روتے روتے اس کی حالت خراب ھو گئی تھی۔۔اجڑے بال،سوجی
آنکھیں ،سوگوار چہرہ اور ملگجا سا شکن آلود لباس ۔اس کے آنسو جمیل کو اپنے
دل پر گرتے محسوس ھو رھے تھے۔اس نے بے دردی سے اپنی لال لال آنکھوں کو رگڑا
اور جی کڑا کر کے بولا "ماں!" اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔اس منہ سے یہ لۤفظ
کتنا برا لگتا تھا نا مگر آج زندگی کی نئیؔ امید لگا تھا۔۔وہ بے تاثر چہرہ
لیے اسے دیکھے گی۔چند دنوں میں ہی کتنا بڑا بڑا لگنے لگنے لگا تھا ۔اس کی
ڈانٹ سن کر سہم جانے والا ،مار کھا کر رونے والا جمیل اب اسے تسلیاں دیتا
تھا۔۔
ماں کو یوں اپنی طرف ٹکرٹکر دیکھتا پا کے اس نے ایک گہرا سانس لیا اور گلے
میں پھنسے گولے کو نگلتے ہوے بولا"ماں !ماموں کی باتوں کا غم مت کرو۔ جب سر
پر سے سائبان چھن جاتا ہے تو سگے بھی سوتیلے ہو جاتے ہیں ۔۔ اپنے بھی پراے
ھو جاتے ھیں پھر ان عارضی سہاروں کا کرنا بھی کیا ھے رب ھے نا ماں"اور وہ
ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی آج اسے ایک ایک بات یاد آرہی تھی ۔۔
جب دلہن بن ک وہ اس گھر میں آئی تھی تو استقبال کرنے والوں میں ننھا جمیل
بھی شامل تھا۔سب کو کہتا پھر رہا تھا کہ میری امی آئی ہیں میری امی آئی
ہیں۔۔اس کی سہلیاں خوب مذاق اڑا رہی تھیں۔اسے لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ظلم
ھوا ہے۔اور پھر اس ظلم کا بدلہ ساری عمر وہ جمیل سے لیتی آئی تھی۔بیچارہ
معصوم ماں کی محبت کو ترسا تھا بہانے بہانے سے اس کے پاس آتا۔اس کے باپ کے
سامنے تو وہ اس سے بھت پیار جتاتی تھی مگر ان کی غیر موجودگی میں اس کو
فضول بوجھ۔، ناکارہ وجود،خوامخواہ کی زمہ داری اورنہ جانے کن القابات سے
نوازتی۔۔ کبھی اپنے پے ہونے والا ستم یاد آتا تو مار بھی بیٹھتی تھی۔کبھی
زیادہ جلال میں ھوتی تو اس کی مرحوم ماں کو طعنے دیینے لگتی۔
وہ بیچارہ تو محبت کی، مامتا کی تلاش میٍں آتا تھا اس کا رویہ دیکھ کر خود
ھی دور ھو گیا۔اتنا خوب صورت بھولا بھالا سا بچہ اب گم سم رہنے لگا تھا ۔نئے
بہن بھائی آۓ تو خوشی سے کھل اٹھا۔پہلے پہل تو اس نا اپنے بچوں کو اس سے
دور رکھنے کی کوشش کی مگر وہ بچے سنبھال لیتا تو یس کاکام آسان ھو
جاتا۔رانی اور پپو اس سے بہت مانوس تھے۔سکول سے واپسی پر وہ ان کے لیے ضرور
کچھ نہ کچھ لاتا۔اپنے کھلونوں سے ان کا جی بہلاتا اور انھیں پڑھاتا بھی تھا۔
مگر نہ جانے کیوں جب بھی اس کی سہلیاں آتیں تو اسے بیچاری وغیرہ کہہ کر اس
