ہمارا دشمن کون۔۔۔؟

میرے دوست نے سوال اٹھایا۔۔’’کیا یورپ اتنا ہی فارغ ہے کہ وہ ایک ناکام ملک جس میں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں جس ملک میں آئے روز انسانی خون کی ندیاں بہتی ہوں ایسے ناکام ملک اور ایسی ناکام قوم کے خلاف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کیوں اپنی توا نائیاں خرچ کریں اور سازشیں کرتے پھریں۔دنیا تمہارے ہیروز کو کیسے یاد کرتی ہے؟؟ مجھے اس دوست کے سوالات پر کچھ زیادہ حیرانی نہیں ہوئی تھی میرے اس دوست کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے وہ کہتا ہے اپنے خول سے باہر نکلو دیکھو دنیا تمہیں کتنی نفرت سے دیکھتی ہے پاکستانی پاسپورٹ کی کیا اہمیت ہے؟ تمہارے حکمران مغرب کے سامنے امداد کے لئے گڑگڑاتے ہیں اور تم لوگ جن کا کھاتے ہو انھی کو آنکھیں دکھاتے ہو۔۔۔ایک لمحے کے لئے میں اپنے دوست کی سب باتیں سچ مان لیتا ہوں پاکستان غربت،ناکامی،بے بسی،مایوسی کا دوسرا نام ہے۔لیکن دوسرے لمحے سوچتا ہوں اس وطن کی مٹی کی مہک میں اپنا پن ہے یہ دھرتی تو دھرتی ماں ہے،نہیں کبھی نہیں ۔۔۔۔اسے چاہے جذبات نگاری کا نام دے دیجیے چاہے مجھے مخبوالحواس قرار دے دیا جائے۔وطن عزیز مشکلات میں ہے مصائب کے درمیان میں گھرا ہوا ہے تو کیا ہوا ہے انشاﷲ ہم ہی اسے ان حالات میں سے نکالیں گے ۔۔۔۔یہ وطن تو میرا گھر ہے اور گھر میں مسائل ہوں تو کیاکوئی گھر چھوڑ دیتا ہے؟ رہی بات یورپ کو کیا پڑی ہے کہ وہ سازشیں کرے جی ہاں دنیا کا واحد ملک جو اپنی نظریاتی سر حدیں رکھتا ہے جی ہاں یہ وہی ملک ہے جس کی بنیادوں میں دین اسلام ہے ۔۔۔جی ہاں وہی ملک جس کے قیام کے لئے سینکڑوں جانیں دی گئیں تھیں جی یہ وہی پاکستان ہے جس کے ہر گوشے سے ایک ہی نعرہ گونجتا ہے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اﷲ۔۔۔۔۔یہ صرف نعرہ نہیں یہ صرف چند لوگوں کی آواز نہیں یہ وہ گونج ہے جو سات سمندر پار بیٹھے طاغوتی قوتوں پر کپکپی کی کیفیت طاری کیے ہوئے ہے۔دین اسلام کے پیروکاروں کا ایسا خوف طاری ہے کہ روز نئی سازش تیار ہے لیکن سب حربے ناکام۔۔۔

میرے ہی قبیلے کے دوست پوچھتے ہیں برما میں مسلمان مرتے ہیں،فلسطین میں مسلمان جلائے جاتے ہیں،چچنیا میں مسلمانوں میں مارے جاتے ہیں تو تمہیں کیا تکلیف ہے؟؟تو جواب یہ ہے میرے آقا ﷺ نے فرمایا تھا ’’مسلمان ایک جسم کے اعضاء کے مانند ہیں جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے توپورا جسم تکلیف میں آجاتا ہے‘‘۔

مغرب کیوں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے؟

’’اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود اور نہ نصاریٰ جب تک تو تابع نہ ہو اْن کے دین کا۔ ‘‘(البقرہ)

اسی لئے یہود و نصاریٰ نے ہمیشہ سے اسلام، پیغمبر ِ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا حریف اور دشمن جانا اور سمجھا ہے۔ اسلام، پیغمبر اسلام، شعائر اسلام، مسلمان اور ان کی مقدس ترین شخصیات کی توہین، تنقیص، تحقیر اور تذلیل کرنے والا کوئی ملعون ومردود ہو، وہ ان کا حلیف و دوست، ان کی مدد و نصرت کا حق دار اور حقوق انسانی و آزادی کا مستحق ہے۔ دنیا بھر کے یہودی اور عیسائی کم از کم اس ایک نکتے پر متفق و متحد نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی لعین، سلمان رشدی ملعون، تسلیمہ نسرین مردود اور مرتد عبدالرحمن تک ہر ایک پر انہوں نے اپنی نوازشات کی بارش کی ہے ۔ یہ 1999ء کی بات ہے امریکا میں ایک تنظیم دیکھتے ہی دیکھتے وجود میں آئی جس کا نام تھا ’’فرینڈز آف پاکستان‘‘ اس کی سہ روزہ کانفرنس کولمبیا یونیورسٹی میں منعقد ہوئی اس کانفرنس میں جنرل جہانگیر کرامت بھی شریک تھے اس کفرنس کے تمام اجلاسوں میں ’’بظاہر‘‘ پاکستان کا درد رکھنے والے لبرل اور امریکا میں پلنے والے دانشوروں کی اکثریت کا سارا زور صرف اس بات کو ثابت کرنے پر تھا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔اس کی ابتدا بھی غلط تھی انتہا بھی غلظ ہے اور پاکستان کی ناکامی کی سب سی بڑی وجہ مذہب ہے۔اس کانفرنس کے آخر میں سوالات کے سیشن میں ایک سری لنکن مسلم اٹھااور کہا’’ہم تو پاکستان کو برصغیر کی مسلمانوں کی ایک بڑی کامیابی اور اور اسے اﷲ کی نعمت سمجھتے ہیں اور پاکستان کو ایک آزاد مسلم ملک کی حیثیت سے بہت قدر کرتے ہیں لیکن یہاں آکر پتا چلا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یہ جان کر بہت دکھ ہوا‘‘ کچھ ایسے ہی دانشوروں کی ہمارے ہاں بہتاط ہے جو طرح طرح کی دلیلیں نکال کر لاتے ہیں کہ کسی طرح سے مذہب سے بیزاری پھیلائی جائے۔جو اسلام کو ’’سیاسی اسلام‘‘ یا ’’انتہا پسند اسلام‘‘ ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔میں یہ گستاخی کرنے جا رہا ہوں ’’صاحبو یہ تم نہیں ڈالر بول رہے ہیں‘‘ مبارک ہو اسلام دشمن قوتوں تو تمہارے جیسے دانشوروں کی مزید کھیپ درکار ہے۔

سابق برطانوی وزیر اعظم مسٹر گلیڈ سٹون نے برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان سے ظطاب کرتے ہوئے کہا تھا’’جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھوں یا ان کے قلوب و اذہان میں موجود رہے گا اس وقت تک یورپ اسلامی مشرق پر اول تو اپنا غلبہ و تسلط قائم نہیں کر سکتا اور اگر قائم کر بھی لے تو وہ اسے برقرار رکھنے میں زیادہ دیر کامیاب نہیں رہ سکتاحتی کہ خود یورپ کا اپنا وجود بھی اسلام کی جانب سے محفوظ نہیں رہ سکتا‘‘
کاش ہم اب بھی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں۔ ۔۔۔!
Farrukh Shahbaz
About the Author: Farrukh Shahbaz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.