الحمدللہ رب العلمین
والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
عشق کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے ، عشق نے بڑی بڑی مشکلات میں عقل انسانی کی
راہنمائی کی ہے ، عشق اک قوت کا نام ہے جو محب کو محبوب کے لیے تن من دھن
سب قربان کر دینے کا حوصلہ دیتی ہے ، عشق ایک کیفیت کا نام ہے جو محب کو
محبوب کے جلووں میں گم کر دیتی ہے اور محب عشق کی کیفیت میں محبوب سے تعلق
رکھنے والی ہر شے کا ادب و احترام کرتا ہے اور ہر اس چیز کو جس کا علاقہ
محبوب سے ہو اپنی جان سے بھی ذیادہ عزیز بنا لیتا ہے۔عشق محب کے لیے محبوب
کو بے مثال بنا دیتا ہے ۔عشق عاشق کی آنکھوں کو وہ وارفتگی دیتا ہے کہ وہ
زبان حال سے پکار اٹھتا ہے کہ
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
مسند امام احمد سے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادکا
مفہوم عرض کرتا ہوں کہ
جب انسان کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو وہ محبت اس کو محبوب کا عیب دیکھنے
سے اندھا اور محبوب کا عیب سننے سے بہرہ کر دیتی ہے۔
یعنی عشق میں محب کو محبوب بے عیب نظر آتا ہے۔
عشق کو اہل علم دو طرح سے دیکھتے ہیں
1۔ عشق مجازی
2۔ عشق حقیقی
عشق مجازی وہ عشق ہے جو مخلوق میں سے کسی کے لیے ہو اور اس میں اللہ کو
راضی کرنا مقصود نا ہو۔
عشق حقیقی وہ عشق ہے جو خالق کائنات سے ہو ۔ اللہ کے انبیاء علیھم السلام
سے اور اولیاء کرام علیھم الرضوان سے عشق بھی عشق حقیقی میں آتا ہے کیونکہ
ان سے محبت و عشق کی بنا یہ ہے کہ یہ اللہ کی جماعت ہیں اور ان کا تعلق
خالق کائنات سے ہے- ان سے محبت و عشق سے اللہ خوش ہوتا ہے اور اللہ کو راضی
کرنا مقصود ہوتا ہے۔
میرا مقصود یہاں عشق حقیقی بیان کرنا ہے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کا انبیاء کرام
علیھم السلام اور اولیاء عظام علیھم الرضوان نے درس دیا بلکہ خود خالق
کائنات اس کا حکم دیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی ایمان والوں کی نشانی بیان فرماتا ہے کہ
والذین امنو اشد حبا للہ
ایمان والوں کو اللہ سے شدید محبت ہوتی ہے
عشق حقیقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کے محبوبوں سے بھی محبت کی جاۓ
صرف اللہ سے محبت فائدہ نہ دے گی۔ سورۃ آل عمران آیت نمبر 31 میں ارشاد
باری تعالی ہے
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
میرے حبیب آپ فرما دیجیے کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو
میری اتباع کرو(پھر) اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔
بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس میں تین
خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت و حلاوت پا لے گا ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی اور
اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسکو تمام ماسوا سے ذیادہ پیارے ہوں، دوسری
یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے اور تیسری یہ کہ وہ کفر میں
لوٹ جانا ایسا برے سمجھے جیسا کہ آگ میں پھینکے جانے کو برا سمجھتا ہے۔
اس حدیث میں جہاں اللہ اوراسکے رسول سے محبت کی تلقین کی جا رہی ہے وہیں
اولیاء سے محبت کا حکم نامہ بھی جاری ہو رہا ہے۔
اس میں اللہ تعالی اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بے دینوں کا
رد فرماتا ہے ہے جو عشق حقیقی کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اللہ کے انبیاء اور
اولیاء کو عشق الہی سے جدا گردانتے ہیں اور من دون اللہ کی آیات کا مصداق
انبیاء اور اولیاء کو بتاتے ہیں حالانکہ تھوڑی سی عقل رکھنے والا شخص بھی
سمجھتا ہے کہ دوست اور دشمن میں فرق ہوتا ہے ، دوست کے لیے عزت ہوتی ہے اور
دشمن کے ذلت۔ تو جو اللہ کے دوست ہیں وہ اللہ کے محبوب ہیں اور ساری عزت
اللہ اور اس کے دوستوں کے لیے ہے جبکہ جو اللہ کے دشمن ہیں ساری کی ساری
ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے ، تو اللہ کے دوستوں سے محبت بھی اللہ سے ہی
کہی جا ۓ گی کیونکہ اسی میں اللہ کی رضا ہے اور اسی میں ہماری عافیت۔
امام اہل سنت ، امام عشق و محبت ، حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ ایک
بہت خوبصورت نکتہ بیان کرتے ہیں کہ معرفت الہی وہ معرفت محمد ہے صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم جس کو ان صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت زائد ہے اسے معرفت
الہی بھی زائد ہے-
معرفت الہی چاہیے تو پہلے معرفت محمدی صلی اللہ علیہ واۂء وسلم ہونی چاہیے
اور معرفت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل ہوتی ہے عشق محمدی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے۔
