گُذشتہ سے پیوستہ۔
کامل علی نے اپنے ذہن میں ابوشامل سے رابطہ کرنا چاہا لیکن اُسے کوئی جواب
مُوصول نہیں ہُوا۔۔۔ وُہ تمام لوگ کامل علی کے نہایت نزدیک آ پُہنچے تھے۔
وُہ کم از کم بیس افراد تھے۔جنہوں نے نارنجی کلر کی دھوتیاں اپنے جسم پر
باندھ رکھی تھیں۔۔۔ جب کہ اتنی سردی کے باوجود بھی ایک بھی شخص نے قمیص
پہنی ہُوئی نہیں تھی۔ پیشانی پر لگے عیجب سے تلک کے نشان سے ظاہر ہُورہا
تھا۔ کہ وُہ سب ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کامل نے ایک مرتبہ پھر ابو
شامل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کامل علی کی یہ کوشش بھی بے سُود ہی
ثابت ہُوئی ۔ اچانک کسی نےاُسکا تمسخر اُڑاتے ہُوئے نہایت گرجدار آواز میں
اُسے مُخاطب کیا۔۔۔ مورکھ کِسے سہایتا کے لئے پُھوتکار (پُکار) رہا ہے۔
مورکھ منش ہو کر منش کو گھائل کرنے چَلا تھا۔۔۔ اب اُس جن زادے کا نام جپنا
چھوڑ دے۔ کیول وُہ اب یہاں نہیں پدھارے گا۔۔۔ پرنتو۔ نرکھ سُدھانے سے
پہلےایشور کو اَوشے یاد کرلے۔۔۔ کامل نے دیکھا کہ وُہ ایک سادھو تھا۔ جو
اُس سے مخاطب تھا۔ اُس کے سر پر ایک مُوٹی سی چُٹیا بندھی تھی۔ سر اُور
داڑھی کے تمام بال سفید ہُونے کیوجہ سے کامل علی کا اندازہ تھا کہ وُہ
بوڑھا سادھو کم ازکم عمر کی آٹھ دہائیاں دیکھ چُکا ہُوگا۔ لیکن اسکی پیشانی
پر ایک بھی سلوٹ موجود نہیں تھی۔ تمام چہرے پر بھبوت کی سفیدی میں سُرخ رنگ
کے تین تلک صاف نظر آرہے تھے۔۔۔ اُور اب وُہ اپنے ہاتھ میں خنجر لئے کامل
علی کی جانب ہی بڑھ رہا تھا۔ کامل علی نے اندازہ لگالیا کہ وُہی گھنشام داس
ہے۔ جسکے شکار کیلئے وُہ یہاں آیا تھا۔ اُور خود شکار ہُوگیا تھا۔۔۔کامل
علی نے مدد کیلئے یہاں وہاں دیکھنے کی کوشش کی لیکن تبھی سادھو کے چند
چیلوں نے مضبوطی سے اُسے پکڑ کر زمین پراسطرح اُوندھا ڈال دیا۔ جیسے جانور
کو ذبح سے قبل پچھاڑا جاتا ہے۔
اب مزید پڑھیئے۔
کامل علی کو جب مُوت واضح طُور پر سامنے دِکھائی دینے لگی۔ تو اُسے اچانک
مُولوی رمضان صاحب کی وُہ بات یاد آنے لگی۔ جس میں مولوی صاحب واعظ کے
دُوران لوگوں کو بتارہے تھے۔ کہ،، انسان کی سب سے قیمتی متاع ایمان ہے۔
اُور کامیاب لُوگ وہی ہُوتے ہیں۔ جو دُنیا سے رُخصت ہوتے ہُوئے اپنا ایمان
بچانے میں کامیاب ہُوجاتے ہیں۔ لِہذا کامل علی کو مولوی رمضان کی بات
جُونہی یاد آئی۔ اُسکی زُبان کلمہ طیبہ کے وِرد میں مشغول ہوگی۔ کامل علی
کی زُبان پر کلمہ کا ورد جاری ہُونے کی دیر تھی۔ کہ،، کامل علی کو ایک سکون
کی لہر اپنے سینے میں نازِل ہُوتی محسوس ہُونے لگی۔ جسکی وجہ سے کامل علی
کے خُوف نے شُوق کی صورت اختیار کرلی۔
کامل علی زندگی میں پہلی مرتبہ ذکرِ اِلہی کی لذت سے سرشاری کے لُطف میں
مستغرق تھا۔ کہ،، اچانک اُس کے کانوں نے ماحول میں بپا شور و شرابے کی طرف
اُسکے ذہن تک پیغام رسانی کی جِسکی وجہ سے کامل علی کو احساس ہُوا۔ کہ اُس
کے جسم سے گھنشام داس کے چیلیوں کی گرفت کمزور پڑتے پڑتے یکسر ختم ہُوچکی
ہے۔ کامل علی نے تعجب سے چاروں جانب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کردیا۔
