میری ماں (شخصی خاکہ)

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں جب تھک کر سوجاتی ہے ماں
تب جا کر تھو ڑا سا سکوں پاتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مر تے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
’’ماں ـ‘‘ایک عظیم نام ،قدرت کا بے مثال اورانمول تحفہ ، قربانی، ایثار، مروت،صبر و رضا ، پیار و محبت ،خلوص و وفا کی روشن مثال۔ ایک ایسا منفرد اورانمول رشتہ جس کی محبتوں کا، شفقت کا، قربانی کا، ایثار کا، خلوص کا ،وفاؤں کا،تقدس کااور سب سے بڑھ کر ممتا کا کوئی مول نہیں۔ماں کی عظمت کو لاکھو ں سلام، میری ماں تیرے قدموں کو سلام ۔

میری ماں کا نام صفیہ سلطانہ اور والد صاحب کا نام انیس احمد صمدانی تھا۔ ماں سبزواری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور والد راجستھانی تھے ، بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔والد شہری بابو اور والدہ مشرقی پنجاب کی ایک دیہاتی۔شہری اور دیہاتی ملاپ سے جنم لینے والے بندھن نے شہر کراچی میں ایک کامیاب زندگی گزاری ،دنیاوی زندگی کاد ورانیہ ۵۰ سال ۵ماہ اور ۲۵دنوں پر محیط رہا ۔اس ملاپ نے سات زندگیوں کو جنم دیا،انہوں نے ان ساتوں زندگیوں کی پرورش کی، انہیں تناور درخت بنا یا، یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی تین بہنوں اور دو بھائیوں کی بھی پرورش کی ، انہیں پروان چڑھاکر اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔

میری امی اورابا ۱۵مارچ ۱۹۴۷ء بروز ہفتہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ،گویا قیام پاکستان سے صرف چھ ماہ قبل۔ والد صاحب ملازمت کی وجہ سے راجستھان کے شہر گنگا نگر میں بہ سلسہ ملازمت رہا کرتے تھے، جب کہ دیگراہل خانہ بیکانیر میں رہتے تھے۔ والدہ اپنے والدین کے ساتھ ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں رہائش پزیر تھیں۔ بارات گنگا نگر سے فرید کوٹ گئی تھی۔ دونوں خاندانوں میں پہلے سے رشتہ داریاں تھیں۔ شادی کے وقت میری والدہ کے والد صاحب (امید حسن سبزواری)یعنی میرے نانا شدید بیمار تھے ، ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی ان کی زندگی میں اپنے گھر کی ہوجائے۔ خاندان کے بعض بزرگوں نے یہ رشتہ بہت ہی عجلت میں طے کرایا ، کہتے ہیں کہ کوئی پل انسان کی دعا کی قبولیت کا بھی ہو تا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کر لی تھی چنانچہ رشتہ طے ہو گیا ، دوسری جانب بیماری شدید صورت اختیار کر تی گئی اسی دوران شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی ۔ بارات آئی آپ بستر علالت پر تھے بیٹی کو اُسی حالت میں رخصت کر کے اﷲ کا شکر ادا کیا ، حالت بگڑتی گئی آپ نے رات بھر اپنی نوبیاہتا بیٹی کی واپسی کا انتظار کیا ، آنکھیں دروازے پر لگی تھیں ، صبح ہو ئی ، ٹرین نے دوپہر کو آنا تھا ،باغباں کو اپنی اس کلی کا شدت سے انتظار تھا جو عنقریب پھو ل بننے جارہی تھی لیکن دوسری جانب درخت جھک رہا تھا، پتے مر جھا رہے تھے ، ٹہنیاں زرد ہو رہی تھیں ، ہواؤ ں کا رنگ بدل رہا تھا ، وقت کا صیاد اپنا تیر چلانے کو تیار بیٹھا تھا ، مہلت ختم ہو نے کو تھی،یکا یک کلی نمو دار ہو ئی اور منتظر باپ کے سینے سے جالگی ، باغباں کے مہر بان ہا تھوں نے اپنی کلی کو سینے سے لگا یا، منتظر آنکھوں کو ٹھنڈا کیا لیکن وہ ہاتھ وہیں جم کر رہ گئے وہ آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں سینے کی ٹھنڈک کو پہچان کر مطمئن سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں ، دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کی اس خوا ہش کی تکمیل بھی کر دی جس کی آرزو انہو ں نے بیماری کی حالت میں کی تھی، کلمہ طیبہ پڑھا اور اسی حالت میں جب کہ آپ کی بیٹی سرخ جو ڑے میں ملبوس اپنے منتظر باپ کے سینے سے لگی اپنے سینے کو ٹھنڈا کررہی تھی باغباں نے چپکے سے آنکھ موند لی اور آپ کی روح اس دنیا ئے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پرواز کر گئی ۔

میرے والدین کی شادی کو چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہو گیا ۔ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستانی علاقوں میں آنے لگے۔میرے والد صاحب ہندوستان کے شہرگنگا نگر کی عدالت میں پیشکار تھے انہوں نے وہاں سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا، ان کے والد اور بہن بھائیوں نے بعد میں ہجرت کی اور کراچی منتقل ہوئے۔ والدہ اپنے میکے میں تھیں انہوں نے اپنے بڑے بھائی شیخ محبوب احمد سبزواری کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی پنجاب کی سرزمین کواپنا مسکن بنا یا ۔میرے وجود کا خمیر ہندوستان کی سرزمین گنگا نگر یابیکا نیر (راجستھان) میں معرض وجود میں آچکا تھا، اسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا، ’لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان ‘کی صدائیں میرے کانوں میں برائے راست تو نہیں البتہ اپنی ماں کے کانوں سے ہوتی ہوئی مجھ تک ضرور پہنچیں۔اس کا احساس میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں، کیوں کہ میں اس وقت شکم مادر میں رہتے ہوئے ہجرت کی بہاروں کا لطف لے رہا تھا۔مجھے ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی قیام پاکستان کے سات ماہ بعد اس دنیا میں آنا تھا اور آیا۔

