قابلِ بھروسہ اور قابلِ
اعتمادمذاکرات اِرادی طور پر کامیاب بنائے جائیں ..!
اَب ٹامک ٹوئیاں کوئی نہ مارے...؟کیاکچھ طاقتیں حکومت اور شدت پسندوںکے
مذاکراتی عمل کو سُہاناخواب بناناچاہتی ہیں...؟
بس حدہوگئی...!اَب شدت پسندوں بہت ہوگیاہے ،بخش دویارقوم کو اور خون خرابے
سے باز آجاؤ ،جیساکہ مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے اور شدت پسندوں سے مذاکرات
کے لئے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے چاررُکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان
کردیا ہے ، تو ایسے میں ہر محب وطن پاکستانی کی ایک یہی التجاہے کہ اَب تو
اللہ کے واسطے(حکومت اور شدت پسندوں) دونوں ہی جانب سے لچک اور نرمی کا
مظاہرہ بھی کیاجائے، اوراِسی کے ساتھ ہی آج اپنے پہلے اہم اجلاس کے بعد
حکومتی مذاکراتی ٹیم اپنے نیک جذبات کے ساتھ مُلک کو دہشت گردی سے پاک کرنے
اور مُلک میں قیام امن کے لئے دس قدم آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہوئے جس شان
وعظمت اور تُزک واحتشام سے یہ نکل کھڑی ہوئی ہے ،توایسے میں اِسے حکومت اور
شدت پسند وں کی جانب سے بھی مایوس نہ کیا جائے ،اور سب ہی(جن میں حکومت و
حزب اختلاف ، قومی ادارے ، عوام اور شدت پسندبھی شامل ہیں )کی جانب سے اِس
مذاکراتی ٹیم کوبھرپورطریقے سے خوش آمدید کہاجائے، ایک دوسرے کو گلے لگاکر
دل سے دل ملا کر ایک دوسرے کی دل کی دھڑکنوں کو اِس طرح جوڑدیاجائے کہ اَب
یہ کبھی بھی جُدانہ ہونے پائیںاور شدت پسند مذاکرات کے اختتام تک ایسے ہی
وزیراعظم کی اعلان کردہ چاررُکنی کمیٹی کا خیرمقدم کریں جیساکہ اُنہوں نے
پہلے روز اِس چاررُکنی کمیٹی کوکھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے اِس کا اوّل
روزخیرمقدم کیا ہے، اَب مذاکرات دونوں ہی جانب سے اِرادی طورپر کامیاب
بنائے جائیں، اور اَب کسی بھی جانب سے اغیارکے بہکاوے میں آکربہانے بازی یا
ٹامک ٹوئیوں کا سلسلہ شروع کرکے مذاکرات کو ختم نہ کیاجائے۔
کیوں کہ آج میری دھرتی پر میرے پیاروں کا بہت خُون بہہ چکا ہے، ایسے
میںسرزمینِ پاکستان کا کوئی زرہ بھی ایسانہیں ہے جو میرے پیاروں کے مقدس
خُون سے ترنہ ہواہو، ایسے میں مزید خُون خرابے سے بچنے کے لئے مذاکرات ہی
وہ واحد راستہ ہیں ، جس سے میرے وطن کا ہر فرددہشت گردی اور خُون خرابے سے
بچ سکتاہے اور مُلک امن کا گہوارہ بن ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن
ہوسکتاہے۔
جبکہ یہاں یہ امر بھی یقینا باعثِ مُسرت اور قوم کے لئے حوصلہ افزاہے کہ
گزشتہ دِنوں قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم میاں
محمدنوازشریف نے کہا ہے کہ مُلک سے فوری طورپر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے
حکومت ایک واضح موقف اور حکمتِ عملی تک پہنچ چکی ہے،اِس موقع پر وزیراعظم
میاں محمدنوازشریف نے انتہائی عزم و ہمت سے یہ بھی کہا کہ آج پاکستان کے
عوام اور ادارے دہشت گردی کی زد میں ہیں ، ہمارے معصوم بچے مررہے ہیں، اِن
لمحات میں دہشت گردی جیسے مسئلے کے خاتمے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے
مشاورت کرنے کے بعدحکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا فوری
حل کبھی بھی ثابت نہیں ہوسکتی ہے، اِس بنیاد ی نقطے پرقائم رہ کر ہی
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اداروں ، سیاستدانوں اور عوام کو اپنا ہم
خیال بنایا کے بعدوزیراعظم نوازشریف نے شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے
چاررکنی کمیٹی قائم کردی ہے ،اور وزیراعظم کمیٹی کے اعلان کے ساتھ ہی ایک
بار پھر اپنے اِس عزم وہمت کو دھرایا کہ”شدت پسندوں کو مذاکرات کے لئے ایک
اور موقع دیاجارہاہے۔
حالانکہ اِس موقع پر راقم الحرف کو وزیراعظم کے اِس بیان سے ایسالگا کہ
جیسے وزیراعظم میاں محمدنواز شریف بھی شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے بنائی
گئی اپنی چاررکنی کمیٹی کے چارو ں اراکین جن میں( اپنے یعنی وزیراعظم کے
نومولود خصوصی معاون) و سینئر کالم نگارعرفان صدیقی،رحیم اللہ
