پاکستان کو اس وقت ملکی تاریخ کی بدترین
لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو عوام شدید گرمی سے نڈھال ہیں تو دوسری
طرف بیس بیس،بائیس بائیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے کا روبارِحیات مفلوج
کررکھا ہے۔دنیا کے دیگر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ہمارے ہاں عوام
میں اپنے حقوق کا شعور بے حد کم ہے۔چنانچہ جمہوری حکومتوں پر شب خون مارا
جائے یا "بہترین انتقام "کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت "نافذ" کر دی جائے،
اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہو یا پٹرول کی قیمتیں آسمان
سے باتیں کر نے لگیں،CNG نایاب ہو جائے یاڈاکٹرز اپنا مقدس پیشہ سیاست بازی
کی نظر کر کے لوگوں کی جانوں سے کھیلنے لگیں۔۔۔۔عوام کی طرف سے اپنے حقوق
کی ان کھلی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں پر کوئی منظم احتجاج یا مظاہرہ کم ہی
نظر آتا ہے۔غریب عوام اپنی روزی روٹی کی فکر میں سرگرداں،اپنے حقوق کو پس
پشت ڈالے،ارباب اختیار کو کوسنے اور بددعائیں دے کر ہی اپنا احتجاج ریکارڈ
کروانے کے عادی ہیں۔مگر لوڈ شیڈنگ نے عوام کے صبر کا پیمانہ اس قدر لبریز
کر دیا ہے کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ہمارے ہاں پر
امن احتجاج کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے یہ احتجاج سرکاری و نجی املاک کے
نقصان ،توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ کی صورت میں دیکھنے میں آتا ہے۔گزشتہ چند
مہینوں سے آئے روز کسی نہ کسی شہر سے اسی قسم کا احتجاج دیکھنے کو مل رہا
ہے۔ توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ کو ذریعہ احتجاج بنانا بالکل درست عمل نہیں
مگر جب انہی عوام کے ووٹوں سے منتخب ارباب اختیار عوام کی اذیت و پریشانی
کا سدباب کرنے میں ناکام ہوں تو عوام اپنے غم و غصے اور بے بسی کا اظہار
اور کس طرح کریں؟
بجلی کی اس قدر شدید بندش نے تجارتی ،صنعتی اور گھریلو تقریباہر سطح پر
لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ آج کے دور میں جب تقریباً تمام کام بجلی
کے مرہون منت ہیں گھریلو کام کاج بجلی کی آنکھ مچولی کی نذرہو جاتے ہیں اور
افراد خانہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے دن کا بیشتر حصہ بجلی کا انتظار کر تے گزارتے
ہیں جو چند ہی لمحوں کے لیے آکر غائب ہو جاتی ہے۔ کسی دفتر،بنک یا ادارے
میں جائیں تو بجلی کی بندش کی وجہ سے چند منٹوں کے کام کے لیے کئی کئی
گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کبھی کمپیوٹر نہیں چل رہا اور کبھی انٹر نیٹ
ڈاون ہے۔ہسپتالوں میں دوران آپریشن لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کئی حادثات رونما
ہو چکے ہیں۔ تعلیمی ادارے ہوں،لائبریریاں یاسرکاری و نجی دفاتر۔۔۔ لوڈ
شیڈنگ نے کام کی رفتار کے ساتھ ساتھ افرادکی کارکردگی کو بھی بے حد متاثر
کر رکھا ہے۔افرادی قوت کی اس ناقص کارکردگی کی زد ہماری جاں بلب معیشت پر
پڑتی ہے۔ مذہبی فرائض کی ادائیگی بھی بجلی کی بندش کا شکار ہے۔ لوگ بجلی و
پانی کے بغیر نمازوں کی بروقت ادائیگی سے قاصر نظر آتے ہیں۔ مسجدوں میں
اعلان کیا جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مسجد میں پانی دستیاب نہیں لہذا
نمازی گھروں سے وضو کر کے آئیں اور پینے کا پانی بھی ہمرا ہ لائیں ۔یہ تمام
صورت حال انتہائی اذیت ناک ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز بھی ہے۔
ایک طرف زراعت متاثر ہے تو دوسری طرف کارخانے بند ہو رہے ہیں۔صنعتی یونٹس
اور فیکٹریاں پاکستان سے دوسرے ممالک میں منتقل کی جا رہی ہیں ۔ہمارے ہاں
کے سرمایہ کار بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ملک میں اپنے کاروبار منتقل کر رہے
ہیں۔جہاں انہیں دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ جیسے عذاب کا بھی
سامنا نہیں۔اس صورتحال سے ملک کا امیج خارجی سطح پر خراب ہو رہا ہے اور غیر
ملکی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں سرمایہ
کاری کرنا گھاٹے کا سودا ہے ۔جبکہ داخلی سطح پر ان فیکٹریوں اور صنعتی