امی بتا یا کرتی تھیں کہ ہمارا زمانہ شرم و حیاکا تھا،زنِ حاملہ اپنے والد ،بھائیوں اور اپنے بزرگوں کے سامنے آتے ہوئے شرم محسوس کرتی تھیں۔چنانچہ وہ یعنی میری امی ان دنوں اپنے بھائیوں کے سامنے نہیں آتی تھیں ، جب وہ گھر میں ہوتے تو وہ کسی بھی کمرہ میں ہی چھپی رہا کرتیں۔وقت گزرتا گیا، میرے دنیا میں آمد کے دن قریب آرہے تھے ،میرے والد صاحب کراچی میں ملازم ہوچکے تھے، ایک بڑے کنبے کی کفالت ان کے کاندھوں پر تھی۔ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت تھی ، قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں والد صاحب نے کراچی میں محنت مزدوری بھی کی، پھر انہیں ملازمت مل گئی۔ وہ میری پیدائش پر والدہ کے پاس بھی نہ جاسکے، یقینا مالی مشکلات رہی ہوں گی۔ میلسی شہر اس وقت ضلع ملتان کی تحصیل ہوا کرتا تھا ،چھوٹا لیکن صاف ستھرا، اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’’میلسی شہر بڑا گلزار جس میں بجلی ہے نہ تار‘‘،یہ وہ دور تھا جب عام طور پر بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوا کرتی تھی، بلکہ یہ رواج بہت عرصہ تک قائم رہا، اسپتال نہ ہونے کے برابر تھے، محلوں میں بعض عورتیں بچوں کی پیدائش میں معاون کا کردار ادا کیا کرتیں تھیں، اُنہیں عرف عام میں ’دائی‘ کہا جاتا تھا۔ ’دائی‘ کوئی کوالیفائیڈ نرس نہیں ہوتی تھی۔وہ تو اپنے تجربے کی بنیاد پر زن ِحاملہ کا سہارا ہوا کرتی تھی۔ میری امی اور میں بھی ایک دائی جس کا نام’ اَنسری‘تھاکے رحم کرم پر تھے۔ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔امی نے بتایا تھا کہ نہیں معلوم کیا وجوہات ہوئیں پید ائش کے وقت دائی نے بتا یا کہ نومولاد کو الٹا پیدا ہونا ہے، جس کی وجہ سے پیدائش کے وقت مشکلات پیدا ہو گئیں، امی نے بتا یا تھا کہ اس وقت دائی کو یہ کہتے سنا گیا کہ زچہ و بچہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی کو خطرہ لائق ہو سکتا ہے۔اس سے قبل میری نانی کا انتقال بھی بچے کی پیدائش پر ہوا تھا،میری والدہ کے لیے یہ لمحات اس حوالہ سے بھی پریشان کن رہے ہونگے۔ گویا میری پیدائش کے وقت میری امی کی زندگی خطرہ میں تھی اور میری جان کو بھی خطرہ تھا۔خوشی کے یہ لمحات وقتی طور پر افسردگی اور پریشانی میں بدل گئے، لوگ پریشان تھے، دو زندگیوں کے لیے دعا ئیں بھی کر رہے تھے ۔لیکن زندگی اور موت تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ اﷲ نے دونوں زندگیوں کو سلامت رکھا۔ ہمارے معاشرہ میں لڑکے کی پیدائش کو زیادہ خوش کن سمجھا جاتا ہے، چنانچہ میری آمد پر میلسی اور کراچی میں خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے ۔ کراچی میں میرے دادا اپنے پہلے پوتے کی آمد پر پھولے نہ سماتے تھے،میرا نام بھی انہوں نے ہی تجویز کیا تھا، میری پھوپیاں اور میرے چچا اپنے بھتیجے کی آمد پر بے انتہا خوش تھے، میری چھوٹی خالہ جن کی اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی جو بعد میں میری خوش دامن بھی ہوئیں میری آمد پر کچھ زیادہ ہی خوش تھیں، میرے تینوں ماموؤں (محبوب احمد، مطلوب احمد اور محمد احمد ) کی
خوشی دیدنی تھی، انہوں نے ڈھیروں لڈو اس موقع پر تقسیم کیے۔کراچی میں بھی خوب خوب میٹھائی تقسیم کی گئی۔

میری امی نے مشرقی پنجاب کے ایک دیہات میں آنکھ کھولی تھی، وہیں پلی بڑھی تھیں، بچپن اور جوانی دیہات کے ماحول میں گزرا تھا جہاں ان کے والد اور ایک بھائی پٹواری تھے،بعد میں ان کے بھائی( مطلوب احمد) بھی پاکستان میں پٹواری ہوئے۔ دیہا ت کے رہنے والے بخوبی واقف ہیں کہ پٹواریوں کا رہن سہن کس قسم کا ہوتا ہے، گندم ،چاول ،گھی ،شکرسال بھر کا گھر میں جمع، گائیں، بھینس ، بکری اور دیگر جانور ، ساتھ ہی کام کرنے والے نو کرچاکر، الغرض صحت مند آب و ہوا کے ساتھ ساتھ خالص غذا، آج کے دیہاتوں میں بھی یہ سب کچھ میسر ہے ۔فرق یہ ہوا کہ انِ دیہاتوں نے مختصر شہر کا روپ دھار لیا ہے۔جہاں بجلی، ٹیلی ویژن، فرج اور ائر کنڈیشن کی سہولیات میسر آگئیں ہیں۔

