کئی روز انتظار اور متعدد اعلیٰ
سطحی ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم ڈاکٹر میاں نوازشریف نے طالبان کے خلاف ٹھوس
فوجی کارروائی کے ماحول میں حیرت انگیز طور پر امن کو ایک نیا موقع دینے کی
بات کر کے اگرچہ بہت سے حلقوں کی طرف سے داد و تحسین وصول کی ہے تاہم اس کے
ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ حکومت کی طرف اس تبدیل قلب کا کیا
مقصد ہے۔ طالبان ایک روز پہلے تک حکومت کو بے اختیار قرار دے رہے تھے، اب
کیوں اس پیشکش پر اظہار اطمینان کرر ہے ہیں۔امور مملکت میں بہت سی باتوں کا
پس منظر غیر واضح ہوتا ہے۔ اس معاملہ کی حکمت بھی وزیراعظم بہتر سمجھتے ہوں
گے۔ عام طور سے اس فیصلہ پر کوئی سخت رائے دینے کا جواز بھی نہیں ہے کہ
افواج پاکستان کو ایک مشکل، طویل اورغیر واضح جنگ میں جھونکنے سے قبل اگر
مذاکرات کے ذریعے معاملات طے ہو سکیں تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
تاہم اس کے ساتھ ہی یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم ڈاکٹرمیاں
نواز شریف اور ان کی حکومت و پارٹی کے اہم عہدیداروں نے ہی گزشتہ ہفتے کے
دوران ملک میں طالبان کے پے در پے حملوں کے بعد جنگ کا ماحول پیدا کیا تھا۔
اور ایک انٹرویو میں خود وزیراعظم نے یہ قرار دیا تھا کہ خواہ بمباری کرنا
پڑے یا ڈرون حملوں کا سہارا لینا پڑے، اب طالبان کو سبق سکھایا جائے گا اور
انہیں بات چیت پر مجبور کیا جائے گا۔ تاہم اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت
خود ہی مجبور ہو کر پھر سے مذاکرات کا سہارا لے رہی ہے۔ قومی اسمبلی سے
خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے طالبان کے خلاف دھواں دار باتیں کرنے اور ان کے
جرائم کی طویل فہرست سامنے لانے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت امن
کو ایک نیا موقع دینا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک 4رکنی کمیٹی قائم کر دی
گئی ہے اور وہی اب طالبان سے مذاکرات کرے گی۔ یہ اعلان بجائے خود وزیراعظم
کے سرپرائز سے زیادہ حکومت کا اعتراف شکست ہے۔ طالبان جیسی سرکش قوت ایسی
کمزور اور ’’بے ضرر‘‘ حکومت کو کیوں کر سنجیدگی سے لے گی؟۔ اس سوال کا جواب
چند ایک روز یا ہفتوں میں قوم کے سامنے آجائے گا۔وزیراعظم نے جس 4رکنی
کمیٹی کا اعلان کیا ہے اس میں 2صحافی، ایک آئی ایس آئی کے نچلے درجے کے
ریٹائر افسر اور ایک سابق سفیر ہیں۔ اس کمیٹی کے مینڈیٹ کے بارے میں کوئی
معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔ نہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ کمیٹی کے ارکان
طالبان کے ساتھ معاملہ طے کرنے میں کس حد تک جاسکتے ہیں۔ یا یہ کہ وہ کن
امور پر باغی قوتوں سے بات چیت کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے
مذاکرات کے لئے کسی شرط کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے
کہ یہ مجوزہ کمیٹی خوش اسلوبی سے اس سنگین اور پیچیدہ مسئلہ سے نمٹنے کے
قابل ہے۔ہمارے نزدیک وزیراعظم کا اعلان حکومت کی کمزوری اور غیر واضح
پالیسی کا ایک نیا نمونہ ہے۔ ایک کمیٹی کا اعلان کرکے وزیراعظم نے یہ ثابت
کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب انہوں نے گیند طالبان کی طرف پھینک دی ہے۔ طالبان
نے بھی شاید اس چال کو سمجھ لیا ہے یا انہیں پہلے سے اس بارے میں معلومات
بہم پہنچا دی گئی تھیں۔ اسی لئے جوطالبان ایک روز پہلے تک مذاکرات کے لئے
توہین آمیز شرائط عائد کررہے تھے اور حکومت سے مطالبہ کرتے تھے کہ مذاکرات
تو ٹھیک ہیں مگر حکومت اس بارے میں اپنا اختیار ثابت کرے۔ وہی عناصر اب
حکومت کے اعلان پر اچانک اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ پنجابی طالبان کے
نمائندے نے تو اس پیشکش کو قبول بھی کر لیا ہے جبکہ طالبان کا بڑا دھڑا اس
سوال پر مشاورت کے بعد فیصلہ کرے گا۔وزیراعظم نے جو کمیٹی مقرر کی ہے وہ نہ
