سری لنکا کے خلاف شارجہ اور دبئی میں چوکوں اور چھکوں سے
شہرت پانے والے نئے پاکستانی اوپنر شرجیل خان کا کہنا ہے کہ ایک چھوٹے شہر
سے پاکستان ٹیم تک پہنچنے کا سفر آسان نہ تھا لیکن یہ یقین تھا کہ ایک دِن
محنت ضرور رنگ لائے گی۔
حال ہی میں ڈوئچے ویلے نے شرجیل خان کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت کی٬ جسے
ہماری ویب اپنے قارئین کے لیے خصوصی طور پر شائع کررہی ہے تاکہ وہ بھی اپنے
قومی ہیرو کے بارے میں جان سکیں-
|
|
شرجیل نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل تین سیزن اچھا کھیلنے کے بعد وہ
قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے پرامید تھے۔ انہوں نے کہا کہ خلیج میں کیریئر
کے پہلے ہی بین الاقوامی مقابلوں میں اچھی کارکردگی سے بے انتہا خوشی ہوئی۔
پاکستانی ٹیم میں نئے آنے والوں کا ڈریسنگ روم کی سرد مہری اور سیاست کا
سامنا کرنا عام سی بات ہے مگر شرجیل خان کو ایسی کوئی شکایت نہیں۔ وہ کہتے
ہیں کہ مصباح الحق، حفیظ اور شاہد آفریدی نے بہت حوصلہ افزائی کی، ٹیم کا
ماحول بہت اچھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم میں آنے کے بعد کھیل کے بارے میں انہیں کئی نئی چیزیں
سیکھنے کو ملیں جن کا ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی فائدہ ہو رہا ہے اور حالیہ فرسٹ
کلاس ڈبل سینچری اسی کا ثمر ہے۔
شرجیل خان کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔ وہ قدیم قلعوں، تاریخی مقبروں اور
تالپور جنگجوؤں کے اس شہر سے تعلق رکھنے والے فیصل اطہر اور رضوان احمد کے
بعد تیسرے کھلاڑی ہیں جنہیں بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا
اعزاز ملا۔ اپنی پہلی سیریز کھیلنے کے بعد شرجیل خان جب واپس حیدر آباد
لوٹے تو شہر کے باسیوں نے اپنے ہیرو کو سرآنکھوں پر بٹھایا۔ اس کا احوال
بتاتے ہوئے شرجیل کا کہنا تھا کہ حیدر آباد والوں نے ان کی توقعات سے بڑھ
کر پذیرائی کی۔ محلے کے لوگوں نے ان پر پھول برسائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ
شہریوں کی محبتیں سمیٹ کر جب گھر پہنچے تو بہت اچھا لگا۔
شرجیل کہتے ہیں کہ ان کا پاکستان ٹیم تک پہنچے کا سفر کٹھن تھا مگر یہ ان
کے والد کا جنون تھا اور انٹرنینشل کرکٹر بننا والد کے ہی سپنوں کی تعبیر
ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں حیدر آباد میں صرف ایک کلب تھا۔ ان کے
والد سہیل محمود خود بھی فرسٹ کلاس کرکٹر رہے ہیں۔ وہ انہیں کراچی کسٹمز
اکیڈمی لے گئے۔ وہ ہفتے میں تین دن کراچی میں اور چار دن حیدر آباد میں
کھیلتے رہے۔
|
|
شرجیل نے بتایا کہ اکیڈمی میں سابق ٹیسٹ کرکٹر جلال الدین اوردیگر کوچز نے
رہنمائی کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے ان کے لیے بہت سی مشکلات کا
سامنا کیا اور وہ اب تک ان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔
شرجیل خان گزشتہ سات برس سے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں حیدرآباد ہاکس اور
زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیموں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ چھپن فرسٹ کلاس
میچوں میں تین ہزار آٹھ سو انیس رنز بنانے والے چھوٹے خان کا کیریئر گیارہ
سینچریوں سے مزین ہے۔ شرجیل خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ اور
انٹرنیشنل کرکٹ کا کوئی موازنہ نہیں۔
شرجیل خان نے بتایا کہ سعید انور ان کے فیورٹ بیٹسمین ہیں اور وہ انہی کے
نقش قدم پر چل کر پاکستان کرکٹ کے لیے اعلیٰ کارنامے انجام دینا چاہتے ہیں۔
سعید انور کی طرح پرکشش اسٹروکس اور فطری صلاحتیوں کے مالک شرجیل کہتے ہیں
کہ بچپن سے ہی انہیں سعید انور کا اسٹائل پسند تھا اور اب ان کی خواہش ہے
کہ ان کے کھیل میں سعید انور کی طرح مستقل مزاجی آجائے۔ وہ سعید انور سے
ملاقات کے بھی متمنی ہیں۔
شرجیل خان سعید انور کی طرح کرکٹ کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ بی کام کی ڈگری انہوں نے حاصل کر لی ہے اور اب ایم بی اے کرنے کا
ارادہ رکھتے ہیں۔ شرجیل کرکٹ میں اپنی منزل آسمانوں میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ
کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے عالمی کپ جیتنا ان کا ہدف ہے۔گھوڑے کی پہچان اس
کی چال سے ہوتی ہے اور شرجیل کی خلیج میں پہلی چال دیکھ کر یہ برملا کہا جا
سکتا ہے کہ وہ لمبی ریس کے لیے تیار ہیں۔ |