ہمارے خاندان کے بزرگ فقہ حنفی سے تعلق رکھتے تھے، میر ے پردادا شیخ محمد ابرہیم آزادؔپیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے، جج و چیف جج بھی رہے، ساتھ ہی شاعری سے بھی شغف تھا۔نذر و نیاز ، محفل میلاد اوردرود و سلام کے قائل تھے ۔ میرے والد صاحب بھی انہی نظریات پر عمل پیرا رہے۔ہم نے انہیں جوانی میں بھی نماز سے غافل نہیں دیکھا، ہمارے گھر کا ماحول مذہبی تھا، گھر میں نعتِ رسول مقبولﷺ اورمیلاد کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ہر اسلامی مہینے میں اس کے تقدس کی مناسبت سے پروگراموں کااہتمام کیا جاتا جس میں ہمارے قریبی عزیز رشتہ داربھر پور شرکت کیا کرتے۔ محرم الحرام میں عاشورہ کے دن گھر میں حلیم کی دیگ پکا کرتی،ہمارے قریبی عزیز شروع شب ہمارے گھر آجایا کرتے ، رات بھر رَت جگا رہتا، صبح ہوتے ہی حلیم کی تقسیم شروع ہوجاتی، گھر میں کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ ہماری امی ذوق وشوق سے ہر سال اس کا اہتمام کیا کرتیں، ماہ ربیع الا ول میں گھر کا ماحول زیادہ مذہبی ہوا کرتا تھا، محفل میلاد کا انعقادہوا کرتا۔ گیارھویں شریف کو نیاز کی دیگ ، ماہِ رجب کی ۲۲ تاریخ کو گھر میں کونڈوں کی ٹکیاں تیار ہوتیں، اس رات بھی ہمارے قریبی عزیز رشتہ دار شروع رات سے ہمارے گھر آجاتے ، رات بھر جشن کا سما ں ہوا کرتاتھا ،دن بھر مہمانوں کی آمد جاری رہتی تھی۔ماہ ِ شعبان کی پندرھویں شب خصو صی عبادت کا اہتمام ہوا کرتا، امی اس دن سوجی اور چنے کی دال کا حلوہ پکایا کرتیں اور رات میں ہمیں قبرستان جانے کی تاکید کیا کرتیں، شروع میں ہم شیر شاہ کے قبرستان جایا کرتے تھے جہاں پر میرے دادا اور دیگر احباب مدفن ہیں، جب ہم دستگیر منتقل ہوگئے تو یٰسین آباد کے قبرستان جانا ہمارا معمول بن گیا، اب میرے ابا اورامی اِسی قبرستان میں مدفن ہیں۔ ماہِ رمضان کا پورا مہینہ موسم بہار کی طرح ہوا کرتا تھا۔ عبادت کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا خصو صی اہتمام ہوتا۔پاپاکھانے کے شوقین تھے، عام دنوں میں بھی اور ماہ رمضان میں خاص طور پر دسترخوان بے شمار قسم کے کھانوں کی اشیاء سے بھرا ہوا ہوتا۔ ہم نے اپنی امی کو ماہِ رمضان میں دن بھر مصروف دیکھا، کبھی ان کی زبان پر کسی قسم کا شکوہ نہیں آیا۔گھر میں جو تقریبات ہوا کرتیں تھیں ، امی ان تمام کا اہتمام بہت ذوق و شوق سے کیا کرتی تھیں، وقت سے پہلے ہی تمام چیزیں بازار سے خرید کرلاتیں، جو عزیز ورشتہ دار ہمارے گھر کے نزدیک رہا کرتے تھے انہیں متعلقہ شب آنے کی دعوت دیا کرتیں۔انہیں اپنے گھر دیکھ کر خوش ہوتیں، ان کی خاطر ْتَواضُع کیا کرتیں۔ پاپا کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ کم ہو ا پھر ختم ہی ہو گیا۔

اِمی مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔روز مرہ آنے والے مہمانوں کی خوش دلی سے خاطر مدارات کیا کرتیں۔اگر کوئی کھانے کے وقت گھر آجاتا تو پاپا کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ وہ کھانا کھائے بغیر ہر گز نہ جائے، ہماری امی نے پاپا کی اس خواہش پر ہمیشہ خوش دلی سے عمل کیا۔ہمارے گھر کا دستر خوان ہمیشہ دراز رہا۔ ہمار ے گھر کا دستر خوان ہمیشہ فرشی ہوا کرتا تھا، ہم نے ہمیشہ نیچے فرش پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ طویل عرصہ رہنے والے مہمان بھی ہمارے گھر میں اکثر رہے۔ در اصل ہمارے ابا جان انتہائی نرم دل،مہمان نوازاور کسی کی دکھ تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے، جب بھی کسی رشتہ دار نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو وہ فوراً اپنی خدمات حاضر کر دیا کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ شخص ہمارے ہاں مستقل مہمان ہوجایا کرتا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں ۔ حتیٰ کہ پوری پوری فیمیلی کو ہمارے ابا جان اور امی نے اپنے گھر میں پناہ دی وہ کافی عرصہ تک ہمارے گھر میں رہتے رہے۔ گویا ہمارا گھر مہمان سرائے بھی تھا، ہم میں سے کسی کی یہ مجال نہیں تھی کہ ان کے فیصلہ پر اُف بھی کرتے بلکہ وہ وقت بہت ہی ہنسی خوشی گزرتا۔ امی ہما وقت مستقل مہمانوں کے ساتھ خوش دلی سے پیش آیا کرتیں۔