صرف یہ کہ بے اختیار ہے بلکہ ان کی پروفیشنل صلاحیت کے بارے میں بھی سوال
اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان میں نہ تو کوئی سیاست دان ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری
اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ شامل ہے۔ دو صحافیوں، ایک سفارتکار اور ایک آئی ایس
آئی ریٹائرڈ میجر پر مشتمل اس کمیٹی میں اکثر طالبان نواز خیالات رکھتے ہیں۔
طالبان کے ہمدرد مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام کے حقوق کا
کیوں کر تحفظ کر سکیں گے۔
اس اہم معاملہ پر بات چیت کے لئے نامزد ہونے والے اراکین نے باقاعدہ
کارروائی شروع کرنے یا آپس میں مشاورت کرنے سے پہلے ہی میڈیا کے ذریعے اپنے
خیالات کا اظہار بھی شروع کر دیا ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ اب طالبان کو بھی
اپنے نمائندے مقرر کر دینے چاہئیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ شریعت کا نفاذ
طالبان یا قبائلی عوام کا مسئلہ یا مطالبہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے علاقائی
مسائل اور محرومیوں کی و جہ سے جنگ شروع کی تھی۔ ان الجھنوں کو دور کر کے
بآسانی معاملات طے کئے جا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فاضل اراکین کے یہ
اندازے درست ہوں تاہم یہ خیالات معروضی حالات سے متصادم ہیں۔یوں بھی ایک
ایسی تحریک جو اسلامی شدت پسندی کی عالمی تحریک سے متاثر ہو کر شروع کی گئی
ہو، کو علاقائی محرومیوں کا نتیجہ قرار دینا نہایت محدود سوچ کی نمائندگی
کرتا ہے۔ معاملات کی ایسی تفہیم رکھنے والے لوگ کیوں کر مسائل کی جڑ تک
پہنچ کر باغی قوتوں کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کمیٹی کا واضح
ایجنڈا اور مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بھی معاملات پر حکومت کی گرفت کمزور
رہے گی۔ اس طرح حکمرانوں کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں شاید کچھ مزید
مہلت تو ضرور مل جائے گی لیکن کسی پائیدار حل کے امکانات محدود رہیں گے۔یہ
خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ کمیٹی کے ارکان نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے لئے
محض رابطہ کار کا کام کریں گے۔ یعنی ان کا رول صرف یہ ہے کہ طالبان کے
نمائندوں کو حکومت کے بااختیار لوگوں سے ملوا دیا جائے تاکہ وہ آپس میں
معاملات طے کر سکیں۔ اگر واقعی یہ کمیٹی رابطہ قائم کرنے کے لئے قائم ہوئی
ہے تو وزیراعظم کا قومی اسمبلی میں خطاب، وعدہ اور اعلان سراسر سیاسی دھوکہ
دہی کے متراف ہے۔
مبصر ین کا خیال ہے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے
حکمران غیر مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم کا تازہ ترین
اعلان اسی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ یہ دعا ضرور کرنی چاہئے کہ اس فیصلہ میں
خیر کی کوئی صورت سامنے آسکے لیکن یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کہ ایک گنجلک
اور پیچیدہ مسئلہ محض چار ایسے لوگوں کو نامزد کرنے سے حل ہو سکے گا جو
طالبان کی نظروں میں ہمدرد اور مخلص ہیں۔یہ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم اور
حکومت نے طالبان سے بات چیت کے لئے تہہ دار پالیسی طے کر لی ہو۔ اور کمیٹی
کے ذریعے اس حکمت عملی پر عملدرآمد کا آغاز کیا جائے گا۔ تاہم فی الوقت تو
یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک کمزور وزیراعظم نے ایک بار پھر مشکل فیصلہ کرنے
سے گریز کیا ہے۔ انہوں نے انتہاپسند مذہبی جماعتوں کے سامنے ہتھیار ڈال
دیئے ہیں اور قوم کو ایک بار پھر طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے ڈاکٹر فاروق ستار نے بجاطور پر کہا ہے کہ ان
حالات میں حکومت اور کمیٹی کی کامیابی کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے- |