں
اولیائے کرام کہتے ہوئے بھی باک محسوس نہیں کیا تھا۔ میں نے اپنے خطوط میں
علمائے کرام سے یہ بھی کہاتھا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کئی
طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ہندو ،سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں۔ شیعہ بھی رہتے
ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ہزاروں بندے مار کر بھی آخرکار بات
چیت کریں گے۔ مولانا صاحب!کچھ کیجیے۔ کسی دن کسی شیعہ لیڈر کے ساتھ مشترکہ
پریس کانفرنس کر لیں۔ یقیناً قتل و غارت بند ہو جائے گی۔ روزِ محشر اگر
بلند مقام نہ پایا تو رسالتِ مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مجھے
شرمندہ کر دینا۔
سردار محمدایوب خان: اپنے ملک کے تمام علمائے کرام اور ان کے عقیدت مندوں
سے التماس کرتا ہوں کہ مخالفین کو پیار و محبت سے سیدھی راہ پر لایا جائے۔
ہم تو انہیں اپنی ضد پر پکا کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے اکابرین اسی طرح تبلیغ
کیاکرتے تھے؟ ہمارے اکابرین کون ہیں؟ یقیناً حضرت شاہ ولی اﷲ ہیں ۔ یقیناً
حضرت مہاجر مکی ؟ ہیں۔ یقیناً قاری محمد طیب ہیں۔ یقیناً مولانا اشرف علی
تھانوی ہیں۔ یقیناً مولانا احمد علی لاہوری ہیں۔ قریب کے زمانے میں
مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری؟ مولانا عبدالحق؟ حضرت مفتی محمود؟اور حصرت
قاضی حسین احمد؟آخر ہمارے ہی اکابرین میں سے ہیں۔ کیاوہ بھی یوں ہی کیا
کرتے تھے جیسے آج کل ہو رہا ہے؟
راجہ محمدامجدخان: 24دسمبر2013 کو پورا ملک راولپنڈی پر کان دھرے ہوئے تھا
کہ10 محرم کے المناک سانحے کے بعد راولپنڈی میں چہلم کا جلوس نکلنا تھا۔ ہر
طرف خدشات تھے کہ نہ معلوم کیا ہو گا؟ ہر آدمی سوچ رہا تھا کہ کشت و خون ہو
گا۔لیکن 24 دسمبر کو صورت ِ حال بالکل مختلف نظرآئی۔ ہر طرف امن و امان
تھا۔ لوگ پرسکون تھے۔ لاکھوں افراد کا جلوس تھا جو راجہ بازار سے گزرا۔
کہیں گملا نہ ٹوٹا۔ راجہ بازار کے تاجر سب سے زیادہ مطمئن تھے کہ ان کا
سکون بحال ہو رہا تھا۔ میں بھی سروے کرنے نکلا۔ نمازِ مغرب مرکزی جامع مسجد
اہل حدیث میں ادا کی۔ وہاں یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جلوس میں
شامل شیعہ حضرات کی بڑی تعداد نماز ادا کر رہی تھی۔ جامع مسجد اہلِ حدیث کے
منتظمین انہیں ہر طرح سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ مسجد کے باہر شیعہ خواتین
نماز ادا کر رہی تھیں۔ مسجد پر کوئی پہرہ نہ تھا۔ اندر آنے جانے کی اجازت
عام تھی، بالکل عام دنوں کی طرح۔ دیگر مساجد اور مختلف مقامات پربھی ایسا
ہی دیکھا، کوئی تفریق کہیں نظر نہ آئی۔ دل بہت خوش ہوا۔ گذشتہ 10 محرم کو
ہونے والا سانحہ بھی نہ ہوتا اگر دونوں طرف کے علماء باہم روابط ا ستوار
رکھتے۔ کہیں نہ کہیں روابط کی کمی کے باعث افسوسناک سانحہ ہوا لیکن بعد میں
چہلم کے موقع پر راولپنڈی خصوصاً راجہ بازار کے لوگوں کے مثالی طرزِ عمل کے
بارے میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی ہمیشہ ایسی
ہی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
یہ ربیع الاوّل کا مقدس مہینہ ہے جس میں رب العالمین نے پوری کائنات کو
رحمۃ اللعالمین کی صورت میں ایک عظیم تحفہ عطا فرمایا۔ وہ ذاتِ بابرکات جس
نے انسانوں میں نفرت اور تفرقہ کو دفن کر دیا۔ جس نے انہیں عہدِجہالت کے
اندھیروں سے نکالا۔ جس نے بادشاہی میں فقیری کی، جس نے فتح مکہ کے موقع پر
اپنے بدترین دشمنوں کو امان دی۔
یہ مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کل جہاں کے لیے رحمت کا مہینہ ہے۔ اس میں
ہمیں باہمی اختلافات کو کم ازکم سطح پر لانا ہو گا۔ تاکہ ہم رسولِ رحمت صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حضور روزِقیامت سرخرو ہو سکیں۔
سردار محمدایوب خان،راجہ محمدحنیف خان اور راجہ محمدامجد خان نے اپنے وسائل
سے جو کام کیا اس نے متحارب فریقوں میں محبت اور الفت کا جو پیغام عام کیا
ہے۔ اس کے بارے میں اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا کہ انہیں رسول ِ رحمت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نظرِ کرم حاصل ہو گئی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ
مولانا محمداحمد لدھیانوی ہوں کہ مولاناصاحبزادہ حامد رضا، مولانا اشرف علی
ہوں کہ مولانا امین شہیدی ۔ تاجروں کے رہنما شرجیل میر ہوں کہ شاہد غفور
پراچہ ہر ایک نے ان تین حضرات کی اخلاص بھری کاوشوں پر بھرپور ردّ عمل کا
اظہار کیا ہے۔ راولپنڈی مختصر سے عرصے میں ایک بار پھر امن ویگانگت کا مظہر
نظر آنے لگا ہے۔ اے کاش ملک کے دیگر لوگ بھی سردار محمدایوب خان ، راجہ
محمدحنیف خان اور راجہ محمدامجد خان کے نقشِ قدم پر چلیں۔ یہی سیرت النبی ﷺ
اور میلاد النبی ﷺ کا حقیقی پیغام ہے۔ |