پاکستان کو انگریزوں اور ہندوﺅں
سے آزادی حاصل کئے تریسٹھ برس ہوچکے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی
پاکستانی قوم کو اپنی حقیقی آزادی کے لئے صدق دل سے بہت محنت، کوشش و کاوش
کی ضرورت ہے۔ برصغیر کے عوام نے ایک انتھک، بے لوث اور مخلص قائد کے زیر
سایہ تحریک پاکستان کو کامیابی سے منطقی انجام تک پہنچا کر ایک مثال قائم
کردی تھی کہ اگر پوری قوم یکجان ہو کر، آپس کے اختلافات ختم کر کے کسی نقطہ
پر اکٹھی ہوجائے، اس کے لئے دل اور روح کی سچائیوں سے محنت بھی کرے تو
کامیابی یقیناً اس کے قدم چومنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ کسی کی محنت اور محبت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا اسے ضائع نہیں
کرتا۔ یہ محنت تھی جس نے تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا، یہ محبت
تھی جو اس وقت ہمارے بزرگوں کو اپنے مذہب اور اپنی ملت سے تھی جس نے ایک
کامیاب تحریک کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں بھی اس کی ایک
مثال موجود ہے اور وہ ہے عدلیہ بحالی تحریک! جب ایک فوجی آمر نے عدلیہ پر
شبخون مارا تو پوری قوم وکلاء کی قیادت میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن
گئی۔ وہ نوجوان، وہ بچے، وہ خواتین اور وہ بزرگ جو اس تحریک کے لئے دن رات
انتھک محنت اور جدوجہد کررہے تھے ان کو بہت سی باتیں بھی سننا پڑتی تھیں،
تحریک مخالف لوگ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں ایسا کبھی
نہیں ہوا کہ کسی کے آمر کے کئے ہوئے کام واپس (Reverse) ہوئے ہوں اور ایسا
ہو ہی نہیں سکتا کہ 2 نومبر 2007 والی عدلیہ بحال ہوسکے، یہاں تک کہ تحریک
کی قیادت کرنے والے لوگ بھی بعض مواقع پر مایوس اور دل گرفتہ نظر آئے۔ مجھے
یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی کہ تحریک پاکستان کی طرح اس بار
بھی تحریک کی قیادت وکیل کررہے تھے، تحریک پاکستان میں تو ایک وکیل ”قائد“
تھا لیکن عدلیہ بحالی تحریک میں پورے ملک کے نوجوان وکلاء قائدین کا کردار
ادا کر رہے تھے ! جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی قیادت اسلام آباد میں دھرنے
کے معاملے پر ڈانوا ڈول ہے تو انہوں نے اپنی قیادت کو بھی مجبور کیا کہ
یکسو ہو کر اس وقت تک دھرنا دینے کا اعلان کیا جائے جب تک کہ چیف جسٹس آف
پاکستان افتخار محمد چودھری اور 2 نومبر والی ساری عدلیہ کو بحال نہیں
کردیا جاتا، اور چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ وکلاء قیادت کو بالآخر
نوجوان اور متحرک وکلاء کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا!
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے، پاکستانی قوم کو ہر روز ایک نیا
امتحان درپیش ہے، اپنوں اور اغیار کی مشترکہ سازشوں کی وجہ سے ابھی تک ہم
ترقی کے اس راستے پر گامزن ہی نہیں ہوسکے جس کا خواب برصغیر کے مسلمانوں نے
علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی قیادت میں دیکھا تھا۔ ایک مضبوط پاکستان
یقیناً ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی ایک سہارے کی حیثیت رکھتا ہے اور
باقی دنیا کے مسلمانوں کے لئے بھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں
جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ وہ کونسے عوامل ہیں جو اس ملک
اور قوم کی حقیقی آزادی میں رخنہ اندازی کررہے ہیں! میرے خیال میں اگر ہم
تھوڑی سی عقل اور فہم و فراست سے کام لیں تو یقیناً ان ملک دشمن عناصر کے
بارے میں جان سکتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے پر نظر ڈالیں تو وہاں پر
کچھ ایسے عوامل ضرور ہوتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے نے ترقی کی ہوتی ہے،
ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے آخری اور برحق نبی اکرم محمد الرسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی قائم کی گئی ریاست مدینہ میں وہ سارے عوامل مشعل راہ ہیں
جن کی بنیاد پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس عظیم الشان ریاست کی
بنیاد رکھی۔ اگر ہم ایسا نظام رائج کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس میں ایک عام
آدمی کو بھی عدل و انصاف اسی طرح مہیا ہو جس طرح امیروں کبیروں کے لئے، اگر
ایک عام آدمی کو بھی زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کے مواقع اسی طرح بہم
پہنچائے جائیں جس طرح بڑے لوگوں کو پہنچائے جاتے ہیں، اگر وطن عزیز میں
زکواة کا نظام اپنی اصل اور حقیقی شکل میں رائج کردیا جائے، اگر مساوات
قائم کر دی جائے، حق دار کو اس کا حق ادا کردیا جائے، اگر انصاف سستا اور
