علامہ اقبالؔ کے کلام میں پوری اُمّت کے لیے جو درد اور
سوز ہے اُس سے کون ہے جو ناواقف ہے۔ اُن کے کلام کو پڑھتے ہوئے جگر تھامنا
پڑتا ہے اور آنسو تو خود ہی آنکھوں میں اُمڈ آتے ہیں۔ مگر خیر، وہ اور ہوں
گے جو علامہ اقبالؔ کے کلام کو پڑھتے ہوئے اپنے آنسو روک نہیں پاتے۔ ہمارا
معاملہ مختلف ہے۔ علامہ کے کلامِ بلاغت نظام سے مستفید ہوتے وقت جگر تو خیر
ہم بھی تھامتے ہیں مگر ہنسی پر قابو پانے کے لیے کیونکہ علامہ کی سادگی پر
ہنسی آتی ہے تو پھر تو رُکنے کا نام نہیں لیتی۔ اور ہنسی رُکے بھی کیسے؟
علامہ نے اُمّتِ بیضہ اور بالخصوص اِس کے نوجوانوں کو مُخاطب کرکے پتا نہیں
کیا کیا باتیں کی ہیں، کیسی کیسی توقعات باندھی ہیں، کیا کیا اُمّیدیں
وابستہ کی ہیں۔ مثلاً
مُحبت مُجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
کوئی نہیں جانتا کہ علامہ نے اِس شعر میں جن جوانوں کا ذکر کیا ہے وہ کہاں
پائے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے ستاروں کی بھی وضاحت نہیں کی۔ اِس سادہ لوحی کا
نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جوانوں نے فلمی سِتاروں پر کمند ڈالنے کو زندگی کا
مقصد بنالیا! ایسی ہی اور بہت سی باتیں ہیں جن پر نوجوان غور نہیں کرتے
ورنہ علامہ پر ضرورت سے زیادہ توقعات تھوپنے کا مقدمہ دائر کردیں!
جنوبی ایشیا کے خِطّے میں اور بالخصوص پاک و ہند میں جب کوئی لکھنے کی
ابتدا کرتا ہے تو نوجوانوں کو مشقِ ستم کا نشانہ بنانے پر تُل جاتا ہے۔ ہر
نئے لکھنے والے کے پسندیدہ ترین موضوعات میں اسلام اور خواتین، اُمّتِ
مسلمہ کا زوال، مسلمانوں کا علمی و اخلاقی انحطاط، پاکستان کا مستقبل اور
نوجوانوں کے مسائل و ذمہ داریاں خاصے نمایاں ہیں! کوئی بھی لکھاری اِس منزل
سے گزرے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ توقعات کے بوجھ سے نئی نسل کی کمر جُھک
گئی ہے اور ساری توانائی جواب دے گئی ہے۔ کوئی لِکھنے والا اِس نکتے پر غور
نہیں کرتا کہ نوجوانوں کے مسائل پر لِکھنے کا حق اب اُن سے زیادہ ڈاکٹرز کا
ہے!
نوجوانوں کے معاملات اور اُمور کو اپنی خوش گمانیوں اور شِکوہ سامانی کا
نشانہ بنانے والوں میں نو آموز ہی نہیں، کہنہ مشق مصنفین بھی شامل ہیں۔ جب
بھی موقع ملتا ہے وہ نوجوانوں کو اُن کے فرائض یاد دلانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم
اب تک سمجھ نہیں پائے کہ جو خود جوانی کے مرحلے سے گزر چکے ہیں وہ نوجوانوں
کو کون سے فرائض یاد دلاتے ہیں! اور خود اُنہوں نے جوانی میں کون سے تیر
مار لیے تھے؟
اِس ملک میں، اور اِس پُر آشوب دور میں، لے دے کر ایک ذرا سا عہدِ شباب
ملتا ہے۔ یار لوگ اُسے بھی سنجیدگی کی بھینٹ چڑھانے پر تُلے رہتے ہیں۔ آپ
ہی بتائیے، نوجوان اگر نوجوانی میں ہَلّا گُلّا نہیں کریں گے تو پھر کب
کریں گے؟ کوئی 80 سال کی عمر میں ون وھیلنگ کرتا اچھا لگے گا؟ سڑکوں پر مٹر
گشت اور راتیں ہوٹلوں اور پتھاروں پر نہیں گزاریں گے تو عہدِ جوانی کیسے
کٹے گا؟ کیا یہ تمام مشاغل 70 سال کی عمر میں اپنائے جائیں جب ہاتھ میں عصا
ہوتا ہے اور کانوں میں نکیرین کے سوالات گونج رہے ہوتے ہیں؟
کبھی یہ رونا رویا جاتا ہے کہ نئی نسل دِل لگاکر نہیں پڑھتی؟ اب آپ ہی
بتائیے کہ دِل لگانے کے بعد بھی کبھی کوئی پڑھ سکا ہے! ایک طرف تو نوجوانوں
کو پڑھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور پھر مخلوط جماعتوں کا اہتمام کرکے
اُنہیں تعلیم و تعلّم کو بیک وقت آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ بے چاری نئی نسل
کرے تو کیا کرے؟ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اختلاط کا موقع ملتا ہے تو
تعلیم مُنہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور ’’سادہ مزاج‘‘ لڑکوں اور لڑکیوں کی ساری
توجہ ’’تربیت‘‘ پر مرکوز ہوکر رہ جاتی ہے!