اسی لیے صحابہ کرام علیھم الرضوان ان کے بعد تابعین کرام پھر اولیاء عظام
نے عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زور دیا اور اللہ تعالی کو صحابہ
کرام کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا پسند آیا کہ سب کو حکم فرما
دیا کہ ایسے ایمان لاؤ جیسے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ
ایمان لاۓہیں-
یوں تو صحابہ کرام علیھم الرضوان کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
واقعات شمار نہیں کیے جا سکتے پر میں یہاں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری
سمجھتا ہوں تاکہ ان کے بے مثال عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنی
سی جھلک ہمارے دلوں کو بھی منور کرے-
صلح حدیبیہ کے بعد جب عروہ بن مسعود ثقفی اپنی قوم میں واپس آۓ تو آکر کہا۔
اے قوم!
خدا کی قسم ! مجھے بادشاہوں کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے
قیصرو کسری اور نجاشی کے دربار بھی دیکھے ہیں ۔ خدا کی قسم میں نے ہرگز کسی
بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اسکے اصحاب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم
اصحاب محمد ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرتے ہیں – واللہ وہ رینٹ یا
تھوک یا بلغم نہیں پھینکتے مگر وہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر ہوتی ہے
اور وہ اسکو اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ کوئی حکم کرتے ہیں
تو وہ تعمیل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب
وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی پر وہ ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ آپس میں لڑ مریں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آوازیں
پست کر لیتے ہیں اور ان کی تعظیم و تو قیر کی وجہ سے کوئی ان کی طرف تیز
نگاہی سے نہیں دیکھ سکتا ۔ انہوں نے تم پر رشدو ہدایت کا کام پیش کیا ہے تم
اسکو قبول کر لو۔
اس ایک روایت سے ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ صحابہ کراو علیھم الرضوان نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت کرتے تھے اور کس قدر آپ کی تعظیم و
توقیر کرتے تھے۔
صحابہ کرام کے بعد اولیاء عظام نے بھی بے انتہا عشق رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا مظاہرہ کیا ، اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ
کے لیے کام کیا ۔ ہر ہر ولی اللہ اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے انداز میں
عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ بنا اور اسکی چال ڈھال عشق رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درس دیتی رہی۔عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے فروغ کے لیے اولیاء عظام نے نظم و نثر دونوں کا سہارا لیا ۔
انسویں صدی میں امام اہلسنت ، امام عشق و محبت ، الشاہ امام احمد رضا خان
بریلوی رضی اللہ عنہ نے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دستگیری
فرمائی اور اپنی نظم و نثر دونوں طریقوں سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور نہ صرف اجاگر کیا بلکہ مسلمانوں کے سینے
عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انمول خزانے سے بھر دیے۔
اور ہر طرف ایک ہی صدا گونج اٹھی کہ
سب سے اولی و اعلی ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی
اپنے مولی کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبی
ہر طرف سے درود و سلام کے نغمات کانوں میں رس گھولنے لگے
مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ کچھ اس انداز میں عشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے رنگ میں رنگے کہ ان کو دیکھنے والے پکار اٹھے کہ
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چھن چھن کر آپ کے سینے سے فیض و
جود کی صورت میں نکلا تو جس جس کو وہ فیض پہنچا تو وہ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کا ایسا دیوانہ ہو گیا کہ اس کے دل کی صدا بن گئی کے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی یاد میں وہ ہر پل ڈوبا رہے اور اک دعا اس کے ورد لب بن
گئی کہ
دل کو ان سے خدا جدا نہ کرے
بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا صدقہ ہمیں سچا پکا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بناۓ اور عشق رسول
میں زندہ رکھے اور عشق رسول میں موت عطا فرماۓ ۔ آمین بجاہ النبی الا مین
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
طالب دعا و طالب غم مدینہ
ڈاکٹر صفدر علی قادری |