اقتدار بھی کیا چیز ہے، اس کا
نشہ اچھے اچھوں کو بھی خاصا نامعقول بنادیتا ہے۔ پرویزرشید ہی کو دیکھ
لیجیے، انہیں سنجیدہ اور باوقار کے ساتھ معتدل ذہن کا انسان سمجھا جاتا تھا۔
سنجیدہ اور باوقار تو وہ اب بھی ہیں مگر باتیں بڑی عجیب سی کرنے لگے ہیں۔
پچھلے دنوں انہوں نے تواتر کے ساتھ اس نوعیت کے بیانات داغے کہ لوگوں نے
انہیں پاکستان کی بجائے امریکی وزیراطلاعات قرار دے ڈالا۔ بعض لوگوں کا
خیال ہے اس میں پرویزرشید کا کوئی قصور نہیں ہے، وہ تو مجبور ہیں، کیونکہ
حکومتی ترجمان کی حیثیت سے انہیں بہت سے ایسے بیانات دینے پڑتے ہیں، جن سے
وہ خود متفق نہیں ہوتے۔ اکثر لوگ اس خیال کے حامی نہیں، وہ کہتے ہیں حکومت
میں تو اور بھی بہت سے لوگ شامل ہیں مگر وہ پرویزرشید کی طرح باتیں نہیں
کرتے، مثلاً چودھری نثارہمارے سامنے ہیں، وہ وزیرداخلہ جیسے اہم عہدے پر
فائز ہیں، حکومت کی اکثر پالیسیاں ان کے گرد گھومتی ہیں، وہ بھی پرویزرشید
کی طرح حکومتی نمایندے ہیں مگر ان کے بیانات وزیراطلاعات کے برعکس عوام اور
نظریۂ پاکستان کی ترجمانی کرتے ہیں۔
چند روز قبل پرویزرشید نے ایسا بیان داغ دیا جس پر لیگ میں شامل مسلم حیران
ہیں۔ وزیر اطلاعات نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے ملک میں سینماؤں کی کمی پر اظہار افسوس کیا۔ بات یہاں تک ہوتی تب
بھی اسے محض ’’روشن خیال‘‘ دل کی خواہش سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا، لیکن
پرویزرشید صاحب تو ایک قدم اور آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے انتہائی افسردہ لہجے
میں کہا کہ اب تو صورت حال یہ ہوتی جارہی ہے کہ سینماؤں کو گراکر مدرسے
بنانے کے لائسنس دیے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں سینما کم اور مدرسے
زیادہ ہوتے جارہے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھاکہ
حکومت سینماؤں کو گرانے کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔ بس زیادہ
تبصرہ نہیں کرتا مگر یہ سوال پوچھنے کا حق ہم ضرور رکھتے ہیں کہ اگر مدارس
کے فروغ پر اظہار تشویش حکومتی پالیسی کا حصہ ہے تو پھر کیا ایسی حکومت اور
حکومتی جماعت کو نظریۂ پاکستان کا محافظ قرار دینا درست ہوگا؟
اب ایک دوسرے پرویز کی بات کرتے ہیں، یہ پرویز ہود ہیں، یہ بے چارے بھی آج
کل بہت پریشان ہیں،ا ن کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے، وجہ؟ فرانسیسی خبررساں
ادارے اے ایف پی کے مطابق اسلام آباد میں قائم ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں
میں سے ایک ’’قائداعظم یونیورسٹی‘‘ کے اساتذہ طلبہ میں اسلام پسند رجحان کی
وجہ سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ اساتذہ نے شکایت کی ہے کہ لیکچر کے دوران نماز
کا وقت ہونے پر اکثر طلبہ لیکچر چھوڑکر نماز ادا کرنے کے لیے مسجد چلے جاتے
ہیں، جبکہ اساتذہ کو طلبہ کی واپسی تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خبر میں یہ
نہیں بتایا گیا کہ اساتذہ انتظار میں کیوں بیٹھے رہتے ہیں، وہ بھی مسجد
کیوں نہیں جاتے؟خبر ایجنسی نے نامعلوم ناقدین کے حوالے سے یہ بتانا بھی
ضروری سمجھا ہے کہ طلبہ میں اسلامائزیشن کی وجہ سے ادارے کا تعلیمی معیار
متاثر ہورہا ہے اور طلبہ کی سماجی زندگی محدود ہورہی ہے۔
پرویزہود بھائی جو امریکا میں مقیم ہیں، وہ اس یونیورسٹی میں جوہری طبیعات
کے استاذ رہے ہیں، بھلا یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ اس ’’خوفناک‘‘ صورت حال
