نوجوان شاعر، عبدالکریم کریمی

 عبدالکریم کریمی صاحب گلگت بلتستان کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ہیں۔ سچ پوچھے تو کئی نقاد دوستوں کے کریمی کی شاعری پر اشکالات ہیں اور بجا ہیں۔ مگر اس میں دو رائے نہیں کہ کریمی نے بہت جلد ہی گلگت بلتستان میں اپنا امیج بنایا ہے۔ دل کی بات یہ ہے کہ کریمی کی نظم و نثر سے زیادہ کریمی کے لب و لہجہ نے ان کو '' پالولر'' بنا دیا ہے۔ ان سے فون میں بات کرو یا بالمشافہ، کریمی دلوں کو جیت لیتا ہے۔ میں خود اس کے انداز ملن اور گفتار لین سے متاثر ہوں۔

عبدالکریم کریمی کے فن پر تو اہل علم و ارباب قلم ا ور صاحبان فکر و اساتذہِ نقد و نظرہی روشنی ڈالیں گے۔ تاہم مجھے جو سمجھ میں آیا وہ کچھ یوں ہے کہ لب و لہجہ کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کی صداقت ہے، یعنی کسی بھی جذبہ خواہ وہ ارفع ہو یانیچلی سطح کا، اس طرح ظاہر کرنا کہ حقیقت آشکارا ہوجائے او ر سامع ایسا محسوس کرے کہ گویا اس(شاعر یاقلم کار) نے اس(قاری یا سامع) کی دل کی باتیں کرید کرید کروہی باتیں خوبصورت انداز میں طشتری میں رکھ دیا ہے یعنی اس کے دل کی بات کہہ دی ہے۔ اور ایسا لب و لہجہ اور انداز بیاں کا مبالغہ اور تصنع سے پاک و صاف ہونا از بس ضروری ہے ۔ اور میرے دوست عبدلکریم کریمی کے لب و لہجہ اور انداز بیاں میںیہ خصوصیات نمایاں اور ظاہر و باہر ہیں۔

کریمی شاعر بھی ہیں۔کالم نویس بھی ہیں۔ افسانہ نگار بھی ہے اور ایک بہترین مقرر بھی ہے۔ ایک مذہبی طبقہ کے ذمہ دار آدمی ہے۔ ان کی شاعری،نثری نگاری اور خطابت میں نہ فلسفہ طرازی ہے نہ معنی آفرینی، نہ بلند خیالی ہے نہ جدت بیان۔ کریمی آسمان سے تارے توڑ لانے کی باتیں نہیں کرتے بلکہ وہی عمومی باتیں بے دھڑک کہتے چلے جاتے ہیں جو عام طور پر سب کے دل و دماغ سے گزرتی ہیںلیکن کہتے اس انداز سے ہیں کہ دل میں اتر جاتی ہیں۔یہاں ایک راز'' اوٹ'' کردوں کہ میرا کریمی کے بارے اس طرح لکھنا بعض دوستوں کو نہیں بھاتا ہے مگر میں کیا کروں کہ میں صاف لکھنے کا عادی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کریمی کے فن پر یہ چند الفاظ بھی ایک ''طفل مکتب'' کی طرف سے کچھ زیادہ ہی ہیں، کیونکہ جہاں اساتذہ ادب بالخصوص محترم شیر باز علی برچہ، جمشیدخان دکھی، امین ضیائ، عبدالخالق تاج،استاد حفیظ شاکر، پروفیسرالہامی، حسن حسرت، عنایت اللہ شمالی،حبیب الرحمان مشتاق اور میرے دوست پروفیسر احمد سلیم سلیمی جیسے لوگ کریمی کے فن پر نقدو نظر کریں گے وہاںطفلانِ مکتب اورمبتدئین ادب کے لئے ڈینگیں مارنا مناسب نہیں ہے۔ میرے جن احباب کو کریمی صاحب کے فن میں سرقہ بازی نظر آتی ہے ان کو چاہیے کہ وہ اس کا کھل کر اظہار کریں تاکہ آئندہ اس کی تلافی کی جاسکے۔

یہ چند الفاظ کریمی نمبر کے لیے بطور مستحضر کے طور پر کاغذ کے دل پراتارا ہے۔خصوصی نمبر میں میرے سفر نامے کا آخری قسط بھی شامل ہے جو بہت طویل ہے لہذا مجھے طوالت سے گریز کرنا چاہیے۔عبد لکریم کریمی کے سب سے پسندیدہ اشعار آپ کو بھی سناتا چلاجاؤں ۔ گلگت بلتستان کو خوبصورتی بالخصوص ضلع غذر کی ہیئت،حسن جمال کو سامنے رکھ کرمیرے دوست کریمی نے ایک دل آویز غزل کہی ہے جس کے چند بند یہاں آپ کو محظوظ کرنے کے لیے درج کئے جاتے ہیں۔ان کی یہ غزل ان کی نئی کتاب ''تیری یادیں'' کے صفحہ نمبر ٣١ پر ''یہ میرا گلگت بلتستان'' کے عنوان سے مرقوم ہے۔ملاحظہ ہو
فلک کے ماہ و اختر بولتے ہیں
پہاڑوں کے یہ پتھر بولتے ہیں
اسے کہتے ہیں سیاحوں کی جنت
یہاں کے سب گُل و تر بولتے ہیں
پہاڑی سلسلوں میںہر قدم پر
زمرد لعل و جوہر بولتے ہیں
اچھلتی کودتی نہروںکی مستی
چمن میں اب کوثر بولتے ہیں
لب دریا پہ ٹیلے ریت کے ہیں
ذرا تو دیکھیے زر بولتے ہیں
ذرا اُڑ کر یہاں کے ٹو کو دیکھو
پرندوں کے کھلے پر بولتے ہیں
کھڑا کس شان سے ہے ننگا پربت
مناظر اس کے اکثر بولتے ہیں

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 433811 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More