صدرجمہوریہ نے یہ کیا فرمایا؟

25جنوری کے شام صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کا قوم کے نام خطاب سن کر غالبؔ کا ایک شعر یاد آگیا:
سر پھوڑنا وہ غالبِ شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

ہمارے نظام حکومت میں وزیراعظم حکومت کا سربراہ اور صدر جمہوریہ ملک و قوم کا سربراہ ہوتا ہے۔عزت مآب صدرجمہوریہ کا ادب واحترام اپنی جگہ مسلم مگر قوم کے نام ان کے خطاب کا تجزیہ اس لئے اہم ہوتا ہے کہ دراصل اس میں ترجیحات حکومت کی ہی جھلکتی ہیں، پالیسیاں حکومت کی ہی بیان ہوتی ہیں۔ خاص خاص مواقع پر ان کا خطاب بھی حکومت کی فکر کا عکاس ہوتا ہے۔موجودہ صدرپرنب مکھرجی کیونکہ ایک عرصہ تک یوپی اے کے پالیسی سازاور اہم ستون رہے ہیں اس لئے ان کی فکر و نظر اور حکومت و حکمراں اتحاد کی سوچ میں ہم آہنگی فطری ہے، اس لئے سمجھا یہی جائے گا کہ جو سرکار اور یوپی اے نے چاہا وہی صدر جمہوریہ نے فرمایا۔

یوم جمہوریہ کی شام اپنے روائتی خطاب کے افتتاحی جملوں میں صدر مکھرجی نے ملک کے خودمختار جمہوریہ ہونے کی اہمیت کا ذکر کیا۔ فرمایا 64سال قبل اسی دن ہم نے خود کو ایک خودمختاردستوری جمہوریہ قراردینے کا مثالی اورجرأت مندانہ اعلان کیاتھا۔ ہم نے ملک کے تمام باشندوں میں بھائی چارہ کو فروغ ددینے اور ہرفرد کے وقار اور عزت کی حفاظت اور ملک کو متحد رکھنے کا عہد کیا۔ گزشتہ 64سالوں میں ہمارا ملک ایک پھلتی پھولتی جمہوریت بن گیا ہے، ہمارے لئے جمہوریت ایک تحفہ ہی نہیں بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، جو لوگ اقتدار میں ہیں ان کے لئے جمہوریت ایک مقدس امانت ہے۔

صدر جمہوریہ نے اعتراف کیا کہ عوام نے کبھی جمہوریت کو دھوکہ نہیں دیا البتہ کچھ لوگوں نے جمہوری نظام کو اپنی حرص اقتدار کو پورا کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔ اپنی سازش اور نااہلی سے جمہوری اداروں کو کمزور کیا ،جس سے عوام کو فطری طور سے غصہ آتا ہے۔ عوام محسوس کرتے ہیں کہ مقدس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے۔کرپشن کو کینسر سے تعبیرکرتے ہوئے صدر نے اعتراف کیا کہ بدعنوانی جمہوریت اور ملک کی جڑوں کو کمزور کرتی ہے۔انہوں نے اس پر عوام کے غصے کوحق بجانب قراردیا صدر جمہوریہ کے خطاب کا یہ ابتدائی حصہ یقینا اہم ہے۔ لیکن میڈیا میں عموماً چند حالیہ واقعات پر صدر کے مشاہدات، جمہوریت کے نام پر انارکی جیسی صورتحال پر ان کے تبصرے پر زیادہ توجہ دی گئی۔ ان بنیادی باتوں کوجن کا لب لباب مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا گیا، رسمی سمجھ کر چھوڑ دیا گیا، حالانکہ ان پر بھی غور وفکر ہونا چاہئے۔

