اتحادامت مسلمہ

بسم اﷲالرحمن الرحیم

بچپن میں پڑھاکرتے تھے کہ تین بیل ایک جنگل میں رہتے تھے اور شیر انہیں اس لیے نہ کھاسکتاتھا کہ وہ مل کر اسکا مقابلہ کیاکرتے تھے۔ان کا اتحاد شیر کو ہمیشہ شکست اور ہزیمت سے دوچارکردیتا،شیر نے لومڑی کے ذریعے ان میں پھوٹ ڈلوائی ،پھر ایک کو شکار کیا اور باقی دونوں دیکھ کر خوش ہوتے رہے،کچھ دنوں بعد دوسرے کو شکار کیاتو تیسرابھی دیکھ دیکھ کر پھولا نہ سماتاتھااور پھر تیسرے کی باری بھی آگئی۔اسی طرح ایک بوڑھے باپ کے بیٹے ہر وقت جھگڑا کرتے رہتے تھے،باپ نے لکڑیوں کا ایک گٹھڑ باندھ کر ان سب بیٹوں سے کہا کہ اسے توڑو لیکن باوجود بہت زورآوری کے وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ،پھر بوڑھے باپ نے گٹھڑکھول کرلکڑیاں الگ الگ کر دیں تب ان لڑکوں نے سب لکڑیوں کو کاٹ ڈالا تب باپ نے بیٹوں کو سمجھایا کہ دیکھو مل کر رہوگے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا لیکن الگ الگ ہو جاؤ گے تو دشمن آسانی سے شکار کرے گا اور تمہیں اس زمین سے نابود کر دے گا۔یہ سبق زبان زد عام و خاص ہیں لیکن ان کہانیوں کو پڑھنے کا مقصد ان پر عمل کرنا ہوتا ہے تاکہ عملی زندگی میں انکے فوائدوثمرات سمیٹے جاسکیں۔

امت مسلمہ وہ واحد گروہ ہے جس کے دروازے کل انسانیت کے لیے کھلے ہیں،مذہب عیسائیت کی تاسیس سے آج تک کوئی پوپ بھی صرف یورپ سے ہی آیااورایشیاوافریقہ میں کثیر تعداد میں عیسائیوں کے باوجود آج تک یہ لاٹری سفیدچمڑی کے علاوہ کسی اور کے حق میں نہ کھل سکی،یہودیت اور ہندومت تو ویسے ہی نسلی مذاہب ہیں اوردیگر چھوٹے چھوٹے مذہب آج تک اپنے جغرافیے اورتہذیب و تمدن سے باہر ہی نہ نکل سکے ۔اس امت نے وحدت انسانیت کا درس دیا،آج علم معاشیات والے اپنے علم کی ایک ’’تعریف‘‘ پر جمع نہیں ہو سکے اورکم و بیش یہی معاملہ ہر علم و فن کے ساتھ ساتھ ہے ،الجبراوحساب کسی زمانے میں ایک ہوا کرتا تھا لیکن اب اسکی شاخیں ہی شاخیں بنتی چلی جارہی ہیں ،علم فلسفہ ہو یا نفسیات یا پھر قدرتی ومادی علوم اور حیاتیاتی علوم ہوں تقسیم در تقسیم ہوتے اتنے وسیع ہوتے چلے جارہے ہیں کہ انہوں نے اہلیان علم کو بھی کتنے ہی گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے ،جامعات میں آئے دن نئے سے نئے شعبے بنتے چلے جارہے ہیں اور ماہرین علوم ایک دوسرے سے دور سے دور تر ہوتے چلے جارہے ہیں ایسے میں ایک امت مسلمہ کے علماء ہیں جو آج بھی ممبرومحراب پر ایک ہی وجود کی علامت ہیں صدیوں سے ایک ضخیم کتاب کے حق ہونے پر کل امت کے علماء خواہ وہ مشرق ومغرب سے ہوں یا کسی بھی علاقے رنگ اور نسل سے تعلق رکھتے ہوں یا مکاتب فکرمیں کتنی ہی بڑی خلیج حائل ہو چکی ہواس کتاب پر سب کے سب جمع ہیں۔ وحدت انسانیت کا درس آج بھی امت مسلمہ سے ہی انسانیت کو میسر ہے۔