یونٹس کے بند ہونے سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہور ہے ہیں۔یہ بیروزگاری غربت
کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی مزید اضافے کا باعث ہے۔
توانائی کا یہ بحران یکایک سامنے نہیں آیا۔2007 سے بھی پہلے ماہرین بار بار
اس بحران کی نشاند ہی کرتے رہے ہیں۔ مگر اس جانب ارباب اختیار کیجانب سے
کوئی توجہ مبذول نہ کی گئی اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبے نہ بنائے
گئے۔توانائی کے متبادل ذرائع استعمال میں لانے کے حوالے سے وفاقی سطح پر
باقاعدہ ایک ادارہ کئی سالوں سے کام کر تا رہا ہے۔مگر لاکھوں کروڑوں روپے
کے بجٹ کے باوجوداس کی کارکردگی تقریباً صفر ہے۔ دوست ممالک سستی بجلی
فراہم کرنے کو تیارہیں مگر ہم لینے پر آمادہ نہیں کہ اس سے چند افراد کی
"روزی روٹی "پر لات پڑتی ہے۔
نو منتخب وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی بجلی کی پیداوار
اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے
کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو کہ خوش آئندہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی بھی
پالیسی انتہائی سوچ بچار کے بعد تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر مرتب کی جائے
اور پھر اس کو جاری رکھا جائے۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام
سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے شاندار وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کئی کیمپ
دفاترچھوڑ کر، اپنے وزراء کے ہاتھوں میں پنکھے تھمائے،مینا ر پاکستان کے
سائے تلے خیمہ زن ہیں۔علامتی طور پر بلاشبہ یہ ایک مستحسن اقدام سہی مگر
اتنے لمبے عرصہ کے لیے خیمہ دفاتر سجانا افسران اور وزراء کی کارکردگی کو
بھی متاثر کرنے کے مترادف ہے ۔کیونکہ کام کرنے کے لیے بھی پر سکون ماحول کی
دستیابی ضروری ہے ۔ لاکھوں روپے کے اخباری اشتہارات سے ا س خیمہ دفترکی
تشہیر اور افسران اور وزاراء کے" دلی جذبات" سے بے نیاز خادم اعلیٰ عوام سے
اظہار یکجہتی کے لیے بجلی کی پیداوارکے حوالے سے عملی اقدامات کریں تو وہ
زیادہ مناسب معلوم ہوں۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ملک کو 6 سے7 ہزار میگا واٹ بجلی کی قلت کا
سامنا ہے یعنی پیداوار مانگ سے 50 فی صد کم ہے۔پھر بھی 22,22 گھنٹوں کی لوڈ
شیڈنگ سمجھ سے بالا تر ہے اس کی وجہ غالباًانتظامی بے ضابطگی اور وی آئی پی
کلچر ہے جس کی وجہ سے مخصوص علاقوں کو نوازا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں کرپشن
پر قابو پر کر بھی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے حالت یہ ہے کہ 3 پاور
جنریشن کمپنیاں اربوں روپے کی نااہلی کی مرتکب پائی گئیں مگر حکومتی سطح پر
کوئی خاص اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ میں اربوں
روپے کے گھپلوں کی نشاندہی کی گئی مگر اس پر بھی ایکشن نہیں لیا گیا۔یہ وہی
پروجیکٹ ہے جس پر چین نے 44 کروڑ 80 لاکھ ڈالر فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
یہ خود برد اور اس کی نشاند ہی کی خبریں ملنے والی امداد پر بھی منفی اثرات
مرتب کر سکتی ہیں۔مالی سال2011-12 میں واپڈا کے 337.56 ارب روپے کے اخراجات
میں تقریباً119 ارب کے اخراجات کا آڈٹ کیا گیا اور اس میں بھی بے ضابطگیاں
پائی گئیں۔یہی حال واپڈا کے ریونیو بجٹ کا ہے جس کے فقط پانچ فیصد کا آڈٹ
کیا گیا جو کہ خود برد کی داستانیں سنا تا ہے ۔ان تمام گھپلوں کا حساب کون
لے گا؟اس تمام خود برو کی روک تھام کرکے عوام کو مزیدنہیں تو کم سے کم سستی
بجلی ضرور فراہم کی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی
مانگ کے پیش نظر بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی
کے متبادل ذرائع کو بروے کار لا کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے ۔اس کے علاوہ
بجلی چوری اور لائن لاسزکی روک تھام ،گڈگورننس، میرٹ پر تقرریاں اور تبادلے
اور خاص طور پر کرپشن کی روک تھام کے ذریعے بھی عوام کو فوری اور بروقت
ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے۔ |