میں نے اپنی امی کی زبانی سنا کہ ابھی وہ چند برس کی ہی تھیں کہ ان کی والدہ انتقال کرگئیں، ان کے والد صاحب کیونکہ پٹواری تھے اس وجہ سے گھر میں کسی قسم کی مالی پریشانی نہیں تھی ، بڑی بہن کی شادی ہوچکی تھی، ایک بہن ان سے بھی چھوٹی تھی کوئی دو سال کی ، ان دونوں بہنوں کی پرورش ان کے والد اور بڑے بھائیوں نے کی۔امی کی آنکھیں قدرِ چھوٹی تھیں، یہ بچپن میں یہ بہت خراب رہی تھیں،بیضوی مائل نکھرا نکھرا چہرہ ، قد مناسب،رنگت دُھلی ہوئی گندم جیسی،ناک ستواں، لمبے ہاتھ ،مخروطی انگلیاں، گال پر دائیں جانب نمایاں تلِ، سر پر ہمیشہ دوپٹہ کا پلو، پر خلوص ملنسار، فراخ دلانہ لب و لہجہ،پاکیزہ خیالات کی مالک دیہات کے ماحول میں پروان چڑھنے والی، جس کی ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا ہو، لکھنا پڑھنا کیسے سیکھ سکتی تھی، یہی ہوا اِمی لکھ پڑھ نہ سکیں۔شادی بھی جلد ہوگئی، لیکن قربان جاؤں اس نیک صفت کے کہ ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ہماری ماں پڑھی لکھی نہیں،الحمداﷲ ہم سب نے تعلیم حاصل کی، نماز بھی پڑھا کرتیں، ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کیا کرتی تھیں۔

ہم نے کبھی اِمی اورابا کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا، حتیٰ کہ دونوں کو کبھی اونچی آواز سے بولتے نہیں سنا۔ اس میں ہمارے پاپا کا بھی کمال تھا۔ وہ انتہائی صلح جو قسم کے انسان تھے، امی نے کبھی پاپا کو ان کا نام لے کر مخاطب نہیں کیا، کہا کرتی تھیں کہ ہمارے ہاں شوہر کا نام لینا معیوب ہے ، وہ اکثرپاپا کو سنئے، سنتے ہیں یا تمہارے پاپا کی یہ بات ، تمہارے بھائی صاحب کی وہ بات وغیر ہ سے پاپا کے بارے میں بات کیا کرتیں تھیں۔پان دان ہمارے گھر کی روایت تھی، پاپااور امی دونوں ہی پان کھا یا کرتے، پاپا اپنے ساتھ پان کی ڈبیا اور بٹوا رکھا کرتے تھے، امی کی دیگر ذمہ داریوں میں پان بنا کر دینا بھی تھا، آخر میں امی نے پان کھانا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پاپا شروع میں سیگریٹ بھی پیا کرتے تھے، جب پان کھا نا شروع کیا تو سیگریٹ پینا چھوڑ دی۔ میرے سب ہی بہن بھائیوں نے اپنے امی ابا کی اس روایت کو جاری رکھا ہوا ہے لیکن میَں ان دونوں ہی چیزوں یعنی پان اور سیگریٹ سے بچاہواہوں۔

اِمی بہت با ہمت اور قوت برداشت کی ما لک تھیں، سارا سارا دن گھر کے کاموں میں لگیں رہتیں، زبان پرکبھی حرفِ شکایت نہیں آیا۔کراچی میں رہائش کی ابتدا توکراچی کی قدیم بستی کھڈا مارکیٹ سے ہوئی ، ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے کئی خاندان ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے، ایک کمرہ میں کوئی چار خاندان مقیم تھے،یہاں بھی امی نے استقامت سے وقت گزارا، حالانکہ وہ مشرقی پنجاب کے ایک دیہات کے کشادہ گھر میں رہنے کی عادی تھیں، اس جگہ قیام مختصر رہا ، مہاجرین کی ایک آبادی ’’بہار کالونی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو وہا ں ایک پلاٹ لے لیا گیا اور مکان بھی بن گیا، سکون سے زندگی بسر ہونے لگی۔اس وقت ہم دو بہن بھائی تھے ، دو پھوپھیا ں اور دو چچا تھے ،اس طرح ہمارا گھراناآٹھ افراد پر مشتمل تھا، بعد ازآں دونوں پھوپیوں کی شادی ہوگئی، ہم بہن بھائیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، ہم دو سے بڑھ کر سات ہوگئے۔چھوٹی بستیوں میں رہنے والے مکینوں میں باہم رواداری، پیار و محبت زیادہ ہوتا ہے۔ میرا بچپن اور جوانی اسی بستی میں گزرا، حتیٰ کہ شادی کے بندھن میں بھی اسی جگہ بندھا ، ہماری چھوٹی خالہ حیدرآباد سندھ میں رہا کرتی تھیں، ۱۹۵۱ء میں میری چھوٹی خالہ ذکیہ خاتون کے ہاں پہلی لڑکی کی ولادت ہوئی، نام ’شہناز‘ رکھا گیا، میرے ابا جان نے فرط مسرت اور جذبات میں آکر اُسی وقت اعلان کر دیا کہ ’یہ لڑکی میری ہوئی‘، کہتے ہیں زبان سے نکلی کوئی خواہش اﷲ تعالیٰ سن لیتا ہے، شاید یہ بھی قبولیت کی گھڑی تھی،اﷲ نے میرے اباکی یہ دعا قبول کر لی،فرشتوں نے پکے رجسٹر میں ہمارے نام لکھ کر مہر ثبت کر دی ، میَں نے بھی بڑے ہوکر اپنے والدین کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کیا،۲۸ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میَں اور شہناز شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ چوتھی دیہائی آدھی گزر چکی ہے بندھن قائم ہے، کب تک قائم رہتا ہے ، یہ خدا کو معلوم، مختلف جہات سے مکمل شریک سفرہیں ،مزاج شناس، ہم نوا اور ہم قدم بھی، ہم مکہ، مدینہ، جدہ ، فیفا (جیذان) کے پھیرے ساتھ ساتھ کرچکے ہیں۔اﷲ نے دوبیٹوں عدیل اور نبیل ، ایک بیٹی فاھینہ سے نوازا، پوتا صائم عدیل، نواسہ ارحم اور نواسی نہا ہماری کل کائینات ہے۔