جمہوریت کے تقاضے
جمہوریت کا مطلب کیا ہے؟ صرف بالغ رائے دہی سے حکومت کا انتخاب ہی تو جمہوریت نہیں ہے۔جمہوریت کی کچھ بنیادی اقدارہوتی ہیں جن میں انصاف، آزادی،مساوات ،امن و اتحاد اور بھائی چارہ اہم ہیں۔ آئین میں جمہوریہ ہندکے دو اور وصف - سیکولرزم اور سوشلزم- بھی شامل ہیں۔ انصاف کی وضاحت میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف؛ آزادی میں حریت فکر ، اظہار خیال، عقیدے اور عبادت کی آزادی؛مساوات میں مواقع کی برابری شامل ہیں ۔ بھائی چارے کے تحت ہرفرد کے وقار کے تحفظ کے ساتھ قوم کے درمیان اتحاد ویک جہتی کے فروغ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ آئین ساز اسمبلی میں یہ مثالی اعلانیہ معہ مسودہ آئین 29نومبر 1949کو منظورہوا اور 26جنوری 1950کو اس کو نافذ قراردیا گیا۔ دیکھنا چاہئے کہ 64سال قبل ہم نے جس آئینی جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی اور پر جوعمارت تعمیر ہوئی اس میں اعلان شدہ اوصاف کا کتنا عنصر موجود ہے؟ اگر کمی ہے تو کیوں اور اس کو کس طرح دور کیا جائے؟

بالغ رائے دہی
ا س میں توکوئی شک نہیں کہ بالغ رائے دہی کے ذریعہ حکومت سازی کا جو طریقہ کارتجویز ہواتھا اس پر عمل ہوا اوروہ مضبوط ترہورہا ہے۔ عوام نے اس میں بیش از بیش دلچسپی لی ہے۔ لیکن جمہوری اور سیکولراقدار کے تحفظ اور فروغ پر کتنی توجہ دی گئی؟ اس پہلو سے اپنے سفر پر غور کرتے ہیں تو مایوسی ہاتھ آتی ہے۔بدقسمتی سے ابتدا میں ہی بعض اقدامات ایسے ہوئے اور بعض پالیسیاں ایسی اختیار کی گئیں ،جو صریحاًسیکولر جمہوری آئین کی روح کے منافی ہیں اور جن کی بدولت جمہوری اور سیکولر مزاج کی آبیاری ہونے کے بجائے ایک مخصوص مذہبی فرقہ کے ثقافتی اور سیاسی دبدبہ کا راستہ کھلا۔ ہندستان کے سیکولر جمہوریہ قراردئے جانے کے فوراً بعد ایک کمزورفرقہ کی قدیم تاریخی عبادت گاہ کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک بالادست فرقہ کی عبادت گاہ تعمیر کی گئی جس کو مبینہ طور سے آمریت اور بادشاہت کے دور میں ایک ہزارسال قبل گرادیا گیا تھا۔ ایک آمر نے جو کام ہزار سال پہلے کیا تھا، وہی ایک جمہوری حکومت نے کرڈالا۔ بھینس اسی کی رہی جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ چنانچہ صدرجمہوریہ نے بذات خود اس کی اولین تقریب میں شرکت کو ضروری جانااور اس کو قومی وقار کی بحالی سے تعبیر کیا۔ چنانچہ آزادی کے فوراً بعدجب کہ اعلان سیکولرجمہوریہ اور ملک کے ہرفرد کے وقار اور مذہبی جذبات کے احساسات کی حفاظت کا کیا جارہا تھا، اقدام اس کے الٹ ہو۔ ہماری سیکولر جمہوری حکومت نے عندیہ ظاہر کردیا کہ قوم سے مراد سبھی ہندستانی اقوام کی مشترکہ قوم نہیں بلکہ ایک غالب مذہبی فرقہ کا نام ہندستانی قوم ہے۔جس کے وقار اور جذبات سب سے بالاتر رہیں گے۔ اسی فکرکی بازگشت ایودھیا میں سنائی دیتی ہے۔23دسمبر 1948کی رات میں جو بیج بویا گیا تھا اسی کا نقطہ عروج 6دسمبر 1992کی دوپہرمیں سامنے آیا۔ جوکچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے، مگر ایک سوال اٹھتا ہے ، کیا ملک کو سیکولر جمہوری آئین دینے کا عہد کرنے والوں نے یہ غور فرمایا تھا کہ ان کی اس کورچشمی سے ملک کے فرقہ ورانہ اتحاد ، ہرفرد کے وقار ، آزادی و انصاف کے نظریہ کو تقویت حاصل ہوگی یا کمزور ہوگا؟ سرکاری تقاریب میں ایک خاص عقیدے کے مطابق مراسم کی ادائیگی بھی اسی مزاج کی عکاسی ہے۔