پر خاموش رہتے، انہوں نے یونیورسٹی میں اسلامائزیشن پر تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا ’’یونیورسٹی کی حدود میں 4 مساجد ہیں لیکن کتابوں کی ایک
دکان بھی موجود نہیں۔‘‘ اس جملے میں انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی
کوشش کی ہے۔ ایک تو انہوں نے حکام کو یونیورسٹی میں مساجد کی بڑھتی ہوئی
تعداد کے ’’خطرے‘‘ سے آگاہ کیا ہے تو دوسری طرف یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے
کہ کتابوں کی دکان نہ ہونے میں بھی اسلام پسندوں کا ہاتھ ہے۔ ایک سچا اسلام
پسند کتاب دشمن ہوسکتا ہے؟ یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ پچھلے دنوں کراچی کے اردو
بازار کے بارے میں ایک سروے رپورٹ نظر سے گزری، دکان داروں نے بتایا ان کے
سب سے زیادہ گاہک مذہبی رجحان رکھنے والے افراد ہیں۔ ’’ممی ڈیڈی‘‘ بچے تو
مدت ہوئی کتابوں کو طلاق دے چکے ہیں، یہ مذہبی لوگ ہیں جو آج بھی کتاب کو
سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ یہاں کراچی میں کتابوں کی بڑی سالانہ نمایش لگتی
ہے۔ وہاں بھی داڑھی ٹوپی والوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی ہی
کیا ہر یونیورسٹی میں ایک نہیں کئی کئی کتابوں کی دکانیں ہونی چاہئیں لیکن
وہاں کی مساجد کو آباد کرنے والوں پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ہود بھائی کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ اب طلبہ میں چند ایک ہی ایسے ہیں
جو گانا گاسکتے ہیں اور رقص کرنا جانتے ہیں۔ اس دانشوری کو کیا نام دیجیے،
والدین تو اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان بنانے کے لیے یونیورسٹی
بھیجتے ہیں مگر پرویز ہود نے راز کی بات بتائی ہے کہ یونیورسٹیوں کا اصل
مقصد میراثی بنانا ہے۔ خبررساں ادارے نے بڑے دکھی انداز میں یہ بھی بتایاہے
کہ یونیورسٹی کی حدود میں طالبات کی اکثریت حجاب کرتی ہے اور لڑکوں کے ساتھ
بیٹھنے سے بھی گریز کرتی ہے۔ ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق کراچی اور لاہور
سمیت بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں برقعے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔
دیہی علاقوں میں تو ویسے ہی پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ نوجوان بڑی تیزی سے مذہب کی طرف آرہے ہیں۔ ’’اعلیٰ‘‘ سوسائٹی میں بے
شمار خاندانوں میں بھی مذہبی تعلیم کے حصول کا جذبہ روزبروز بڑھ رہا ہے، جس
کے مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پوش علاقوں کی مساجد میں نوجوانوں کی
بڑی تعداد نمازوں میں شریک ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مذہبی پوسٹوں کو سب سے
زیادہ Like ملتے ہیں۔ نوجوانوں کی یہ بیداری جہاں اسلامی انقلاب کا خواب
دیکھنے والوں کے خون میں اضافے کا سبب بنتی ہے، وہیں اس سے بہت سوں کا خون
جل جاتا ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹوں اور پرویزہود جیسے دانشوروں کی
’’فکرانگیزی‘‘ کو سرسری نہیں لینا چاہیے۔ خاص طور پر اس معاملے کو نصاب سے
اسلام کو بے دخل کرنے کی سرکاری منصوبہ بندی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت
ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں اسلامائزیشن پر خوشی کا اظہار ضرور کرنا چاہیے،
طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی بھی ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان خفیہ
اور کھلے ہاتھوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جو تعلیمی اداروں سے اسلامی روح
کو نکالنے کے درپے ہیں۔ |