ہمیں بچپن ہی سے حضرت قائدِ
اعظمؒ اور علامہ اقبال ؒ سے والہانہ لگاؤ ہے ۔وجہ یہ نہیں کہ ہمیں بچپن یا
لڑکپن ہی سے حضرتِ اقبالؒ کی شاعری میں موجود فلسفہ و تفلسف کی سوجھ بوجھ
تھی یا حضرت قائدِ اعظمؒ کی مسلمانانِ ہند کے لیے کوششوں اور کاوشوں کا کچھ
پتہ تھا ، بلکہ اِس لگاؤ کی وجہ یہ تھی کہ برِ صغیر کی اِن دو عظیم ترین
ہستیوں کے یومِ پیدائش اور وفات پر سکول میں چھٹی ہوا کرتی تھی اور چھٹی
ہمیں بچپن ہی سے بہت مرغوب ہے ۔اِس چھٹی کا مزہ اُس وقت اور بھی دوبالا ہو
جاتا تھا جب غیر متوقع طور پر چھٹی کا اعلان ہو جاتا اور ہم اپنے ’’بَستے‘‘
اُٹھائے چیختے چلاتے گھروں کو دَوڑ اُٹھتے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک
دِن پاکستان کے کسی بڑے لیڈر کے جہانِ فانی سے کُوچ کر جانے کے سوگ میں
حکومت نے چھٹی کا اعلان کر دیا اور اِس سوگ کی کیفیت سے مکمل طور پر بے
بہرہ ہمارا دل قہقہے لگانے لگا۔گھر پہنچ کر ہمارا افلاطونی ذہن یہ سوچنے
لگا کہ اگر ایک بڑے آدمی کی وفات پر ایک چھٹی ہو سکتی ہے تو ہماری
’’اُستانی جی‘‘ جو اُس وقت ہمارے نزدیک بہت بڑی ہستی تھیں ، اُن کی وفات پر
کتنی چھٹیاں ہو سکتی ہیں ؟۔ہماری یہ چھٹی حساب کتاب کرتے غارت ہو گئی لیکن
عُقدہ وا نہ ہوا۔ اگلے دن سکول پہنچنے پر ہم نے چھٹی کے بارے میں اپنی سب
سے عزیز دوست کو اپنے اِن عالمانہ خیالات سے آگاہ کرکے مشورہ چاہا ۔وہ بَد
بخت ویسے تو شروع سے ہی کاسہ لیس تھی لیکن اُس دِن تو ایسی طوطا چشم نکلی
کہ محض ’’نمبر ٹانکنے‘‘ کے لیے ٹیچرکو سب کچھ بتا دیا ۔اُس کے بعد پوری
کلاس کے سامنے ہماری جو ’’درگت‘‘ بنی اُس کا احوال لکھنے کے لیے الگ کالم
کی ضرورت ہے ۔اُس دن کے بعد سے جب تک ہم اُس کلاس میں رہے ، ٹیچر کا شکنجہ
ہمیشہ ہمارے گرد کَسا ہی رہا اور گاہے بگاہے ٹیچر صرف شکنجہ ہی نہیں بلکہ
ہمارے بھی ’’نَٹ بولٹ‘‘ کَستی رہیں۔ ہم نے اُس دن کے بعد سے یہ سوچتے ہوئے
اپنی اُس راز دان ’’دوست‘‘ سے ہمیشہ کے لیے ناطہ توڑ لیا کہ
کیا غم خوار نے رُسوا ، لگے آگ اِس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی ، وہ میرا راز داں کیوں ہو
حضرتِ اقبالؒ اور بابائے قوم سے ہمیں آج بھی محبت ہے لیکن یہ محبت اب عقیدت
میں ڈَھل چکی ہے ۔مسلمانانِ ہند کے لیے اُن کی کوششوں اور کاوشوں کا ہر
کوئی معترف ہے اور جو نہیں اُسے پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔حضرتِ
قائد ؒ نے اسلام کی تجربہ گاہ کے لیے انگریزوں اور ہندوؤں سے لَڑ کر یہ’’
قطعہ ٔ ارض‘‘حاصل کیا ، یہ الگ بات ہے کہ ہم آج تک اسے اسلام کی تجربہ گاہ
کے طور پر استعمال نہیں کر سکے اور نہ مستقبل میں ایسی کوئی امید ہے
۔طالبان جو’’اسلامی شریعت‘‘ بندوق کے زور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں ، اُس کا
دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ہمارے علماء کرام کا یہ حال ہے کہ ہر کسی کی
اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ۔فرقوں میں بَٹے علماء ، جو ایک دوسرے کی
امامت میں نماز تک ادا کرنے کے روادار نہیں ، وہ کیا خاک نفاذِ اسلام کریں
گے؟۔حاکمانِ وقت کے پاس بھی گھڑا گھَڑایا بہانہ یہ ہے کہ کِس کی شریعت نافذ
کریں ؟۔شیعہ کی ، سُنّی کی ، بریلوی کی ، دیو بندی کی یا اہلِ حدیث کی
؟۔ہمارے قائدین کا یہ عالم ہے کہ اُنہیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر ہی نہیں
آتا ۔’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے پرویز مشرف صاحب نے حکومت
کا تختہ اُلٹنے کے بعد سب سے پہلے کُتّوں کے ساتھ تصویر کھنچوا کر اہلِ
یورپ و امریکہ کو یہ پیغام دیا کہ وہ اُنہی میں سے ایک اور اُنہی کا غلامِ
بے دام ہے ۔مشرف اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں لیکن اُن
کا یہ فرمان صرف پاکستانیوں کے لیے تھا امریکہ کے لیے نہیں کیونکہ تاریخ
گواہ ہے کہ جیسے ’’چِت ‘‘ وہ امریکہ کے سامنے ہوئے ، دنیا میں اور کوئی نہ
ہوا ہو گا ۔اب یہ بہادر کمانڈو بیماری کا بہانہ بنا کر AFIC میں لیٹا ہوا
