آج پھربیس کروڑانسان
نما’’ریوڑ‘‘کی داستانِ غم اپنے ہم نفسوں کی خدمت میں معذرت سے پیش کرنے کی
جسارت کرتا ہوں ۔جب ہم بے لگام ،بے دھڑک حکمرانوں،اعلیٰ منصب پر
فائیزشخصیات،ذمہ داران کوزیبِ تنقید قرار دیتے دیر نہیں لگاتے،مگریہ نہیں
سوچتے کہ اس سارے عمل میں کون اصل قصوروارہے۔ہمارے مذہبی،سیاسی، سماجی
سطحوں تک بے ہنگم،بگڑا تگڑانظام کارکے ذمہ دار صرف ہمارے حکمران ہی نہیں
بلکہ اس کے مجرم من حیث القوم ہم سب ہیں۔آخر کیوں۔۔۔؟؟؟
ہمارے سماج کا اہم طبقہ جو مذہب کا علمبردار ہے،ان کی حالت پر توجہ دلانا
ضروری ہے،ہمار ے مذہب کا اہم رکن ’’نکاح‘‘جو سنت رسول ﷺہے،ہمارے پیارے اسلا
می ملک میں اس کی ادائیگی پر جو ٹیکس اورسپر ٹیکس لگا ہوا ہے اس کی کہانی
سنئے۔۔۔۔۔ہر نکاح خواں اپنی تقرری کیلئے سیاسی چھتری استعمال کرکے کیسے
لُوٹتا ہے۔۔؟؟؟دلہا کی سلامی سے نقد وصولی ہزاروں میں بقدر’’جثہ‘‘کی جاتی
ہے۔حالانکہ حکومت نے صرف دوسو روپے نکاح فیس رکھی ہوئی ہے۔ظلم دیکھئے۔۔۔۔۔حکومت
نے مہر پر دو فیصد ٹیکس رکھا ہوا ہے مگر پانچ سے دس فیصد وصولی ہورہی
ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر نکاح خواں ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زائد ’’اوپر‘‘
کی کمائی کررہا ہے۔یہ حال ہمارے اس طبقہ کا ہے جوہر لحاظ سے محترم تصور کیا
جاتا ہے۔پھر ہم کہیں کہ تبدیلی آئے تو یہ’’احمقوں کی جنت‘‘میں رہنے والوں
کے خواب ہیں۔سننے میں آیا کہ نکاح خواں کا رعب تھانے دار سے کم نہیں
ہوتا،جنہیں ہمارے لئے مثال ہوناچاہئے ان کا یہ حال باعث تشویش ہے۔یہ رخ
مذہب کے دعویٰ داروں کا ہے، اب اردگرد نگاہ ڈالتے ہیں جہاں کسی کی نظر نہیں
پڑتی وہاں کیا ہورہا ہے۔ہمارے وطن عزیز میں بے شمار سیکیورٹی ایجنسیز ہیں
جو پرائیوٹ سیکٹر کو سیکیورٹی مہیا کرنے کا انتظام وانصرام کرتیں ہیں۔اس و
قت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان ہے،جس کیلئے ہر شہری کو اپنی ذمہ
داری کا مظاہرہ کرنا ازبس ضروری ہے مگرزیادہ فرض ان اداروں کا ہے جو امن
کوششوں میں شامل ہیں۔لیکن حالت زار یہ ہے کہ بندہ خوف کھا جاتا ہے ،مجموعی
طور پر ہر سیکیورٹی کمپنی میں پہلی صفت یہ نظر آئی کہ ہر سیکیورٹی گارڈکی
کم از کم عمرپچاس برس ہے، جن سے بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی لی جارہی ہے ،انہیں
ماہوارپانچ سے آٹھ ہزار روپے معاوضہ دیا جاتا ہے،سوچئے ذرا۔۔۔۔!!کیا جنگی
صورت حال میں ایسی سر عام قتلِ معاش جائیز ہے۔۔۔؟؟؟پہلی بات تو یہ ہے کہ
پچاس برس کے بزرگ کو حکومت ’’اولڈبینی فیٹ‘‘دینے کی بجائے اہم ذمہ داری پر
رکھنے کے عوض وہ رقم دی جاتی ہے جو اس دور میں ایک ذی جاں کیلئے بھی ناکافی
ہے۔وجہ کیا ہے کہ یہ ظلم روا رکھا جارہا ہے۔۔۔؟؟؟ذرا غور فرمائیے۔۔۔۔!!سیکیورٹی