حیرت انگیز طُور پر گھنشام داس کے تمام چیلے منظر عام سے ایسے غائب ہُوچکے
تھے۔ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔ جبکہ گھنشام داس کی خود کی حالت بھی
دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔۔۔ وُہ اپنے دونوں ہاتھ جُوڑے خلاوٗں میں کسی
نادیدہ ہستی کو ریحان شاہ مہاراج کے نام سے مخاطب کرتے ہُوئے۔۔۔ شماکردیں۔۔۔
شما کردیں مہاراج۔ کا راگ اَلاپنے میں مصروف تھا۔۔۔
کامل علی نے گھشام داس کو گڑگڑاتے دیکھا۔ تو اِسے یاد آیا ۔کہ،، وُہ تو
یہاں گھنشام داس کو زخمی کرنے کیلئے آیا تھا۔۔۔ لہذا کامل علی نے کمالِ
پھرتی سے ابو شامِل کے دیئے خنجر کو ہاتھ میں تولتے ہُوئے اچانک بے خبری
میں گھنشام داس پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے۔۔۔۔ چونکہ گھنشام داس کی توجہ
کسی نادیدہ ہستی کی جانب مبذول تھی۔۔۔ اسلئے اُسے سنبھلنے کا موقع بھی میسر
نہیں آیا۔۔۔۔ اُور وُہ چُوتھے ہی وار میں زمین پر مُرغ بسمل کی طرح تڑپنے
لگا۔۔۔۔زمین پر پڑے خُون اور گھنشام داس کے تڑپتے جسم کو دیکھ کر کامل علی
کے حواس بھی مختل ہُوچکے تھے۔۔۔ اُسے بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کہ،، اب
اُسے آگے کیا کرنا ہے۔۔۔ تبھی قدموں کی چاپ سُن کر جب کامل علی نے اپنے عقب
میں پلٹ کر دیکھا۔ تو ایک سفید رِیش درویش جسکی پیشانی سے عبادت کا نور
نمودار ہُورہا تھا۔ خشمگین نِگاہوں سے اُسکی جانب دیکھتے ہُوئے اُس سے
مخاطب تھے۔۔۔ نوجوان تُم نے یہ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔ میں یہاں تُمہاری مدد
کیلئے آیا تھا۔۔۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا۔ کہ مدد مِلنے پر تُم اتنے
حواس باختہ ہُوجاوٗ گے۔ کہ ایک انسان کی جان سے اپنے ہاتھ رنگ لُوگے۔
حضرت آپ کُون ہیں۔۔۔۔ ؟ اُور یہاں میری مدد کرنے کہاں سے آگئے۔۔۔۔؟ اُور آپ
مجھے حواس باختہ قاتل کہہ رہے ہیں۔۔۔ جبکہ چند منٹ پہلے ہی یہ گھنشام داس
خود بِلا وجہ میرے خون کا پیاسہ تھا۔۔۔ کامل علی نے خود کو سنبھالتے ہُوئے
اپنے عمل کی تاویل کیساتھ چند سُوالات بھی کرڈالے۔۔۔۔ بلاوجہ کوئی کسی کے
خون کا پیاسہ نہیں ہُوتا نوجوان! اُس درویش نے بدستور ناراضگی کا اِظہار
کرتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ میرا نام ریحان شاہ تبریزی ہے۔۔۔۔ اُور
اِس وقت تُم جِس علاقے میں کھڑے ہُو۔۔۔ یہ میری عملداری میں آتا ہے۔۔۔
اِسلئے جب میں نے تمہیں گھنشام داس کے چیلوں کے نرغے میں دیکھا۔تو تمہاری
مدد کیلئے چلا آیا۔۔۔ گھنشام داس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔۔۔ کہ،، وُہ میری
مُداخلت کے بعد تمہیں ایذا پُہنچا سکتا۔۔۔ لیکن تُم نے جلد بازی میں ناحق
ایک خون کرڈالا۔۔۔ میں جانتا ہُوں یہ سب کچھ تُم نے کسی شریر اُور من چلے
کے ایماٗ پر کیا ہے۔۔۔ لیکن میں پھر یہی کہوں گا۔کہ،، تُم نے اچھا نہیں کیا
ہے۔۔۔ اُور تمہاری بھلائی بھی اِسی میں ہے۔ کہ اُس جن زادے سے ہمیشہ کیلئے
دُور ہُوجاوٗ۔۔۔۔۔ اچھا اب جتنی جلد ممکن ہُو سیالکوٹ سے باہر نکل
جاوٗ۔۔۔۔۔ کیونکہ گھنشام داس کے قتل کی خبر۔۔۔۔ جنگ کی آگ کی طرح اُسکے