کے خود ساختہ زخموں پر نمک چھڑک جاتیں تو اسے جمیل کا بےضرر وجود اپنی
ھنستی بستی زندگی میں کانٹے کی طرح کا لگنے لگتا حالانکہ وہ جانتی تھی کہ
اتنی خوشحال زندگی اس کی کسی سہیلی کی نا تھی مگر اس کی خود ترسی نے انھیں
شیر بنا دیا تھا۔
اور آج جب شکیل اس کا سب سے بڑا بیٹا ابھی میٹرک میں تھا تو طاہر اچانک
پڑنے والے دل کےدورے سے جان کی بازی ہار گۓ۔کاروبار اب جمیل سنبھالتا
تھا۔ماموں کا کہنا تھا کہ ماں اپنا اور بچوں کا حصہ لے کر ان کے گھر رہے ۔ممانی
کی باتیں اور ماموں کا انداز صاف بتاتا تھا کہ انھیں بہن اور بچوں سے نہیں
دولت سے دلچسپی ھے۔
آج ماموں پھر آۓ تھے۔ ماں نے کیا جواب دینا تھا سر جھکا کر بیٹھی تھی ۔ممانی
سے برداشت نا ہو سکا اور بول ھی پڑیں"دیکھ رضیہ تو اس سوتیلے کو ہم سگوں پر
ترجیح نا دے ارے اس کا بس چلے تو ابھی باہر نکال دے تجھےاور تیرے بچوں کو
ہاں" وہ کب سے خاموش بیٹھا تھا مگر اب رہ نا سکااور بول پڑا"محترم!ابا جان
یہ کاروبار میرے حوالے کر گۓ ہیں،اور میرے بھن بھای میری زمہ داری ھیں۔جب
پڑھ لکھ جائیں گے تو کاروبار بھی سنبھال لیں گے۔۔ماں کی یہی مرضی ھے۔ایک
بات اور رشتے سگے یا سوتیلے نہیں ہوتے بلکہ انسان کا رویہ انھیں قریب یا
دور لاتا ہے-
"تم کیا کہتی ھو رضیہ!" وہ اسے نظر انداز کے کچھ خفگی سے بولے”ھم اس کی
باتیں سننے نہیں تمہیں لینے آۓ ھیں"رضیہ نے سر اٹھا کر جمیل کی طرف دیکھا
اس کی آنکھوں میں فخر اور تشکر ملا جلا تھا۔بولو نہ ماں ! ھم بھیا کے ساتھ
رہیں گے"یہ رانی تھی اس نے جیسے فیصلہ کر لیا اور ایک اطمینان بھرا سانس لے
کر بولی”بھائی جان! جوان کماؤ بیٹے کہ ھوتے ہوۓ مجھے آپ کہ در پر آ ن
بیٹھنا اچھا معلوم نہیں ھوتا"ماموں ممانی یہ سنا کر چلے گۓ کہ بعد میں
پچھتاوا ھو تو وہ ان کہ گھر کا رخ نہ کرے۔
ب سے اب تک وہ رو رھی تھی ۔اب جمیل کہ تسلی دینے پر ایک دم پھٹ پڑی"ھااااۓ
تجھ جیسے ہیرے کی قدر نہ کی میں نے ھمیشہ برا سلوک کیا مجھے معاف کر دے
بیٹا مجھے معاف"
"کیا کرتی ھو ماں بھلا ماں بھی کبھی معافی مانگتی ھے اپنی اولاد سے چلو اب
یہ رونا بند "اور رانی کو پکارنے لگا"رانی او رانی چاۓ بنا لاؤ جلدی سے"اور
سامنے بیٹھا شکیل بڑے پیار سے اپنے بھیا کو دیکھ رھا تھا جو ماں کا سر سینے
سے لگاۓ اسے چپ کروا رھا تھا اس نے سوچا کہ میں بھی بھیا جیسا بنوں گا نرم
مزاج خیال رکھنے والا اور بڑے دل کا مالک!!!!!!! |