ایسا ہی ہے

اخبارپڑھنا آج کے دور کا سب سے بہادری کا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہادری کیوں کہ آپ کو جس طرح کی خبریں پڑھنی پڑتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔پڑتی اس لئے ہیں کہ اسی قسم کی خبریں لگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب لگتی کیوں ہیں کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اخبار بھی تو وہی چھاپیں گے اب چھاپیں گے اس لئے کہ چُھپانا ضروری نہیں جو کچھ ہو رہا ہے کچھ حد تک مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کر دینا بھی جائز سمجھا جانے لگا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا بتانا جائز ہے اور کیا نہیں اس کی تفریق اور تقسیم ابھی تک نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی تک بھی کچھ ایسی خبریں لگتی رہتی ہیں کہ جو ہمیں نا قابل یقین لگتی رہتی ہیں۔

ایک ایسی ہی ناقابل یقین خبر یاد آئی کہ اگلے سال سے ملک میں گیس کا بحران نہیں رہے گا اب حالات اور خیالات اس چیز کو سچ ماننے پہ آمادہ تو نہیں کرتے مگر کیا کیا جائے کہ ماننا پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کو منوانے کےلئے ہی تو چھاپی گئی ۔ مگر اکثر خبریں جوکہ اس قسم کی ہوتی ہیں کہ کس وزیر داخلہ نے یا وزیر خارجہ نے آتے ہوئے یا جاتے ہوئے کیا کہہ دیا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا تبصرہ کیا جائے کیونکہ اس قسم کی خبریں جب سرخی بنا کے لگا دی جاتی ہیں جو کہ دو لوگوں کی عدم برداشت اور ایک دوسرے سے اختلاف کا مظاہر ہوتی ہیں اور اس کو ملکی مسۃلہ بنا کر پیش کردیا جاتا ہے۔

ایک تو حکمران طبقہ برداشت کرنا نہیں ضروری سمجھتا اور بے دھڑک پریس کانفرنسز میں اپنے مخالفین سے متعلقہ خیالات اور احوالات بتانا شروع کردیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر شروع ہو جائے کوئی جلسہ تو سب سے ذیادہ جو چیز سننی اور دیکھنی اور سپیکر کے مخالف کو برداشت کرنی پڑتی ہے وہ الزامات واختلافات کی بو چھاڑ ہے اور پھر عوام کی سماعتیں اس بوچھاڑ سے مستفید ہوتی رہتی ہیں۔ اگر تو دیکھا جائے عوام کی سماعتیں اس معاملے میں خاصی برداشت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

میرے خیال میں جلسہ کہتے ہی اسی موقعے کو ہیں جب عوام کو دو افراد کے اوپر کیچڑ اچھالتے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح کا موقع کبھی بھی گنوایا نہیں جاتا کیونکہ اس کے آخر میں ریفریشمنٹ کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ اور ریفریشمنٹ کے بارے میں اندازہ آپ کو خود ہی ہوگیا ہے۔

خود اندازے لگانا اور پھر انکو بڑھا چڑھا کر پیش کردینا بھی اس قوم کا پسندیدہ وطیرہ ہے۔ اس قسم کا کام صرف حکمران ہی نہیں عوام بھی کرتی ہے۔ آپ ٹی وی لگا لیں تو آُ پ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بہت سے ایسے حساس معاملات جن کا ابھی کورٹ میں کیس ہو اس تک کے بارے میں عوامی نمائندے اینکر پرسنز یا کا لم نگار تک خود بھی گیرے تجزیے اور تبصرے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی جلدی کہ سپریم اتھارٹی کے فیصلہ دینے سے پہلے ہی خود بتانا شروع کر دیا جائے کہ کیا ٹھیک جارہا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قسم کا تحمل شاید صرف یہاں کے حکمران ہی پیش کر سکتے ہیں۔

پیش پیش تو ہم عوام کوئی بھی ریلی یا جلسہ نکالنے اور معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے تیار رہتے ہیں جانتے بھی ہیں کہ فائدہ کوئی نہیں مگر یہ اقدام خوشی خاصی دیتا ہے اسی لئے اس کو کرنا بہت آسان اور غصہ نکالنے کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع تو اور بھی بہت سے ہہوتے ہیں بات منوانے کے مگر عدم براشت کا مظاہرہ یمارے ہاں کے لوگوں کا پسندیدہ وطیرہ ہے۔ اس وطیرے کو اب ہم زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرتے جارہے ہیں۔

لاگو کرنے کی وجہ بھی تو یہی ہے کہ سب کچھ ہو ہی اتنا خراب گیا ہے کہ اس قسم کی عدم برداشت کے کاموں کے بغیر اب گزارہ نہیں ہمارا۔۔۔۔۔۔ اب گزارہ نہیں سو ہم نے ایسے ہی گزارنی ہے۔ اچانک ایک دن ڈرائیو کرتے ہوئے مال روڈ پر ایک چار سال کے بچے نے وائپر سے سکرین کو صاف کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔بہت غصہ آیا اس کو چلا چلا کر منع بھی کیا مگر مانی اس نے ایک بھی نہیں پھر حد ہے ڈھٹائی کی ۔۔۔۔۔۔۔کام مکمل کر کے پیسے مانگنے شروع کر دیے اور ابھی منہ دوبارہ کھول کے چلانے والی تھی ککہ یاد آیا تحمل اور برداشت انہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دکھانے سے شروعات کرنی ہوتی ہے اور دوسروں کو کہنے کی بجائے خود برشت کا عملی مظاہرہ پہلے کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔انفرادی اور چھوٹی سطح پر کی جانے والی پریکٹس ہی مجموعی قوم کے روئے میں نظر آنے لگتی ہے۔
 
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293173 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More