سب کے لئے ہو اور اگر مزدور کو اس کی پوری مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے
مل جائے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ اور ریاست
وجود میں آسکتی ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم شروع
میں صرف نظام تعلیم اور نظام انصاف کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرلیں،
ان ترجیحات پر کماحقہ عمل کریں، پوری قوم یکسو ہوکر، اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ
کی مسجد ختم کرکے، اپنی ذاتی اور فروعی اختلافات کو بھلا کر، اپنے مشترکہ
دشمن کو پہچان کر، متحد اور متفق ہوکر ان دو نکات پر عمل شروع کردے تو میں
سمجھتا ہوں کہ ہمارے مسائل بہت جلد ختم ہوسکتے ہیں اور ہم حقیقی آزادی حاصل
کرکے ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
حکومت کو فوری طور پر ماہرین تعلیم پر مبنی ایک بورڈ بنانا چاہئے تاکہ وہ
آپس میں مل بیٹھ کر کوئی ایسا مربوط پروگرام دے سکیں جس سے یکساں نظام
تعلیم کو رائج کیا جاسکے، اب تک ہمارے مختلف تعلیمی اداروں میں یکسر مختلف
نظام ہائے تعلیم رائج ہیں جن کی وجہ سے صرف امراءطبقے کو ترقی کے مواقع
میسر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک غریب کا بچہ چاہے وہ کتنا بھی اہل اور
لائق کیوں نہ ہو اسے ایسا کوئی موقع نہیں دیا جاتا، انہی مختلف النوع نظام
ہائے تعلیم کی وجہ سے طبقاتی کشمکش بھی پیدا ہوتی ہے اور ملک کے وسائل بھی
صرف ایک طبقہ پر استعمال ہوتے ہیں، اسے فوری اور ہنگامی طور پر عدل و انصاف
کے مطابق تمام طبقات کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر
بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب امیر اور غریب کے بچے ایک ہی ماحول میں ایک جیسا
نصاب پڑھیں گے تو تب وطن عزیز میں عدل و انصاف کی روح کے عین مطابق یکساں
مواقع فراہم ہوسکیں گے۔ ایسا نظام تعلیم رائج کیا جائے جس میں اعتدال کے
ساتھ ساتھ عصری علوم اور مذہبی علوم کی تعلیم دی جائے تاکہ ہماری آنے والی
نسلیں ہر طرح کی تعلیم سے بہرہ مند ہوسکیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ جو بچے
مشنری کرسچئن سکولز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کا مذہب کے ساتھ کسی قسم کا
لگاﺅ نہیں رہنے دیا جاتا اور جو بچے مذہبی اداروں اور مدرسوں وغیرہ میں
تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں عصری تقاضوں کے مطابق سائےنس اور دیگر علوم سے
آگاہی نہیں ہوتی جبکہ جو ادارے حکومتی سرپرستی میں تعلیم فراہم کررہے ہیں
وہاں بھی حالات انتہائی مخدوش ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی طرح
نظام عدل کو اسلامی اور جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
عدلیہ کی بحالی کے بعد چیف جسٹس صاحب اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ نظام عدل
واقعتاً عدل و انصاف پر مبنی ہو اور فوری اور سستا انصاف ہر پاکستانی کو
میسر ہوسکے لیکن جب تک حکومت اور پوری قوم ان کا ساتھ نہیں دیتی تب تک یہ
بیل بھی منڈے نہیں چڑھ سکتی۔ ہماری عدلیہ کی بالعموم اور ماتحت عدلیہ کی
بالخصوص حالت بہت خراب ہے۔ جو لوگ عدالتوں میں جاتے ہیں وہ میری بات سے
اتفاق کریں گے کہ وہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، عدل تو ہوتا ہی نہیں
جبکہ انصاف بھی سر بازار بکتا ہے۔ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وکیل کی بجائے
جج ہی کر لیا جائے تاکہ ان کو انصاف مل سکے۔ معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر
اس معاملہ میں چیف جسٹس صاحب کے نہ صرف ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں بلکہ اپنی
آراء بھی ان کو لکھ بھیجنی چاہئیں تاکہ جو معاملات ان کی آنکھ سے اوجھل بھی
ہیں وہ سامنے رکھ کر جوڈیشل پالیسی کی از سر نو تدوین کی جاسکے اور اس پر
عمل بھی کیا جاسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی ترجیحات میں بھی میانہ
روی اور عدل کو سامنے رکھیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم حقیقی آزادی کی طرف
اپنا سفر شروع نہ کرسکیں اور بالآخر اسے حاصل نہ کرسکیں۔ اگر تمام پاکستانی
تعلیم یافتہ ہوں گے، اگر انہیں کسی تعصب کے بغیر عدل و انصاف میسر ہوگا اور
عوام باشعور ہون گے تو مجھے یقین ہے کہ کوئی حکومت بھی پاکستان کے مفادات
سے سرتابی نہیں کرسکے گی اور نہ ہی اغیار کو اس قوم میں سے کوئی ایجنٹ مل
سکے گا، تب ہی حقیقی آزادی کا تصور اور خواب پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا۔
آئیے اس یوم آزادی پر عہد کریں کہ ہم خود بھی حقیقی آزادی کے لئے صدق دل سے
کوشش کریں گے اور حکومت کو بھی مجبور کریں گے، آخر یہ ہماری آنیوالی نسلوں
اور اس ملک خداد کی بقاء کا سوال ہے....! |