سیکولر جمہوریت کی خوبی ہونی تو یہ چاہئے کہ پستی سے بلندی کے سفر میں ذات برادری، پیشہ ، مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہ برتی جائے۔ لیکن جب ظلم وزیادتیوں کے ازالہ کے لئے کمزور طبقات کو سہارا ددینے کاارادہ ہواتو اس اصول کو بھلادیا گیا۔ اس کا پیمانہ فرد اور خاندان کی پسماندگی کے بجائے ذات ، برادری اور پیشہ کو بنایا گیا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ ذات برادریوں اور پیشوں میں بھی مذہب کے نام پر تفریق کی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج قومی سیاست ذات ، برادری اور مذہبی عصبیتوں کی دلدل میں پھنس گئی ہے۔ ترقی کے نام پر ووٹ مانگنے والا بھی اب اپنی چائے فروشی کے پیشہ اور پسماندہ طبقہ سے تعلق کی دہائی دے رہا ہے۔ برگد کا تخم ننھا سا ہوتا ہے، مگر اس ننھے سے تخم سے پیڑ بہت بڑا اگتا ہے۔ 64برس پہلے جو چھوٹا سا بیج بویا گیا تھا وہی آج فرقہ پرستی کا تناور درخت بن کر سامنے کھڑا ہے۔ فرق یہ ہے کہ درخت دوسرے کے صحن میں اگ آیا ہے اور جڑیں آپ کے قصر کو کمزور کررہی ہیں۔

آئینی جمہوریت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ قانون کا نفاذیکساں طور پرہونا چاہئے۔ آج ایک لیڈراعلانیہ قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس کے کارکن قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور قانون خاموش تماشائی بنارہتا ہے۔نفاذ قانون کی ایجنسیاں سیاسی نفع و نقصان دیکھتی ہیں۔ روز عدالتوں کے فیصلے آرہے ہیں کہ دہشت گردی اور ملک سے غداری کے الزام میں بے قصور افراد کو جان بوجھ کر گرفتار کیا گیا اور ان کی زندگی کے بہترین ماہ و سال جیلوں میں کٹ گئے ہیں۔ حفاظتی دستوں نے مفاد خصوصی کے چلتے نجانے کتنوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ کشمیر میں بے شمار بے نام ونشان قبریں اور چودہ سال سے اروم شرمیلا کی بھوک ہڑتال کی دستک سیاسی قیادت کے ضمیرپرسنائی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود ہمیں فخر ہے کہ ہندستانی جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔

بہتر نظم و نسق کے لئے ملک کو مختلف یونٹوں میں تقسیم کیا جانا ناگزیر ہے۔ مگر ہمارے یہاں یہ تقسیم قدرتی سرحدوں یا انتظامی سہولتوں کے بجائے ذات، برادی اور زبان کی بنیاد پر ہوئی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ لسانی بنیاد وں پر علاقائی عصبیتں ملک کے اتحاد کے لئے سنگین خطرہ بن گئی ہیں۔ ایک زمانے میں آسام سے غیر آسامیوں کو نکالا گیا۔اب یہ آواز دوسرے علاقوں میں بھی اٹھنے لگی ہے۔ لسانی بنیاد پر ریاستوں کے تصور نے ایک ہندستانی قوم کو ہزار قوموں میں تقسیم کرکے جمہوری اقدار کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔

کرپشن بیشک سب سے بڑی لعنت ہے مگر اب یہ لعنت ہماری کلچر میں شامل ہوچکی ہے۔ اونچی حویلی میں رہنے والوں کو سماج میں عزت اور وقار حاصل ہوتا ہے۔ ایمانداری سے زندگی گزارنے والے کو سماج میں کم درجہ سمجھا جانے لگا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے دولت مند امیدواروں کو دیانتدار اور مخلص کارکنوں پر ترجیح دیکر جمہوری اقدار اور قومی وقار کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن عوام میں ان سب خرابیوں کے خلاف سخت غصہ ہے ، جس کا اظہار حالیہ اسمبلی الیکشن میں دہلی کے عوام نے کیا ہے۔

1984بنام 2002
یوم جمہوریہ تقریبات کی خبروں کے ساتھ ایک خبر1984 اور 2992 کے واقعات میں موازنہ کی بھی گردش میں ہے۔ ان واقعات میں فرق ہمیں اس لئے نظرآتا ہے کہ ہم نے ہندستانی قوم کو فرقوں فرقوں میں تقسیم کرکے دیکھنے کی عادت ڈال لی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے ہمارے جو بھائی 1984میں مارے گئے وہ بھی اسی ملک کے وفادار شہری تھے، اور جو 2002میں مارے گئے بھی وہ بھی اسی ریاست کے عزت دار باشندہ تھے جس کے حکمرانوں نے راج دھرم کا پالن نہیں کیاتھا۔ملیانہ اور ہاشم پورہ کا سانحہ بھی اسی قبیل کا ہے جس کا ذکراب کم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ان واقعات میں جو ہاتھ خون آلود نظرآتے وہ ایک ہی وجود کے دو ہاتھ ہیں۔ ایک نے تخم ریزی کی دوسرا فصل کاٹ رہا ہے۔ ہمارے لئے ان سب انسانوں کا خون برابر ہے جو ریاستی انتظامیہ کے زیر سایہ احمدآباد میں جلاکر مارڈالے گئے یا جو کسی غیبی سازش سے سابرمتی ریل میں جل کر مرگئے یامرادنگر کی نہر کنارے لیجاکر بھون ڈالے گئے۔ دربار صاحب پر فوج کشی اور بابری مسجد کے انہدام کے سانحے بھی اسی جمہوریت کے المیہ ہیں اور پھر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی اندوہناک ہلاکت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے؟

آخری بات
ان تکلیف دہ واقعات کا ذکر کسی کو بے آبرویا تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ غرض یہ ہے ملک اور قوم اپنا احتساب کرے۔ دیکھے کہ ہم کہاں جانے کے لئے نکلے تھے اور کہاں پہنچے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم آئندہ کے لئے کیا راستہ چنتے ہیں؟ یوم جمہوریہ صرف جشن تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ آئندہ کے لئے بہتر لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے۔ یہ صرف سیاستدانوں کی ہی نہیں بلکہ ملک کے سبھی باشعور باشندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقہ، مذہب اور ذات برادری سے بلند ہوکر سنجیدگی سے اس پر غوروفکر کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر ہندستان چھوڑ کر جائیں۔ قوموں کی زندگیوں میں ساٹھ ، پنسٹھ سال کوئی بہت بڑی مدت نہیں۔ آج بھی اگر ملک کو فرقہ فرقہ، ذات ذات اور علاقہ علاقہ میں تقسیم کرکے ، اپنے اہنکار کو قوم کی اسمیتا قرار دینے کے بجائے ’ایک ہندستان،ایک قوم ، ایک حال اور سب کا مستقبل خوشحال‘ کے نظریہ سے قدم تال ملاکر آگے بڑھنے والا کوئی آگے آئے گا تو یہ قوم اس کے ساتھ ہولے گی۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندستانی ہیں اور ہندستانی عوام فطرتاً بقائے باہمی کے نظریہ کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.