جب ہم سب بھائی بڑے ہوگئے ، کسی حد تک مالی طور پرآسودہ حال بھی، باہمی مشورہ سے کراچی کے کسی اچھے علاقے میں منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کی گئی،اس منصوبہ پر عمل کی صورت ایک ہی تھی کہ اس مکان کو جس میں ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے رہ رہے تھے، جسے پاپا نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے رفتہ رفتہ تعمیر کیا تھا سیل آوٹ کر دیا جائے۔پاپا کے لیے یہ ایک تکلیف دہ فیصلہ تھا۔ امی بھی پا پا کے ساتھ تھیں، شروع میں وہ تیار نہ ہوئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی اولاد کی یہی خواہش ہے تو وہ اپنی اولاد کی خواہش کے آگے دست بردار ہوگئے۔انہیں آمادہ کرنے میں ہماری امی نے اہم کردارادا کیا ، مغیث چچا بھی پاپا کو ذہنی طور پر آمادہ کرنے میں پیش پیش تھے ۔ نومبر۱۹۸۶ء میں ہم دستگیر سوسائیٹی کی آبادی آصف نگر میں منتقل ہوگئے۔ یہ ۱۲۰ گز پر بنا ہوا مکان تھا ، گنجائش کم تھی ، مکین زیادہ تھے ، لیکن اس وقت دلوں میں کشادگی تھی ، رفتہ رفتہ مکان میں بھی بڑھاوا آتا گیا یعنی ۱۲۰ گز کا مکان جو زمینی منزل پر مشتمل تھا گرؤنڈ پلس ٹو ہوگیا ۔ستمبر ۱۹۹۷ء میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے صرف ہماری اِمی کوہی نہیں بلکہ ان کی تمام اولاد کو ہلا کر رکھ دیا۔وہ ہمارے والد صاحب کا صدمۂ ارتحال تھا۔پاپاانجائینا کے بھی مریض تھے، شوگر بھی تھی لیکن انہیں پیشاب میں تکلیف کے باعث ابن سینا اسپتال، گلشن اقبال میں داخل کرایاگیا تھا جہاں پر ان کا پراسٹینڈ گلینڈکا آپریشن ہوا، نہیں معلوم کیا پیچیدگی ہوئی دوسرے دن ہی طبیعت بگڑگئی، ۵ستمبر ، بروز جمعہ ،صبح صادق کے وقت اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔ انااﷲو انا علیہ راجیعون،باغباں نے اپنے گلشن کے ایک ایک پودے کی دل و جان سے آبیاری کی تھی، اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا، دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھا تھا، اس کی محنت کا ثمر تھا کہ باغباں کا لگا یا ہوا ہرہر پودہ تناور درخت بن چکا تھا،ہر درخت چھاؤں دینے کے قابل ہو چکا تھا۔ اب وقت آگیا تھا کہ باغباں کو اپنے درختوں کی چھاؤں سے راحت میسر آتی، وہ سکون و آرام سے زندگی بسر کرتا، لیکن مالکِ کا ئنات نے قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔باغباں کا کام پورا ہوچکا تھا، اب اُسے اُس دنیا میں جانا تھا جس کی تیاری بھی اس نے کر لی تھی۔ اس نے خاموشی سے اﷲ کے حکم کو لبیک کہا اور اپنے ہرے بھرے گلشن کو الودع کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی دنیا وہاں بسالی جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔پرنم آنکھوں، دکھے دل کے ساتھ پاپا کے بیٹوں، پوتوں، نواسوں اور دیگر احباب نے انہیں آخری آرام گاہ پہنچا یا،ہم بھائیوں نے لرزتے ہاتھوں پاپا کے جسد خاکی کو لحد میں اتارا اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہا۔اس حادثہ نے اِمی کو سب سے زیادہ متاثر کیا، ہم سب بہن بھائیوں کے لیے پاپا کی جدائی سخت تکلیف دہ تھی،اِمی نے اس صدمہ کو مشکل سے برداشت کیالیکن انہوں نے اس کمرہ کو جس میں وہ پاپا کے ساتھ سالوں رہی تھیں آخری وقت تک نہیں چھوڑا،حالانکہ وہ پاپا کے چلے جانے کے بعد ۱۲ سال اس دنیا میں رہیں، انہیں بھی اُسی جگہ ان کی بیٹیوں نے غسل دیا جہاں پر پاپا کو ہم سب بھائیوں نے اپنے ہاتھوں غسل دیا تھا۔