یوسفزئی،میجر(ر)محمدعامراورسابق سفیررستم شاہ مہمندشامل ہیں اِن سے
پُراُمید ہیں کہ یہ اِن کے اعتماد کو جِلابخشیں گے اوریہ چاروں بااعتماد
اور قابلِ بھروسہ اشخاص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے مُلک کو دہشت
گردی سے نجات دلانے میں اہم کردار اداکریں گے۔
جبکہ آج یہ ٹھیک ہے کہ شدت پسندوں سے فوری مذاکرات کے لئے وزیراعظم میاں
محمدنوازشریف نے چاررُکنی کمیٹی بناتو دی ہے مگر اِس غیرمتنازعہ کمیٹی کو
غیرمتنازعہ بنائے رکھنے کی بھی ذمہ داری حکومت اور اداروں کی ہی ہونی چاہئے
، اور حکومت اِس چاررُکنی کمیٹی کو ایسے ہی بااختیاربنائے، جیسے صاحبِ
اختیاراپنے اختیار کے ساتھ اپنے فرائض میں بھی سخت ہوتاہے، اَب حکومت یا
ادارے اِس کا کاموں میں مداخلت نہ کریں جو اور جیساکمیٹی کرے اِسے کرنے
دیاجائے اور اِسے اپنی سے ہانکنے سے اجتناب کیا جانا بھی اشدضروری ہے ورنہ
ساری محنت اور کام پر ذراسی دیر میں پانی پھر جائے گا۔
اگرچہ آج بھی وزیراعظم نوازشریف کی چاراشخاص پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی پر
کھلے اور دبے لفظوں میں مُلک کے اندارکچھ سیاسی ومذہبی لوگ اعتراضات کے
پہاڑ کھڑے کررہے ہیں، مگر دوسری طرف دہشت گردی سے خُوفزدہ رہنے والے عوام
الناس اِس نقطے پر بڑے پُراُمید ہیںکہ ایک عرصے بعد دہشت گردی سے نجات کے
لئے وزیراعظم کی بنائی گئی یہ چاررُکنی کمیٹی مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے
کے لئے ضروراپنا مثبت وتعمیری کرداراد اکرے گی اور مُلک کو دہشت گردی سے
نکال کر اُس جانب لے جائے گی جس کی برسوں سے قوم کو شدت سے آرزوتھی مگراِن
تمام باتوں کے علاوہ آج بھی قوم کو ایک ڈراور مخمصہ یہ کھائے جارہاہے کہ
کیا اَب بھی کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیںحکومت اور شدت پسندوں کے درمیان
مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی چاررُکنی کمیٹی کو سُہاناخواب بنادیناچاہتی
ہیں..؟ایسے میں دونوں جانب سے اِن خدشات اور سازشوں پر بھی کڑی نظررکھنی
ہوگی۔
بہرحال اِس موقع پر مجھے جائس برورز کا یہ قول یادآگیاوہ کہتاہے کہ ” خلوص
اور سچائی کی بنیاپر قائم کئے گئے تعلقات پیارمحبت کا باعث بنتے ہیں“ اور
اَب وہ دن کوئی دور نہیں رہے ہیں کہ جب حکومت کی جانب سے شدت پسندوں سے
پُرامن مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی یہ چاررُکنی کمیٹی اپنے قول و فعل
اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کردے گی کہ اِس کا خلوص اور اِس کی سچائی شدت
پسندوں سے محبت اور خلوص کے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
آج وزیراعظم میاں محمدنواز شریف کی چاررُکنی مذاکراتی کمیٹی پر جو کچھ
مُلکی سیاستدان تنقیدیں کررہے ہیں اِنہیں اپنے ذہنوں اور عوامی سطح پر قبل
ازوقت مذاکراتی کمیٹی کی کارکردگی پر منفی سوچ نہیںپیدا کرنی چاہئے بلکہ
ایساکچھ کرنے کے لئے اُس وقت کا ضرورخیال کرناچاہئے جب خدانخواستہ مذاکراتی
کمیٹی کسی معاملے میں ناکامی کا منہ دیکھ کر پلٹ جائے اور اِسی کے ساتھ ہی
میں آخرمیں چلتے چلتے وزیراعظم نوازشریف کی بنائی گئی چاررُکنی مذاکراتی
کمیٹی سے متعلق اپنے مندرجہ بالا تمام تر نیک جذبات اور اُمیدافزانیک شگون
رکھنے کے باوجود بھی میں یہ ضرورکہناچاہتاہوں کہ مجھے ابھی تک یہ بھی
لگتاہے کہ جیسے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی جماعت کے کچھ لوگ مذاکراتی
عمل کو لے کر چلنے میں غیر سنجیدہ ہیں مگر اِن کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ
وہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے حامل نہیں ہیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں اور اِن
کاایک یہ بھی خیال ہے جوکہ بڑی حدتک درست بھی لگتاہے کہ جس طرح حکومت اور
ادارے شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں توایسے ہی شدت پسندوں کو
بھی یہ ضرورچاہئے کہ وہ بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ورنہ ایسانہیں ہواتو
پھر دہشت گردی اور شدت پسندی سے نجات پانے تک حکومت کے لئے طاقت کا استعمال
ناگزیر سمجھاجائے گا۔ |