غیرت کہوں یا ثقافت،کنجوسی کہوں یامحرومی،اتحاد کہوں یا
مجبوری، کہوں تو کیا کہوں؟لیکن کہنا لازمی سمجھتا ہوں۔میں کیسے بھول سکتا
ہوں وہ پھولوں کاچمن، وہ خوشبووں کی مہکاہٹ اور تِتلی کا پھولوں کی خوشبو
چرانا۔ آج بھی میری آنکھیں اُس منظرکو طواف کرتی ہیں۔جب میں نے اُس چمن میں
اپنا پہلا قدم رقم کر دیا؛تو مجھے یوں لگا کہ میں اکیسویں صدی سے نکل کر
ماضی کی سولہویں میں آگرا ہوں۔ وہ سولہویں صدی میرے لیئے کسی جنت سے کم نہ
تھی؛ کیونکہ میں بچپن سے یہ اکثر سُنتا آرہا ہوں کہ جنت میں ہر منت اور
چاہت پوری ہوتی ہے اور مجھے جس چیز کی چاہت تھی وہ مجھے وہیں سولہویں صدی
اور اُنہی لوگوں کے درمیان ملا، جو اکیسویں صدی میں گدھوں اور اُنٹوں پر
صفر کر رہے تھے۔وہ دودھ کا گلاس، وہ کھجور یے دانے،وہ کھجور کے پتوں سے بنی
ہوئی چٹائی،وہ خوشگوار شام کی خوشبو،وہ بلوچ بوڑھی ماں کی ہاتھوں سے بنی
ہوئی کیچڑی،وہ عورتوں کا جرمٹ اور وہ بزرگوں کا (گول دیوان)ڈسکیشن سرکل جو
شعر و شاعری میں اپنی مثال آپ تھے۔وہ ہمسائیوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا
جانا،وہ ایک دوسرے کا ہمدردی، وہ (کمشاشوں)بزرگوں کا (ٹولی)گروپ جو ہر عام
وخاص کی غم اور خوشی میں شریک ہوتے۔یہ سارا کچھ کس کو دیکھنے میں نصیب
ہوتے؛اُن خوش نصیبوں میں ایک خوش نصیب میں ہوں جو یہ ساری چیزوں اور باتوں
کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چُکا ہوں۔ ایک ایسی شام جس نے میری ذہنی بوجھ
کافی ہلکا کر دیا۔ کیا یہ واقعی حقیقت ہو سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں لوگ
ایسی طرح ایک دوسرے کا غم خوار اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں شاہد ہو جاہیں
لیکن کچھ حد تک۔ اکیسویں صدی کو گلوبلاہیزیشن، ٹیکنالوجی اور کمیونیشن کا
صدی کہتے ہیں اکیسویں صدی اِن سہولیات میں اپنی مثال آپ رہنے کے باوجود یہ
دوریاں کیوں؟یہ رنجشیں کیوں؟یہ قتل وغارتیں کیوں؟وہ لوگ جو سولویں صدی کی
منظر پیش کر رہے تھے وہ ان سہولیات کے باوجود اس طرح کے کاموں سے پاک تھے۔
اُن کی زندگی بھی کیا خوب زندگی تھی اِتنے محرومیوں کے ماتحت رہ کر ہم سے
دس گُنا آگے ہیں، ہم سے زیادہ سولہیزڈ، بااخلاق اور مہمان نواز ہیں۔ وہ اِن
محرومیوں میں رہ کر بھی محروم نہیں اور ہم اِن سہولیات میں رہ کر بھی سہولت
یاب نہیں۔ وہ رات کو بتی اور لکڑی جلا کر ہم سے زیادہ روشن ہیں۔ ہم تعلیم
یافتہ رہ کر بھی وہ ہم سے زیادہ عالم ہیں۔ وہ کماتے ہم سے کم ہیں لیکن
مہمان نواز زیادہ ہیں۔ اِس سے خوب واضع ہوتا ہے کہ سہولیات اور محرومیاں
میٹر نہیں کرتے ، اگر میٹر کرتا ہے تو اِنسان کی اپنی ذات اور اُسکا نفس۔ |