سقوط غرناطہ کے بعد سے امت پر چھائے ہوئے غلامی کے بادلوں نے امت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی اور اس دوران میں مدعیان نبوت کے تجربے بھی کیے گئے لیکن امت اس بات سے بڑی اچھی طرح آگاہ تھی کہ یاجوج ماجوج،دجال اورعیسی بن مریم علیھماالاسلام کی نسبت ایک نبی زیادہ اہم تھا جس کی پیشین گوئیوں سے کتاب و سنت بھرے پڑے ہوتے لیکن چونکہ اس طرح کے کسی نبی کا کوئی ذکر ان مقدس ذخیروں میں قطعاََنہیں ملتا اس لیے اب کسی نبی کی آمد ممکن ہی نہیں۔سامراج نے اس تجربے کی ناکامی کے بعد گروہی اور مسلکی اختلافات کی بنیادپر امت کو لڑانا چاہااور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسے امت کے اندرسے ہی عبداﷲ بن ابی کثرت سے مل گئے ۔وہ اپنی سادہ لوحی سے شکار ہوئے یا دانستہ لالچ کی آڑمیں آلہ کار بنے اس کا فیصلہ تو روزآخرت اﷲ تعالی ہی کرے گا لیکن بہرحال انکی سادہ لوحی یا حرص وطمع نے امت میں ایسی آگ لگائی ہے کہ اب وہ بجھے نہیں بجھ پاتی ،ایک طرف سے ٹھنڈی ہوتی ہے تو دوسری طرف سے سلگنے لگتی ہے اور دوسری طرف سے پانی ڈالو تو پہلی طرف سے بھڑک اٹھتی ہے،کیونکہ تیل چھڑکنے والے ابھی بھی کم نہیں ہیں۔لیکن ہمیں ان تیل چھڑکنے والوں سے گلہ نہیں کہ انکاتوکام ہی یہی ہے اصل گلہ تو راہبروں سے ہے جنہوں نے راہزن کا کردار اداکیاہے اور گھرکو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگ رہی ہے۔

آپ ﷺ کی موجودگی میں ایک دفعہ نہیں متعدد بار اختلاف ہوا،اصحاب رسول ﷺ کا آپس میں ہوااور نبی اکرم ﷺ سے بھی ہوا لیکن ہر بار ختمی مرتبتﷺ نے کمال حلم سے اس اختلاف کو اپنے منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے اس سے کسی کو فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔غزوہ احد کے موقع پر نوجوانان قوم نے بزرگوں کی راے سے مکمل اختلاف کیااور ان بزرگوں میں محسن انسانیت ﷺ بھی شامل تھے لیکن اس اختلاف کو نبی علیہ السلام سمیت کسی بزرگ ہستی نے اناکامسئلہ نہیں بنایا،بلکہ عین میدان جنگ میں پیٹھ دکھانے والا عبداﷲ بن ابی نے علیحدہ ہونے کی وجہ ہی اپنی انا کی عدم تسکین بتائی کہ ہماری بات نہیں مانی گئی اس لیے ہم جارہے ہیں۔اس سے قبل بھی جب جنگ بدر میں جب آپ ﷺ نے ایک جگہ پڑاؤکافیصلہ کیاتوایک انصاری سردارنے استفسار کیا کہ کیا حکم ربی کے تحت یہاں پڑاؤکیاجارہاہے؟؟تو جواب میں ارشاد فرمایا کہ نہیں یہ میری ذاتی رائے ہے اس پر اس صحابی رسول نے ایک اورجگہ پڑاؤ کے متعدد فوائد گنوائے کیونکہ وہ لوگ مقامی ہونے کے ناطے اس علاقے سے خوب خوب واقف تھے،آپ ﷺ نے کمال شفقت سے اپنی رائے کی قربانی دی اور اپنے سے اختلاف کو نہ صرف یہ کہ برداشت کیابلکہ اس فیصلہ سے دست بردار ہو کر دوسری رائے پر عمل بھی کیا۔

غزوہ خندق کے بعد آپ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ابھی ابھی دوڑو اور بنی قریظہ کا محاصرہ کرلواور دیکھو عصر کی نماز وہیں جاکر اداکرنا۔راستے میں جب عصر کی نماز کا وقت فوت ہونے لگاتوایک گروہ نے راستے میں ہی عصربروقت اداکرلی اور دوسرے گروہ نے وقت گزرنے کے بعد وہیں جاکر نماز اداکی جہاں کا حکم انہیں دیاگیاتھا۔جب محسن انسانیت ﷺ کے سامنے ان دونوں گروہوں کاعمل پیش کیاگیاتو آپ ﷺ نے فرمایاکہ دونوں نے صحیح کیا،گویااس طرح امت کو اختلاف کا طریقہ سمجھادیا کہ جب نیت صحیح ہوتوعمل کی مقدار اﷲ تعالی کے ہاں قبول ہوجاتی ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ایک مسلمان نے دیکھاکہ آپ ﷺ اپنا گریبان کھولے تشریف رکھتے ہیں اس نے ساری عمر اپنا گریبان کھلا رکھاجب کہ ایک دوسرے مسلمان نے آپ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ گریبان مبارک بندتھا تو اس نے ساری عمر اپنا گریبان بند رکھا۔ایک مسلمان آپ ﷺ کے ہاں حاضر ہوااور عرض کی میں نے ایک چشمے پر لکڑی ٹھونک دی ہے کہ کوئی مسافر آئے تو اپنا جانور اس سے باندھ دے،آپ ﷺ نے اس عمل کو پسند فرمایا۔کچھ دنوں بعد ایک اور مسلمان حاضر خدمت ہوا اور عرض کی کہ ایک شمے پر لکڑی ٹھونکی تھی میں نے نکال دی کہ مبادا کوئی ٹھوکر کھاکر گر جائے ،آپ ﷺ نے اسکے عمل کو بھی پسندفرمایا۔