ایجنسیز کے قواعد و ضوابط بنانے والوں نے یہ نہیں سو چا کہ وہ اس اہم ادارے
کی صلاحیت و قابلیت و اہمیت کی رو سے کس درجہ و معاوضہ پر نظم و نسق قائم
کریں۔بد قسمتی سے جیسے دیگر اداروں کی حالت لائق توجہ ہے اس سے زیادہ
سیکیورٹی پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔اس ادارے کی بڑی خامی یہ ہے کہ اسے تجارتی
بنیاد پر فرد واحد کے مفاد میں منظم کیا جاتا ہے،وہ’’ فرد واحد‘‘ اپنے اثر
ورسوخ سے انسانی جانوں کو بکریوں ،بھیڑوں کا ریوڑ سمجھ کرہانکتا جارہا ہے
کوئی پوچھنے والا نہیں ’’کو ئی پوچھ بھی نہیں سکتا‘‘کہ امن و امان قائم و
دائم رکھنے کیلئے کیا اہلیت درکار ہے۔۔۔۔؟؟؟اسی طرح ہمارے سماج کو استحصال
زدہ کرنے والے ہر کونے میں تاک لگائے بیٹھے ہیں،لاکھوں اور کروڑوں روپے کا
کاروبار کرنیوالوں کو کوئی نہیں پوچھتا بے چارے ریڑھی بان،چھابہ فروش،پھیری
والے تجاوزات کی ذد میں آتے ہیں،ہوتا یوں ہے کہ بلدیہ کے ’’اوپر‘‘کی کمائی
والوں کی اپنی لائن بنی ہوتی ہے جو بھتہ داری میں ملوث ہوتے ہیں،جب انہیں
کوئی رکاوٹ لگتی ہے تو بلدیہ کا ٹرک بازاروں میں نازل ہو جاتا ہے جس کی ’’لائن‘‘
بن جاتی ہے وہ ٹرک کے گذرنے کے بعد پھر وہاں چل پڑتا ہے،بہانہ یہ بنایا
جاتا ہے کہ دہشتگردی کے پیش نظر بازاروں کو محفوظ بنانے کیلئے رش ختم کرنا
ناگزیر ہے حالانکہ اس کا پسِ منظر یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح عوام کے
روزگار کو مشکل بنایا جائے۔جبکہ دہشتگردجب ، جہاں کہیں چاہئے وہ اپنا کام
دکھا جاتا ہے اسے ان حیلوں سے روکا نہیں جاسکتا،ہماری کوتائی اندیشی ہے کہ
ہم مرض کا علاج کرنے کی بجائے مریض کے خاتمہ کو ترجیج دیتے ہیں۔مذکورہ
امثال پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سماج میں لاتعداد ایسی بد نظمی ،جبر،ظلم
اور حق تلفیوں کی تفصیل ہے جس پر نظر نہیں ٹہرتی۔اس کے ذمہ دار بھی عوام
ہیں،اگر عوام اپنے نمائندوں کا درست انتخاب کریں جو ان کی زبان میں بات
کرنے کی جرات رکھتے ہوں تو پھر تبدیلی ممکن ہے۔جیسے چل رہا ہے ایسے کسی سے
بھی کچھ نہیں ہو سکتاکیونکہ جب نکاح خواں،سیکیورٹی کمپنی کے مالک اور بلدیہ
کے کاندوں پر سایہ رکھنے والے بھی عوام کے ووٹ لیکر عوام پر چھری چلائیں گے
تو پھر قصور عوام کا ہی ہے جو ایسے عوام دشمنوں کو آگے لاتے ہیں۔یہ عوام کی
خوش نصیبی ہے کہ وطن ِعزیز میں جمہوریت کا دور دورہ ہے۔سیاسی جماعتوں کی
بھی ذمہ داری ہے کہ وہ روائتی انداز کو ترک کرکے مستقبل کی صف بندی عوام کے
مفاد میں کریں۔برادریوں،علاقوں ،صوبوں ،مذہبی و مسلکی،لسانی ،شخصی ودیگر
تعصبات کی بجائے قومی مفاد کو عزیز تر رکھ کر ووٹر سے وزیر اعظم تک یکسو
ہونا پڑے گا۔ان سطور میں حکمرانوں کی توجہ ان نا دیدہ مسائل پر لانے کی
