امن کو ایک اور موقع

حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر امن کو ایک موقع دیا جارہا ہے۔ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے لہٰذا عسکریت پسندوں کو بھی اپنی کارروائیاں روکنی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم دہشت گردی کے حوالے سے یکساں سوچ رکھتی ہے اور سیاسی و فوجی قیادت سے مشاورت کے بعد ہی مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جو مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہیں ان میں ممتاز دانشور عرفان صدیقی، معروف تجزیہ نگار اورافغان امور کے ماہر رحیم اﷲ یوسفزئی ، میجر (ریٹائرڈ) محمد عامر اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔ وزیر اعظم خود اس کمیٹی کی براہ راست نگرانی کریں گے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت واضح موقف اور حکمت عملی پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان کے عوام اور ادارے دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ ہمارے معصوم بچے مررہے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ریاست کسی بھی شہری کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت سے صرف نظر نہیں کرسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اے پی سی کے فیصلے کے بعد میجر جنرل ثنا اﷲ نیازی کو قتل کیا گیا اور اس کی ذمہ داری فخر سے قبول کی گئی۔ پشاور، بنوں، ہنگو اور راولپنڈی میں قتل عام کیا گیا۔ میڈیا کے کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے، سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

وزیر اعظم کے خطاب کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے مذاکرات کا خیر مقدم کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ٹائم فریم ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کے فیصلے کو خراج تحسین قراردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کے تمام امور واضح ہوں اور عوامی کو بھی ان کے بارے میں معلوم ہوں۔ جمعیت علمائے پاکستان (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذاکراتی اراکین کے لیے ان سے مشاورت نہیں کی گئی تاہم وہ مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کے پاس صرف مذاکرات کا آپشن بچا ہے تو وہ پھر دعا ہی کرسکتے ہیں۔ اپوزیشن اراکین کی تقریروں میں گو کہ کچھ گلے شکوے بھی تھے مگر مجموعی لحاظ سے تقریباََ سب نے مذاکراتی عمل کے حکومتی فیصلے کی حمایت کی۔ اس طرح کسی کو مذاکراتی ٹیم کے اراکین پر بھی اعتراض نہیں تھا جو کہ دوسری اہم پیش رفت ہے۔ ایک اور مثبت بات یہ تھی کہ وزیر اعظم کے تجویز کنندہ تمام ناموں کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ چاروں اراکین نے یہی کہا کہ اگر ان کی وجہ سے امن کی کوئی کرن پھوٹ سکتی ہے تو وہ ضرور اس کی کوشش کریں گے۔ اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائیں گے۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات اور مذاکراتی ٹیم سے متعلق حتمی فیصلہ شوریٰ کرے گی۔انہوں نے بھی مذاکراتی ٹیم کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا۔ اس طرح امید ہے کہ مذاکراتی عمل کا پہلا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پا چکا ہے۔ یہی سب سے اہم مرحلہ تھا۔ کیونکہ ماضی میں بہت سے افراد اور سیاسی جماعتیں اس عمل کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں جس سے کنفیوژن پھیلتی رہی اور حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں اور عوام میں مذاکرات کے حوالے سے غلط فہمیاں جنم لیتی رہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے ایسے افراد پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل جو انتہائی قابل اور محترم ہونے کے ساتھ ساتھ افغان، فاٹا، طالبان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے امور پر کافی دسترس رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر غیر متنازعہ ہیں،اس سے اب شاید کسی کو سیاست کا موقع نہ مل سکے اور کوئی نتیجہ بھی سامنے آسکے گا۔ ویسے ایسے معاملات جن کا براہ راست تعلق ملک کی سلامتی اور عوام کے جان ومال سے ہو، ان پر سیاست بازی ہرگز نہیں کی ہونی چاہئے۔ وزیراعظم نے بھی اسی بات پر زوردیا کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں سے کسی کو اپنی سیاسی بازی کا کوئی پہلو نہیں نکالنا چاہئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے معاملے کو اولین ترجیح کے طور پر حل کرنے کا وعدہ اور عزم کیا تھا۔ جب عوام نے اسے مینڈیٹ دیا تو ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ حسب وعدہ فوری طور پر عسکریت پسندوں سے مذاکرات کئے جاتے مگر حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔ چلیں اسے بھی اس تناظر میں مثبت پیش رفت کہہ لیجئے کہ اس سے ان پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہوجائے گی اور حکومت پورے اعتماد اور مکمل اتفاق رائے سے مذاکرات کی میز پر بیٹھتی ۔ اس طرح کسی کو بعد میں کوئی اعتراض کرنے کا موقع نہ دیا جاتا۔ جب اے پی سی نے طالبان سے بامقصد مذاکرات کے لئے اپنا ووٹ حکومت کی جھولی میں ڈال دیا تو فوری طور پر حکومت کو طالبان سے مذاکرات شروع کردینے چاہئیں تھے۔ اس سے پہلے کہ حکومت کوئی فیصلہ کرتی، امریکی ڈرون حملے نے اس تمام عمل کو بکھیر کر رکھ دیا۔ اس حملے نے جہاں طالبان کے غصے کو ہوا دی وہاں ایک صفحے پر آئے قومی موقف کا شیرازہ بکھیر دیا۔ امریکہ کے تواپنے مفادات اور ایجنڈے ہیں اور وہ انہیں پورا کرنے کے لئے ’’اپنے پرائے‘‘ سبھی پر کسی بھی قسم کی کارروائی سے نہیں چوکتا۔ ایک ہم ہیں کہ ساری دنیا کے دکھ پال رکھے ہیں۔ بہرحال ہمارا قومی مفاد فوری مذاکرات میں ہی تھا۔ مگر اس ڈرون حملے کے بعد تو گویا حکومت نے اس حوالے سے آنکھیں ہی پھیر لیں۔ کوئی واضح موقف سامنے نہ آسکا۔ اس دوران طالبان پھر سے اپنے حملوں میں شدت لے آئے۔ بنوں، راولپنڈی، مستونگ میں حملوں کے بعد حکومت پر فیصلہ سازی کے فقدان کے حوالے سے شدید تنقید بھی سامنے آئی۔ مذاکرات کے حوالے سے جوقوم ایک صفحے پر ان حملوں کے بعد، رائے عامہ نے یو ٹرن لے لیا۔ اب وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پرایک صفحے پر آرہی تھی۔جس کے پس منظر میں توقع تھی کہ حکومت طالبان کے اس ظلم اور سینہ زوری پر طاقت کا استعمال کرنے کا فیصلہ کرے گی، مگر وزیر اعظم نے خلاف توقع امن کو ایک اور موقع دیا ہے۔ یہ اس لحاظ سے سب سے اہم ہے کہ چلیں اس فوری توجہ طلب ایشو پر حکومت کی جانب سے کوئی تو فیصلہ سامنے آیا۔ورنہ گزشتہ تین چار ماہ سے اس بارے میں حکومت گومگوں کیفیت کا شکار تھی۔ اب جبکہ مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ مذاکرات کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ طالبان کی شوریٰ کا کیا ردعمل ہوگا اور تشکیل دی گئی کمیٹی کو شرائط کے لئے کتنا اختیار حاصل ہوگا۔ وہ کس حد تک طالبان سے مذاکرات کرسکتی ہے اور نتائج پر کیسے عملدرآمد ہوگا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔تاہم حکومت کو اب اس حوالے سے کسی بھی سست روی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ مذاکرات بامقصد بنانے کے لئے ہرممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔ بقول عمران خان مذاکرات کی پیش رفت پرعوام کو باخبر رکھا جائے اور خورشید شاہ کے مطابق ان کا ٹائم فریم بھی مقرر ہونا چاہئے ۔ ایسے اقدامات سے قوم کی اس حوالے سے نہ صرف سمت متعین ہوگی بلکہ وہ آئندہ وہ مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے حکومت کے ہر اقدام مذاکرات یا ایکشن کی مکمل حمایت بھی کریں گے۔
Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.