اِمی نے اپنی زندگی میں طویل وقت بیماری میں گزارا، ۱۹۶۹ء کی بات ہے امی کو کھانسی کی تکلیف شروع ہوئی، کافی علاج کرایا لیکن کھانسی میں اضافہ ہی ہوتا رہا، ڈاکٹر عبد لعزیز بلوانی جو ہمارا فیمیلی معالج تھا کا علا ج ہوا کرتا تھا، ڈاکٹر بلوانی نے مشورہ دیا کہ کسی کنسلٹنٹ کو دکھا یا جائے، کچھ دن بعد ڈاکٹر بلوانی اپنے ہمراہ ڈاکٹر افتخار راٹھور کو ہمارے گھر لے آئے، ڈاکٹر افتخار راٹھور چیسٹ اسپیشلسٹ تھے، انہوں نے چیک کیا اور بتا یا کہ امی کے پھیپڑوں میں پانی بھر گیا ہے ، اُسے سرنج کے ذریعہ نکالنا ہوگا، دوائیں لکھ کر دے دیں اور وقت دے دیا کلینک پر آنے کا، ڈاکٹر افتخار راٹھور کی کلینک اَنکل سریا اسپتال میں تھی، ہم مقررہ وقت پر پہنچ گئے، ڈاکٹرصاحب نے امی کو بیڈ پربٹھایا اور کمر کی جانب سے پسلیوں کے درمیان سے سرنج داخل کی اور خاصا پانی نکالا، اس عمل سے امی کی طبیعت تو بہتر ہوگئی لیکن وہ مستقل طور پر تب دق کی مریضہ بن گئیں، اس زمانے میں اس مرض کا علاج بہت طویل ہوا کرتا تھا، روزانا انجیکشن لگنا ہوتا تھا، اوریہ انجیکشن پینسلین کے ہوا کرتے تھے مہینوں لگنا تھے، شروع شروع میں تو کمپاؤنڈر سے انجیکشن لگوائے گئے، لیکن مشکلات پیش آنے لگیں ، اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ میَں نے انجیکشن لگا نا سیکھا اور مہینوں یہ ذمہ داری انجام دیتا رہا۔ ان کی طبیعت تو بہتر ہوگئی لیکن سردیوں میں اکثر کھانسی اور سانس کی تکلیف ہوجایا کرتی تھی۔وہ اس بیماری سے طویل عرصہ نبرد آزماں ر ہیں ، ۱۹۹۰ء میں ان کی آواز اچانک بند ہوگئی،تکلیف کوئی نہیں تھی صرف آواز بند ہوگئی تھی، علاج ہو ا ، کچھ افاقہ بھی ہوالیکن آواز پوری طرح بحال نہیں ہوئی، ابتداء میں تو بہت مشکل ہوئی لیکن رفتہ رفتہ آوازکچھ بہتر ہوگئی تھی ۔گلے کی یہ تکلیف ہی اُس بیماری کا شاخسانہ تھی جو انہیں ۲۰۰۹ء میں ہوئی اور پھر انہیں اپنے ساتھ ہی لے گئی۔

جِنّاَت کی موجودگی سے ا نکار نہیں کیا جا سکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے کلام مجید میں انسان و جِن کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے جِنّاَت اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی، ایسی مثالیں عام ملتی ہیں۔ہم نے اپنی امی کی زبانی یہ بات کئی بار سنی کہ وہ جب چھو ٹی سی تھیں ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا تو اکثر ایک سانپ ان سے کھیلا کرتا تھا، وہ ان کے گلے میں کبھی ایک جانب کبھی دوسری جانب گھومتا رہتا اور وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے پکڑتی اور کھیلا کرتی تھیں ، جب کوئی ان کے پاس آجاتا تو وہ غائب ہو جاتا، ان کے والدین نے کسی عامل کے ذریعے اس سانپ کو جو دراصل ’جِن ‘تھا چلتا کیا۔ہم بہن بھائی اکثر اپنی امی کو اس واقعہ کی یاد دلا کر مذاق کیا کرتے تھے۔ ۱۹۷۰ ء کی بات ہے میری اِمی کو بخار آگیا، معمولی سی بات تھی، علاج ہوا اتر گیا لیکن کھانسی نہ گئی، ایسا بھی اکثر ہوتا ہے، کھانسی کی دوا استعمال کرتی ر ہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو تا رہا یہاں تک کہ آواز سے یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے کوئی مرد کھانس رہا ہے ، سب کو تشویش ہوئی،ہمارے خاندان میں سید امام صاحب جِنّاَت کا اتار کیا کرتے تھے جب انہیں امی کی اس کیفیت کا علم ہوا تو انہوں نے بتا یا کہ اِمی پر کسی جِنّ کا اثر ہے ، انہوں نے اس کا اتار شروع کردیا، کچھ تعویذ ، پڑھاہوا پانی اور ساتھ ہی ہمیں پڑھنے کے لیے کچھ بتا یا، انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ ان پر (ہماری امی پر) کسی مرد جن کا اثر ہے ، ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ کچھ نہیں کرے گا ، اسے جانے میں کچھ وقت لگے گا ۔ سارے بہن بھائی چھوٹے تھے ، خوف زدہ ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا، ان کی کھانسی اسی طرح جاری رہی ، کھانستے وقت مرد کی آواز نمایاں ہوا کرتی لیکن کوئی اور بات کبھی نہیں ہوئی۔ امام صاحب کا عمل جاری رہا انہوں نے نے بتا یا کہ وہ رات میں پڑھائی بھی کرتے ہیں۔چند روز گزرنے کے بعد ایک دن امی پر کھانسی کا شدیددورہ پڑا لیکن اس دورے کے باوجود ان میں وہ نقاہت یا کمزوری دیکھنے میں نہیں آئی۔ بیٹھے بیٹھے کھانس رہی تھیں البتہ اس دن انہوں نے مرد کی آواز میں بولنا شروع کیاچند جملے ہی ذہن میں ہیں ، مرد کی آواز میں کہاکہ ’’میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا‘‘،’’ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘، ’’تم لوگ مت ڈرو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ وغیر وغیرہ، میں اِمی کے پاس ہی تھا ، میری کسی بہن سے چائے کے لیے کہا کہ’ میں چائے پیوں گا‘، چائے بنادی گئی، تھوڑی سے چائے پی ، آدھا کپ چائے باقی تھی، مجھے مخاطب کیا ، کہنے لگیں !تو میرا بیٹا ہے ، میں نے کہا کہ ہاں ہوں، گویا ہوئیں! میرا ایک کام کرے گا میں نے کہا کرونگا ، پھر کہا کہ یہ کپ میں جو چائے ہے اسے دروازے کے باہرپھینکدے، بظاہر یہ عام سی بات تھی ، لیکن اس وقت کچھ عجیب سا ڈر اور خوف کی کیفیت طاری تھی، میں نے کہا کہ اسے میز پر رکھ دیں ،پھینکنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن مصر ہوئیں کہ میں اسے باہرپھینک دوں ، میں ان کے اصرار پر سمجھ گیا کہ بات کچھ اور ہے، میں نے ڈرتے ڈرتے انکار کردیا ، کھانسی کے دورے میں بے انتہا اضافہ ہوا حتیٰ کہ رفتہ رفتہ کھانسی بند ہوگئی اور ان کی اس کیفیت میں بھی تبدیلی آگئی یعنی وہ اپنی آواز میں باتیں کرنے لگیں، امام صاحب کو اس کیفیت سے آگاہ کیا گیا انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ چائے باہر دروازے پر نہیں پھینکی، ایسا کرنے کی صورت میں’جن‘ ان کے اوپر سے تو چلا جاتا لیکن باہر دروازے پر اپنا بسیرا جما لیتا۔اس طرح امام صاحب نے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلائی اور اِمی ٹھیک ہوگئیں۔