ہے اور سَچ تو یہی ہے کہ اُس نے AFIC کے ڈاکٹروں کو بھی ’’وَخت‘‘ میں ڈالا
ہوا ہے ۔اُنہوں نے تو اِس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی میڈیکل
رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ مریض اُن سے علاج نہیں کروانا چاہتا اِس لیے اُسے
باہر بھیج دیا جائے ۔لیکن اپنے اکرم شیخ صاحب ’’دھاڑنے‘‘ لگے اور میڈیکل
رپورٹ پر 13 اعتراضات اُٹھا تے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ رپورٹ مرتب کرنے
والے بورڈ کے چیئر مین صاحب کو عدالت میں طلب کیا جائے کیونکہ وہ رپورٹ پر
جرح کرنا چاہتے ہیں ۔وہ تو اﷲ بھلا کرے خصوصی عدالت کا جس نے ٹھنڈا پانی
پلا کر شیخ صاحب کا غصّہ ٹھنڈا کیا اور اپنے فیصلے میں یہ لکھ دیا کہ AFIC
کی رپورٹ پر کسی قسم کا شک و شبہ کیے بغیر اُسے تسلیم کیا جاتا ہے لیکن
مشرف امریکہ نہیں جا سکتے (ہماری زبان میں فرار نہیں ہو سکتے)کیونکہ AFIC
کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی جس سے یہ ثابت ہو
سکے کہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں اِس لیے خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہو
سکتے ۔خصوصی عدالت نے مشرف صاحب کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے
ہوئے اُنہیں 7 فروری کو عدالت میں طلب کر لیا ہے اور آئی جی اسلام آباد کو
یہ حکم دیا ہے کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل کروائیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ
فوج عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے آئی جی اسلام آباد کو AFIC میں گھُسنے
ہی نہیں دے گی ۔لیکن یہ سب ’’عاشقانِ مشرف‘‘ کی خوش فہمی ہے اورہم سمجھتے
ہیں کہ فوج عدالتی احکامات کی راہ میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنے گی ۔اب مشرف
صاحب اور اُن کے حواریوں کو بھی یہ پتہ چل جائے گا کہ انتہائی محترم چیف آف
آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ، مشرف حمایت میں کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اب مشرف
صاحب کے وکیل احمد رضا قصوری صاحب کا یہ ہمہ وقتی راگ بھی بند ہو جائے گا
کہ ’’ فوج مشرف کا ٹرائل نہیں ہونے دے گی کیونکہ مشرف کا ٹرائل فوج کی
توہین ہے ‘‘۔ عدالتی فیصلے کے بعد ’’مشرفی بزرجمہر‘‘ احمدرضا قصوری نے کہا
کہ اُنہوں نے سات فروری کے لیے لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے جسے اُنہوں نے
اپنی پوٹلی میں بند کرکے اپنے کوٹ کی بائیں جیب میں ڈالا ہوا ہے اور یہ
پوٹلی اب سات فروری کو ہی کھلے گی ۔احمد رضا قصوری کی پوٹلی میں جو کچھ بھی
ہو گا وہ مشرف صاحب کے نقصان میں ہی جائے گا کیونکہ نادان دوست سے ہمیشہ
دانا دُشمن بہتر ہوتا ہے اور قصوری صاحب کے بارے میں تو بَر ملا یہ کہا جا
سکتا ہے کہ ’’ہوئے تُم دوست جس کے ، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو ‘‘۔ ہم
سمجھتے ہیں کہ اب مشرف صاحب کے گرد آئینی و قانونی شکنجہ مکمل طور پر کَسا
جا چکا ہے اور اُن کی فرا ر کی ساری راہیں مسدود ہو چکی ہیں ۔اب ملزم کو
عدالت میں پیش ہونا ہی ہو گا اور ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ بقول خواجہ
سعد رفیق مشرف قوم کا نہیں ، اﷲ کا مجرم ہے اور اﷲ کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے
۔ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جامعہ حفصہ کی بچیوں کو فاسفورس بموں کی غذا
بنانے والے ، اکبر بکتی کو شہید کرنے والے ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت بہت سے
بے گناہ پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں بیچنے والے ، سینکڑوں فوجی جوانوں
کو کارگل کی جنگ کا ایندھن بنانے والے اور مُکّے لہرا لہرا کر اپنے آپ کو
’’طاقت ِ کُل ‘‘ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے پرویز مشرف اب اُس ربّ ِ جبار
و قہار کی پکڑ میں ہیں جس کی رَسّی تو دراز ہوتی ہے لیکن پکڑ مضبوط ،بہت
مضبوط ۔ |