کچھ برس پہلے سمبڑیال شہر کے
گاؤں سیدووالی میں کھیلتی کودتی تھی کہ اچانک ایک دن ماں ،باپ نے بچی سے
تیار ہونے کو کہا ۔کہ اب ہماری بیٹی لاہور جائے گی ۔ وہا ں پر پروفیسر صاحب
کے گھر کام کرے گی۔پروفیسر صاحب ہماری لاڈلی کی اپنے بچوں کے ساتھ اچھی
پرورش بھی کریں گے ،اس کا خوب خیال رکھیں گے ،اور بیٹی تو بھی انکی خوب
خدمت کرنا ۔انہیں کسی شکایت کا موقع مت دینا۔ایسا نہ ہو کہ تیری کسی غلطی
سے بڑے صاحب ناراض ہوجائیں۔یہ تمام باتیں کرتے ہوئے،10سالہ فضہ بتول کو
اسکے والدین آج سے پانچ برس پہلے ڈیفنس میں مقیم پروفیسر سلمان کے حوالے
کرگئے ۔5سال سے فضہ ،پروفیسر سلمان کے گھر میں پروفیسر سمیت اسکی پوری
فیملی کی خدمت کررہی تھی۔صبح سویرے کام کا آغاز کرتی اور رات گئے فارغ
ہوتی۔لیکن 17جنوری بروز جمعہ سلمان نے بچی سے کوئی چیز منگوائی جس کے لانے
میں دیر ہوگئی۔اور بس ایک دفعہ پھر غربت ،امراء کے سامنے دب گئی
فضہ کے لیٹ ہونے پر پروفیسر سلمان آگ بگولہ ہوگیا۔اور لوہے کے رارڈ سے
معصوم ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنانے لگا۔دوران تشدد پروفیسر سلمان اپنے
حواس یہا ں تک کھو بیٹھا کہ اسکو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ رارڈ کئی بار بچی
کے سرپربھی جا لگا۔فضہ بتول چیختی چلاتی ، تڑپتی ہوئی بے ہوش ہوگئی۔اس کا
دماغ مکمل طورپر پٍس چکا تھا۔جسم کے مختلف حصوں پر زخم اور نیلوں کے نشان
تھے ۔تشدد کے باعث پھیھڑوں اور گردوں نے کام چھوڑ دیا۔اور اسطرح دو دن تک
سروسز ہسپتال کے آئی سی یو میں ونٹیلٹر پر رہنے کے بعد 19جنوری بروز اتوار
14سالہ فضہ جان کی بازی ہار گئی۔یقینا فضہ کے والدین اپنی غربت کو فضہ کی
موت کا قصور وار کہتے ہوں گے۔جس وجہ سے انہوں نے فضہ کو معمولی سی تنخواہ
کے عوض ایک ظالم درندے کے گھر نوکری پر رکھوا دیا۔
قارئین فضہ بتول کی موت کی وجہ یقینا اسکی غربت بھی بنی ہے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ معاشرے میں بسنے والے ہم سب لوگ بھی اس موت کے ذمہ دار ہیں پاکستان کے
آئین کے مطابق 14سال سے کم عمر ہر بچے سے کسی بھی قسم کی مشقت لیناجرم ہے
تو گورنمنٹ کی جانب سے بنائے گئے ادارے کیوں نہیں ان لوگوں کے خلاف کاروائی
کرتے ،اگر یہ لوگ گورنمنٹ کی بنائے گئے اداروں کی نظرسے اوجھل ہوجاتے ہیں
تو ریاست میں بسنے والے فرد کی حثیت سے ہماری بھی تو یہ ذمہ داری ہے کہ ہم
میں سے کوئی بھی کسی کم عمر کو کام کرتا دیکھے توانسانی حقوق کے اداروں کو
فوری اطلاع دے۔ہمارے ہاں فضہ بتول ہی اسطرح کے تشدد کا نشانہ نہیں بنی بلکہ
اس سے پہلے بھی ہمارے ہاں بہت سے کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ جسمانی
زیادتی کے ساتھ ساتھ جنسی ذیادتی کے بھی کئی کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں
کچھ رروز پہلے لاہور کے علاقے عسکری 9میں میں گھریلو مالکن نے چوری کے بے
بنیاد شک میں ارم نامی ملازمہ پر اتنا تشدد کیا کہ وہ بھی زخموں کو تاب نہ
لاتے ہوئے اپنی جان سے گئی۔اسی طرح کچھ عرصہ قبل ملتان سے تعلق رکھنے والی
تحمینہ نامی خاتون پولیس وارڈن کو اپنے گھر میں رکھے ملازم، 10سالہ اسد پر
موجائل چوری کا شبہ ہوا تو اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ ملکر اس کم عمر بچھے کو
گھر میں ہی الٹا لٹکادیا ۔اور دونوں ماں بیٹا اس بچے کو ڈنڈوں سے مارتے رہے
یہاں تک کہ وہ بھی شدید زخمی حالت میں ہمسائیوں کی مداخلت کے بعد ہسپتال
پہنچایا گیا۔اسد کو اس ظالم خاتون سے بچا کر اسکے مہلے داردں نے اپنا حق
ادا کردیا۔لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن میں بھی مالک مکان کے بیٹے کے ہاتھوں
گھریلو ملازمہ کے ساتھ جنسی زیادتی بعداز قتل کے واقعہ کو بھی زیادہ عرصہ
نہیں گزرا۔ مشہور ایڈوکیٹ نعیم کے ہاتھوں شازیہ نامی ملازمہ کا قتل بھی
کوئی پرانی بات نہیں۔یقینا ایسی بہت سی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں
یا شاید کم عمر گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرے میں موجود کچھ امراء کے لیے
فیشن بن گیا ہے ایسے تمام واقعات کے بعد حکومتی ردعمل تو ضرور نظرآتا ہے
حکام بالا کی جانب سے ملزموں کو سخت سے سخت سزا دلوانے کے دعوے بھی کیے
جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اسکی عملی تصویر نظر نہیں آتی۔فضہ بتول ،ارم،شازیہ،
اسد،سمیت بہت سے تشدد زدہ بچوں کے ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں جن میں سے
کچھ جیلوں میں اور کچھ پروفیسر سلمان کی طرح دوران تفتیش ہیں لیکن سب سے
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے بچے چائلڈ لیبر کے قوانین
میں شامل ہی نہیں ہوتے۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں وسیع
پیمانے پر قانون سازی کرے اور مجبوریوں کے کوہ گراں تلے دبے لوگوں کو جگر
کے ٹکٹروں سے محروم ہونے سے بچائے۔۔پنجاب پولیس نے پروفیسر سلمان کو گرفتار
کرکے اپنا فرض پورا کردیاہے لیکن اب عدلیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ
پروفیسر سلمان سمیت تمام زیر حراست ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے کر معاشرے
کے لیے عبرت کانشان بنا دیں۔
وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں
جنہیں تتلی پکڑنا تھی جنہیں باغوں میں ہونا تھا |