مارچ ۲۰۰۹ء میں گلے کی تکلیف کی ابتداء ہوئی ،کھانے پینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی، علاج مسلسل ہوتا رہا لیکن تکلیف میں اضافہ ہی ہو تاگیا، نوبت اس حد تک پہنچ گئی کہ پانی بھی مشکل سے پیا جانے لگا۔ کہا کرتی تھیں کہ مجھے کینسر سے ڈر لگتا ہے، انہیں یہ نہیں بتا یاگیا تھاکہ انہیں گلے کی نالی کا کینسر(Cancer of Oesophagus) ہو گیا ہے لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا ۔رمضان المبارک قریب آرہے تھے، ادھر ان کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ صحت مند جسم آہستہ آہستہ کمزور ی کی جانب مائل تھا۔امی کو اسپتال جانے سے بھی خوف آتا تھا۔ہم نے محسوس کیا کہ اگر اسپتال میں داخل کرادیا گیا تو ان کے لیے بھی تکلیف کا باعث ہوگا اور ہم سب بھی پریشان ہوں گے، ان کی تکلیف کا علاج تو اب یہ رہ گیا تھا کہ غذا کے لیے نالی پاس کرادی جائے، اب انہیں آکسیجن کے بغیر سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آکسیجن سیلنڈر بدلنے کے دوران ان کی حالت بگڑ جاتی، بلڈ پریشر ایک دم کبھی ہائی اور کبھی ایک دم کم ہوجاتا۔ ارشد ندیم جو کوالیفائیڈمیڈیکل کمپاؤنڈربھی ہے امی کے انجیکشن اور ڈرپ لگانے کی ذمہ داری لیے ہوئے تھے، میرا چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل جو عباسی شہید اسپتال میں تھا اب اسپتال سے اپنی دادی کے پاس ہی آجاتا،ہم سب زیادہ وقت امی کے پاس ہی گزارا کرتے ، ان کا کمرہ اسپتال کا کمرہ ہی بن گیا تھا، اسپتال کا ایک بیڈ بھی ایک پڑوسی سے مل گیا تھا، اس سے اور زیادہ آسانی ہوگئی تھی،رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، امی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی، ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئی تھیں۔چہرہ سے نقاہت اور کمزوری صاف عیاں ہونے لگی تھی، ستمبر کا مہینہ شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے، کہا کرتی تھیں کہ جمعرات مجھ پر بھاری ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے پاپا کی اور میری فاتحہ ایک ساتھ ہی کرا دیا کرنا، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاپا کا انتقال۵ ستمبر کو ہوا تھا، جیسے جیسے ۵ ستمبر نذدیک آرہی تھی ان کی حالت بگڑتی جارہی تھی،جمعرات ۱۲ رمضان المبا رک(۳ ستمبر ۲۰۰۹ء)صبح سے ہی حالت بگڑنا شروع ہو گئی تھی،دن میں کئی بار حالت بگڑی، صبح کے وقت ندیم اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر سید جمال احسن کوجو میرے ایک مرحوم دوست پروفیسر سید ریاض احسن کے بھائی ہیں کو گھر پر لائے ، انہوں نے بھی ناامیدی کا اظہار کیا، اسیِ دن ڈاکٹرانور سہیل بھی آئے ان کا خیال تھا کہ کیونکہ خوراک بالکل نہیں جارہی اس لیے غذا کی نالی پاس کردی جائے، تاکے امی کچھ وقت اور ہمارے درمیان میں رہ سکیں، لیکن ہم سب نے اب یہ مناسب نہیں سمجھا کہ امی کو مزید اذیت میں مبتلا کیا جائے، ابھی ہم اس موضوع پر گفتگو کرہی رہے تھے کہ امی کی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی، ایسا محسوس ہوا کہ وہ جاچکی ہیں، ندیم ارشد کا خیال تھا کہ برین ڈیتھ ہوچکی ہے ، اس نے امی کے سینے کو کئی بار پمپ بھی کیا،لیکن ایسا نہیں تھا، انہوں نے پھر سے سنبھالا لیا،تھوڑی دیر میں اُٹھ کر بیٹھ گئیں ، ہم سب کو مسلسل خاموشی سے دیکھے جارہی تھیں، بالکل خاموش، شایداﷲ تعالیٰ نے انہیں ہم سب کو آخری بار دیکھنے کی مہلت دی تھی، اس وقت ہم سب کے اوسان خطا تھے ، ہم نے بھی ان سے کوئی بات نہیں کی، ہم بھی خاموشی سے انہیں دیکھتے رہے، وہ پھر سے کومہ میں چلی گئیں،میَں امی کے پیروں کی جانب کھڑا تھا، میرے برابر میری چھوٹی بہن روحی اورشاہیں کھڑی تھیں، ایک جانب پرویز ، تسلیم، ندیم تھے،امی کی چاروں بہویں شہناز،پروین، روبی اور اسماء بھی ایک جانب کھڑی تھیں، دائیں جانب ارشد ندیم اور بائیں جانب ڈاکٹر بنیل تھے جو امی کی کیفیت کے مطابق ارشد ندیم کو ہدایت دیتے اور ندیم اس پر عمل کررہے تھے،نبیل نے امی کے ہاتھ پر بلڈ پریشر کا آلہ لگا یا ہوا تھا ، ایک ہاتھ امی کی نبض پر تھا ، نبض ڈوبتی جارہی تھی، بلڈ پریشر انتہائی نیچے کی جانب تھا، مسجد سے عصر کی اذان شروع ہوئی،ہماری نظریں امی کے چہرہ پر تھیں، گھڑی میں چار بجکرپینتالیس منٹ ہوئے تھے ،یک لخت محسوس ہوا کہ ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا(جسے سرسراہٹ کہا جاسکتا ہے ) امی کے پیروں سے شروع ہوا جب منہ تک پہنچا تو ان کا چہرہ ساکت اور بے جان ہو چکا تھا، اس لمحے میرے منہ سے نکلا ’نبیل امی گئیں‘، اور بس ہم سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے ، ایسامحسو س ہوا کہ کوئی ہمارے بند ہاتھوں سے ہماری انمول متع چھین کر لے گیا ہو اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے ہوں، اِمی ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں اور ہم اپنے والد صاحب کے بعد اپنی ماں سے بھی محروم ہو گئے ۔ انا اﷲ و انا علیہ راجیعون پروردگا ِ عالم اِمی کو اپنے جوارِ ر حمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے ۔ آمین۔