چیلوں تک پُہنچ رہی ہُوگی۔ اُور وُہ لوگ ابھی کچھ ہی دیر میں اپنے گُرو کے
قاتل کی تلاش میں سرگرمِ عمل ہُوجائیں گے۔۔۔ ریحان شاہ تبریزی نے بے چینی
سے فضاوٗں میں گھورتے ہُوئے کہا۔۔۔
ریحان شاہ تبریزی کی گفتگو نے کامل علی کو احساس دِلایا کہ،، اُس سے ایک
عدد انسان کا قتل سرذد ہُوچُکا ہے۔ جسے وُہ ریحان شاہ تبریزی سے گفتگو کرتے
ہُوئے بھول چکا تھا۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے ریحان شاہ تبریزی بھی درختوں کی جانب
چل دیا۔ اب گھنشام داس کی لاش کے پاس کامل علی تنہا کھڑا تھا۔ جبکہ رکشہ
ڈرائیور کا بھی دُور دُور تک کوئی اتَّا پتہ نہیں تھی۔۔۔ کامل علی نے خوف
کی وجہ سے ایک جھرجھری سی لی۔۔۔ اُور تیز تیز قدم سے واپسی کے راستے پر
دوڑنا شروع کردیا۔۔۔۔ مسلم آباد سے نکلتے ہی۔ کامل علی کا ابو شامل سے ذہنی
رابطہ بحال ہُوچکا تھا۔۔۔ ابو شامل نے بھی کامل علی سے یہی استدعا کی تھی۔
کہ،، وُہ جلد از جلد ۔ اسٹیشن کے پاس چلا آئے۔۔۔ کیونکہ گھنشام داس کےچیلے
پاگل کتوں کی طرح اپنے گرو کے قاتل کی تلاش میں سارے شہر میں سرگرداں ہیں۔
کامل علی جب قلعہ کی سیڑھیوں کی جانب بڑھا چلا جارہا تھا۔ اُسے دُور سے چند
نوجوان نظر آئے۔ جو رات کی تاریکی میں کسی کی تلاش میں بڑی بے چینی سے یہاں
وَہاں جھانکتے دِکھائی دیئے۔ وُہ سائڈ کی ایک گلی میں گھستا چلا گیا۔ جسکے
ساتھ دار الشفقت کی تختی نمایاں تھی۔ جہاں غالباً یتیم بچوں کی پرورش کی
جاتی ہُوگی۔۔۔۔ کامل علی کے گلی میں داخل ہُوتے ہی شائد اُن نوجوانوں کو
کامل علی پر شک ہُوگیا تھا۔ ۔۔۔جسکی وجہ سے بھاگتے ہُوئے اُن کی چپلوں کی
گونج رات کے اِس پہر صاف سُنائی دے رہی تھی۔۔۔۔ کامل علی جانتا تھا ۔ کہ
اگر اِس وقت وُہ گھنشام داس کے چیلوں کو ہاتھ آگیا۔۔۔ ۔ تو وُہ اسکی چیر
پھاڑ میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کریں گے۔۔۔ اسلئے بدحواسی میں وُہ ایک گھر
کے دووازے کھلے دیکھ کر۔۔۔۔اپنی جان بچانے کیلئے اُس گھر میں داخل
ہُوگیا۔۔۔۔ اندر داخل ہُوتے ہی اُس نے دروازے کی کنڈی لگالی۔۔۔ اُن
نوجوانوں نے شائد کامل علی کو اِس گھر میں داخل ہُوتے ہُوئے نہیں دیکھا
تھا۔۔۔۔ اِس لئے بھاگتے قدموں کی چاپ دھیرے دھیرے دُور ہُوتی چلی جارہی
تھی۔کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے کامل علی کو متوجہ کرتے ہوئے مُخاطب
کیا۔۔۔۔ اے مِسٹر کون ہُو تم۔ اُور گھر میں داخل کیسے ہُوئے۔۔۔۔؟ کامل علی
نے بوکھلا کر خاتون کی جانب دیکھا تو۔۔۔حیرت سے اُس کی چیخ نِکلے نکلتے رِہ
گئی۔۔۔۔ اُس کی نرگس اُسکے سامنے موجود تھی۔۔۔۔ لیکن نرگس کو دیکھ کر ایک
لمحے کیلئے کامل علی کو ایسا لگا جیسے،، نرگس نے اپنی زندگی کی دس منزلیں
مزید طے کرلی ہُوں۔۔۔۔ اُور اُسکے حُسن میں مزید وقار پیدا ہُوگیا ہُو۔۔۔۔
خاتون نے دوسری مرتبہ جب درشت لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔ تو کامل علی کے مُنہ
سے صرف اتنا ہی جملہ نِکل سکا۔۔۔۔۔ نرگس تُم یہاں۔۔۔۔؟؟؟۔
جاری ہے۔۔۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔ |