یوم یکجہتی کشمیراور اس کے تقاضے !

 5 فروری مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن ہے۔اس دن نہ صرف پاکستان اور آزاد کشمیر بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری موجود ہیں ٗوہاں کشمیر کے آزادی پسندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ دن بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔1989 ء میں جب کشمیری نوجوانوں نے بھارت کی مسلسل عیاریوں اور دھوکے بازیوں کے بعد آزادی وطن کی تحریک کو ایک بار پھرنئے جوش و جذبے اور سرفروشانہ انداز میں آگے بڑھانے اور چلانے کا فیصلہ کیا ٗتوسر ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں نکل کھڑے ہونے والے آزادی کے ان متوالوں نے 1947 ء میں آزادی کی تحریک کے لیے بنائے گئے بیس کیمپ کا رخ کیا۔روزانہ سینکڑوں کی تعدادمیں نوجوان نام نہاد لائن آف کنٹرول کو روندتے ہوئے آزاد کشمیر میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔مگر افسوس کہ یہاں کے حکمران اور سیاسی زعماء اقتدار کی بندر بانٹ اور اپنے اپنے مفادات کے چکروں میں اس قدر مصروف تھے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھڑکنے والے آزادی کے نئے شعلے اور اس کے نتیجے میں آزاد خطے کی طرف ان کے رجوع کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا وہ ان سب حالات و واقعات اورسامنے کی صورتحال سے بے خبر تھے یا اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے؟۔یہ وہ حالات تھے کہ جب جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے اس وقت کے امیر کرنل (ر )محمد رشید عباسی (مرحوم ) ٗسیکرٹری جنرل محمد اعجاز افضل اور ان کے جواں عزم و ہمت ساتھیوں نے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ہزاروں نوجوانوں کی میزبانی کا فیصلہ کیا اور اس ساری صورتحال کے پس منظر اور پیش منظر سے جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کو نہ صرف مکمل طور پر آگاہ کیا بلکہ میزبانی کے سلسلے میں ان سے امداد کی درخواست بھی کی گئی ۔اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے راہنماوٗں کونہ صرف اپنے مکمل تعاون اور امداد کی یقین دہانی کروائی بلکہ ایک پریس کانفرنس کر کے اس ساری صورتحال سے قوم کو آگاہ کیا ۔انہوں نے حکمرانوں اور عوام سے کشمیریوں کی اس جدوجہد کی تائید و حمایت اور پشتیبانی کی اپیل بھی کی۔

یہ قاضی حسین احمد (رحمتہ اﷲ علیہ )ہی تھے کہ جنہوں نے 5 فروری کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ اورپھرا ن کی سربراہی اور قیادت میں ہی سب سے پہلے 5 فروری 1990 ء کویوم یکجہتی کشمیر منایا گیا تھا۔جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے اور کشمیریوں اور ان کی جدوجہد سے دلی وابستگی اور لگاؤ کا واضح ثبوت بھی ہے۔پاکستان کا بچہ بچہ اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے ہندو بنیاء کی غلامی سے آزادی کے لیے تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ شہدا کا خون رنگ لائے گا اور سرزمین کشمیر پر ایک دن ضرور آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ بھارت ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیری مردوں ٗعورتوں اور معصوم بچوں کا قاتل ہے۔دوسری طرف یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ نام نہاد عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور تنظیمیں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے شدید ترین مظالم اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔کشمیری آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ٗ مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کو دیکھئے کہ وہ پھر بھی کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کی رٹ تواتر کے ساتھ لگاتا چلا جا رہا ہے۔بھارت نے اپنے راہنماؤں کے وعدوں اور اعلانات کے باوجود کشمیر کے عوام کو ابھی تک اپنی آزادانہ رائے اور مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں دیا ہے۔کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کو اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے اور یہ فیصلہ دیاہوا ہے ۔مگر نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ 1948 ء اور 1949 ء میں منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ابھی تک عملدرآمدکی نوبت نہیں آسکی ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کی آواز پر کان دھریں اور اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں ٗمگر جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھارتی حکمران آزادی کی اس تحریک کو طاقت کے زورسے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔سات لاکھ سے زائد بھارت افواج اور سیکورٹی کے دوسرے ادارے ابھی تک تمام تر ظلم وتشدد اور کشمیریوں کے قتل عام کے باوجود ان کے جذبہ آزادی کو کمزور کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔5 فروری بھارت کے ظلم واستبداد اور ہٹ دھرمی کے خلاف اور کشمیریو ں کی لازوال جدوجہد آزادی کی حمایت میں تجدید عہد کا دن ہے۔ہر آزادی پسند انسان کشمیریوں کی اس جائز جدوجہد کا حامی ہے۔تاہم اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجودعالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی عدم دلچسپی ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔اس میں بھارت کے موثر پروپیگنڈ ے کا بھی بڑا عمل دخل ہے ٗجبکہ عالمی سطح پر کشمیری حریت پسندوں کی حمایت میں موثر اور اجتماعی کاوشوں کی کمی دیکھنے میں آتی ہے ۔اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس پر پاکستان کی ہر حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں بلکہ تمام طبقات کا موقف یکساں رہا ہے۔البتہ جنرل (ر)پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں امریکی خوشنودی یا پھر بھارتی حکمرانوں کی مکارانہ چالوں میں آکر کشمیر کے مسئلہ پر قومی موقف سے ہٹ کر مختلف آپشن پیش کیے ۔جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان دفاعی پوزیشن میں چلا گیااور ناقابل تلافی نقصان ہوا ۔کشمیر کے اندر منفی پیغام گیا۔پرویز مشرف کی اسی پالیسی کی وجہ سے آل پارٹیز حریت کانفرنس بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور ابھی تک وہ پھر اکٹھے نہیں ہو سکے ہیں۔پاکستان جو کہ کشمیریوں کا وکیل تھا ٗاپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہا ہے ٗجس سے مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو سخت دھچکا لگا ہے۔ضرورت اس امر کی تھی کہ کشمیری حریت پسندوں کی مایوسی کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ۔مگر افسوس کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت انہوں نے بھی پرویز مشرف سے بھی چارقدم آگے جا کر بھارت کے ساتھ امن کی آشا کے نام سے پینگیں بڑھانے اوربھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی باتیں کر کے کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حوالے سے انتہائی منفی پیغام دیاہے۔امریکا اور یورپ والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کے مسئلہ پر زور دینے کی بجائے تجارت ٗثقافت اور وفود کے تبادلوں کے سلسلوں کو آگے بڑھائے ۔ان تمام معاملات کا بڑا فائدہ تو بھارت کو ہی پہنچے گا۔کیونکہ تجارت ہو یا ثقافت ان تمام شعبوں میں بھارت ہم سے کوسوں میل آگے ہے۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے ۔وہ اس سلسلے میں ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔بہر حال حکمرانوں کی تمام تر مصلحتوں کے باوجود پاکستان کے عوام کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔اس کا اظہار گذشتہ کئی عشروں اور خاص طور پر 5 فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کے ملک گیر پروگراموں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔بھارت کے حکمران کب تک کشمیریوں کی جائز اور حقیقت پر مبنی تحریک آزادی کو دباتے رہیں گے۔ان شا ء اﷲ کشمیر میں بھی ایک دن ضرور آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔

چوہدری رحمت علی(مرحوم )نے پاکستان کا جو خوبصورت ٗمنفرد اور بامعنی نام تجویز کیا تھا۔اس میں :ک :کشمیر سے لیا گیا تھا۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ کشمیر پاکستان کا ایک لازمی حصہ ہو گا۔کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق کے بغیر خود پاکستان ادھورا اور نامکمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری تو تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستان کے عوام دل وجان سے ان کے ساتھ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں پاکستانی نوجوانوں نے مقبوضہ کشمیر کے اندر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔پاکستانی نوجوانوں کی قربانیاں اور شہدا کا خون پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور اس کی آزادی کے لیے ہم ہر قسم کی قربانی دے کر اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو بھارت کے ظالمانہ تسلط سے آزادی دلائیں گے۔5 فروری اسی وعدے کی تجدید کا دن ہے کہ ہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں ان کے ساتھ ہیں۔ستم رسیدہ کشمیریوں کی مدد ہمارا دینی ٗ اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ 5 فرو ر ی یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ہم ایک بار پھر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ آزادی ان کا پیدائشی حق ہے۔بھارت آخر کب تک طاقت کے بل بوتے پرکشمیریوں کا ان کے اس بنیادی حق سے محروم رکھے گا۔ دنیا بھر کے آزادی پسند ممالک ٗ ادارے اور تنظیمیں کشمیریوں کی حالت زار پر توجہ دیں اور بھارت کو ظلم وجبر اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے روکنے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔اس حوالے سے پاکستان کا کردار نہایت ہی اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے۔پاکستان آگے بڑھ کر کشمیریوں کے حقوق کے لیے ہر عالمی ادارے اور فورم پر آواز اٹھائے۔آج بھی کشمیری اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور آزادی کی منزل پانے کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 52074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.