ضرورت اسی لئے ہے کہ وہ تاریخ میں نام رقم کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ،یہی
وقت کی آواز ہے۔عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیکر اپنا کردار ادا
کریں۔بد قسمتی سے ہمارے لیڈروں کی حالت یہ ہے کہ انہیں اپنے قول و فعل میں
تمیزہی نہیں رہی جس کی واضح مثال گذشتہ روز پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے
امیر مولانا فضل الرحمن کی تقریر سے عیاں ہوتی ہے،ہمارے سینئر پارلیمنٹرین
کا طرزِ عمل دیدنی تھا اور عوام کا جمِ غفیر بھی بتارہا تھا کہ مولانا کے
عقیدت مندوں’’غریب کی جورُو سب کی بھابی‘‘ کی ماند کمی نہیں ،مولانا سے
کوئی پوچھے کہ انہوں نے مہنگائی کے خلاف دھرنے سے خطاب کسے مجرم سمجھ کر
کیا،آخر مہنگائی ’’پرویز خٹک ‘‘نے کی ہے کہ انہوں نے سارا غصہ صوبائی حکو
مت پر نکالا ۔۔۔۔؟؟؟؟خود مولانا ماضی سے اب تک وفاقی حکومت کے اتحادی
ہیں،مہنگائی قومی مسئلہ ہے،اس کا سارا الزام پرویز خٹک پر ڈالنا سمجھ سے
بالاتر ہے۔یہ سب ڈرامہ مہنگائی کیخلاف نہیں بلکہ پی ٹی آئی کو آنکھیں
دکھانے اور ’’وزارتوں کا حق ‘‘ادا کرنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔جب مذہبی
شعبدہ باز ایسی حرکتیں کرینگے تو کیا تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔۔۔؟؟حیرت
کی بات تو یہ ہے کہ مہنگائی کیخلاف دھرنا دینے والے عوام بھی کیا سادہ ہیں
جو بھنور میں پھنسی کشتی کے ملاح سے تلاش ِساحل ہیں جو خود ’’کشمیر
کمیٹی‘‘سے باہر نہیں نکلے۔ایسی عوامی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔جب عوام
ہی اپنے مستقبل سے بے خبر ہوں تو ان کے رہنماؤں کا کیا قصور۔۔۔۔؟؟؟ایسے
حالات دیکھ کر کسی درویش نے کہا تھا کہ
اک پاسے میرے رہن وہابی،اک پاسے دیوبندی
اگے پچھے شیعہ سنی، ڈاہڈی فرقہ بندی
وچ وچالے ساڈا کوٹھا،قسمت ساڈی مندی
اِک محلہ،آٹھ مسیتاں، کیدی کراں پابندی
غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے عوام جاگ جائیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے،کسی ایک
کو قصور وار ٹہرانا نا انصافی ہے،مولانا ٖفضل الرحمن قابل احترام شخصیت ہیں
ا ن کا اکیلے کوئی قصور نہیں بلکہ ان ہزاروں’’شوریدہ بختوں‘‘کو فکرکرنی
چاہئے تھی کہ ان کا احتجاج کیا درست پلیٹ فارم سے تھا۔بلاشبہ مہنگائی ایک
عذاب سے کم نہیں،اس میں تمام صوبائی و وفاقی حکمران برابر شریک ہیں ،سمجھ
نہیں آ رہی کہ مولانا کسے قصور وار ٹہراتے ہیں اس پر ہی کہا جاتا ہے کہ
’’جیسی حوراں ایسے فرشتے‘‘۔ایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ’’ اپنی اپنی ڈفلی
اپنا اپنا راگ‘‘۔۔۔۔اﷲ ہمیں ہوش و حواس عطا فرمائے تاکہ ہم درست فیصلہ کرنے
کی صلاحیت اجاگر کر سکیں۔ |