اس کے باوجود بھی اگرچہ ایسے معاملات ضرور ہیں جن میں شایدمفاہمت کی صورت نہیں نکالی جاسکتی اور تاریخ نے ان معاملات کے درمیان وسیع خلیج حائل کر رکھی ہے تب حضرت علی کرم اﷲ وجہ کاقول ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیاکرو۔پس ممبرومحراب کے وہ معاملات جوعوام الناس کی پہنچ سے باہر ہیں یا انہیں عوام الناس تک پہچانے میں کسی فتنے کا اندیشہ ہے تو علماء اپنے اس کردار کو بخوبی اداکرنے کے ذمہ دار ہیں کہ ایسے معاملات اپنی حدود سے باہر نہ آئیں۔اﷲتعالی کے ہاں سب سے بڑا گناہ ’’شرک‘‘ہے،حضرت ہارون علیہ السلام سے جب انکے بھائی حضرت موسی علیہ السلام نے سختی سے پوچھا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کوشرک سے کیوں نہیں روکاتو حضرت ہارون علیہ السلام کا جواب تھا کہ اگر میں ان پر سختی کرتا تو فتنہ پیدا ہوجاتا۔ایک برگزیدہ نبی نے شرک برداشت کیا لیکن فتنہ برداشت نہ کیا۔اﷲ کرے کہ امت مسلمہ کے علماء بھی اس حقیقت کا ادراک کر سکیں۔

آج امت کتنے لسانی،گروہی،سیاسی اور ،مذہبی خانوں میں تقسیم ہو چکی ہے،امریکہ کی پچاس ریاستیں متحد ہیں،تقریباََپورے یورپ میں پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی ختم کر دی گئی ہے وہ لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بندشیشے سے ہی اپنے قومی شناختی کارڈ دکھاتے ہیں اور دوسرے ملک کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں،انکی کرنسی ایک ہو چکی ہے،دو بڑی بڑی جنگیں ہو چکنے کے باوجود وہ قومیں جن میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے سوائے سفید رنگت کے انکی خارجہ پالیسی اور دفاعی افواج بھی ایک ہی نظم کے تحت ہیں جبکہ افسوس کا مقام ہے کہ یہاں حاجیوں اور زائرین تک کے سامان بھی کتوں سے سنگھوائے جاتے ہیں اور ایک مسلمان ملک سے دوسرے مسلمان ملک میں جب ایک مسلمان داخل ہوتا ہے توانتہائی حد تک اپنی عزت نفس کی توہین محسوس کرتاہے۔دشمن نے خوف اور لالچ سے اور مذہب ہی نام پر مسلمانوں میں ایک دوسرے کے درمیان اتنا بعد پیداکررکھاہے کہ وہ دوسرے کو برداشت کرنے پر ہی تیار نہیں ہیں۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو تو اپنے ممالک کی سرزمین پر خوش آمدید کہاجاتاہے جبکہ کوئی مسلمان داخل ہو جائے تو ملک کے خفیہ ادارے اسکا پیچھاکرنے لگتے ہیں۔تاریخ اسلام میں یہ انتشار ممبرومحراب سے شروع ہواتھااور اب بھی ممبرومحراب ہی اسکے خاتمے کا آغازکریں گے تو یہ ختم ہوگا۔امت کی توقعات کا محور حکمران،سیاستدان،افواج،عوام یا دانشوران قوم نہیں ہیں،امت ہر مشکل وقت میں علمائے دین کی طرف دیکھتی ہے اور انکا یہ فرض منصبی ہے کہ اتحادویگانگت کااولین نعرہ انہیں کے ہاں سے بلند ہوکہ یہ طبقہ امت کی قیادت کا حق محفوظ رکھتاہے۔
 
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Ittehad Ummat e Muslima - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Ittehad Ummat e Muslima and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Ittehad Ummat e Muslima.