بیماری اور کمزوری کے باعث چہرہ پر گوشت نام کو نہ تھا،گال پچک گئے تھے، کنپٹیوں میں گڑھے ہوگئے تھے، ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوکر رہ گی تھیں، جب آخری سفر پر لے جانے کا وقت قریب آیا تورنگت پیلی پڑگئی تھی، کنپٹیاں بھر گئیں تھیں، پچکے ہوئے گال بھر گئے تھے، چہرہ پر ورم آجانے سے چہرہ خوبصورت ہو گیا تھا۔ خاموشی اور سکون غالب تھا، محسوس ہورہا تھا کہ کوئی مسافر طویل مسافت طے کر کے تھک ہار کر سو گیا ہے، موت کی جلا چہرہ پرنمایاں تھی اور رنگت میں کچھ عجیب سی طلسمی پیلاہٹ اپنا حسن دکھا رہی تھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے حنوط کی ہوئی ممی ۔

امی کے تمام بچے بشمول پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں کراچی ہی میں تھے سوائے میری بیٹی فاھینہ کے جو کہ لاہور میں رہتی ہے، تدفین کیونکہ صبح ہونا تھی ، اسے بھی وقت مل گیا اور وہ بھی صبح تین بجے کی فلائٹ سے اپنے بچوں کے ساتھ دادی کے سفر آخرت میں شرکت کو پہنچ گئی۔ سفر آخر شروع ہوا، انہیں پاپا کے قریب ہی جگہ ملی،صابرہ ، شاکرہ ، عا لی حوصلہ کی زندگی کا سفر جو ۱۹۳۰ ء میں ہندوستان کی سرزمین سے شروع ہوا تھا ۳ ستمبر ۲۰۰۹ء کو ۷۹ سال بعد کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ ماں سے قلبی تعلق اور عقیدت کا رشتہ اس قدر مستحکم اور اٹوٹ ہے کہ ماں کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی یہ رشتہ اور تعلق ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے۔اس کی یادوں کے دئے ہر دم روشن رہتے ہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے اپنی ماں کی یاد میں اپنے دُکھ بھرے جذبات اور احساسات کو جس انداز اور اسلوب میں پیش کیا ’’ماں‘‘ کے لیے یہ میرے ہی نہیں بلکہ ہر دکھ بھرے دل کی دردمندانہ اور پر خلوص دعا ہے :
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا!
نُور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا !
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے !
(مصنف کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ ۲۰۱۲ء میں شامل)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438060 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More