لوگ سمجھتے ہی نہیں کہ پاکستان میں نئی نسل کے کاندھوں پر کیسی کیسی ذمہ
داریاں ہیں۔ ایک زمانہ ہے جو وقت کی کمی کا رونا روتا رہتا ہے۔ کوئی ہماری
نئی نسل سے رابطہ کرکے معلوم نہیں کرتا کہ اُن کے پاس اِتنا وقت کہاں سے
آتا ہے کہ کاٹے نہیں کٹتا، بلکہ بسا اوقات وقت کو قتل کرنا پڑتا ہے! ہماری
نئی نسل کا بُنیادی مسئلہ وقت کی زیادتی ہے۔ قدرت اُسے وقت کی دولت سے اِس
قدر نوازتی ہے کہ دن رات لُٹانے پر بھی وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اگر
وقت کو ضائع نہ کیا جائے تو کہاں ذخیرہ کرکے رکھا جائے؟
اگر وقت کے بھینسے کو کسی طور بس میں کر بھی لیا جائے یا اِس شیر کو سِدھا
بھی لیا جائے تو دوسرے بہت سے معاملات ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو
چاٹنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ زمانے بھر کے نشے اِس ملک میں پائے جاتے ہیں۔
نوجوانوں کی آدھی جوانی تو ہر نشے کو ایک ایک موقع دینے میں گزر جاتی ہے!
جوانی بجائے خود نشا ہے اور وہ بھی ایسا کہ چڑھتا ہے تو اُترنے کا نام نہیں
لیتا۔ ایسے میں اگر دوسرے نشوں کو بھی سَر پر سوار کرلیا جائے تو؟ پھر کون
سی ذمہ داری یاد رہ جاتی ہے؟ کوئی بتائے کہ نئی نسل نشوں سے مستفید ہو یا
فرائض اور ذمہ داریوں کے بکھیڑے میں پڑے؟
مرزا تنقید بیگ ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور کوئی کام تو ہے
نہیں اِس لیے رات قوم اور بالخصوص نوجوانوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
ڈھلی ہوئی عمر میں یہ بھی اِس ملک کے لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ مرزا
کہتے ہیں۔ ’’تین چار عشروں سے پاکستان کی نئی نسل کو مختلف نشوں کے ذریعے
ایسا آزمائش میں ڈالا گیا ہے کہ اب سبھی کچھ مخمور سا ہوکر رہ گیا ہے۔ سوال
صرف منشیات کا نہیں ہے۔ جس چیز کے استعمال سے نشا چڑھ جائے وہ منشیات کے
زُمرے میں آتی ہے۔ پنجاب کے نوجوان لَسّی پی کر جو لطف پاتے ہیں وہی کیف و
مستی کراچی کے نوجوانوں کو گٹکے سے حاصل ہوتی ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ لَسّی
میں وہ بات کہاں جو گٹکے میں پنہاں ہے۔ ایک ذرا سی پُڑیا سارے جہاں کے غموں
سے جان چُھڑا دیتی ہے۔‘‘
ہم نے جب بھی مرزا کو گٹکے کے نقصانات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے اُنہوں
نے بپھر کر ہمیں یوں گھورا ہے کہ ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ مرزا
کہتے ہیں۔ ’’گٹکا وہ جادو ہے جو سَر چڑھ کر بولتا ہے۔‘‘ گٹکا اور جادو؟ آپ
بھی حیران ہو رہے ہوں گے۔
بات یہ ہے کہ مرزا ہمیشہ اُن لوگوں کو سخت ناپسند کرتے آئے ہیں جو ہر وقت
بَک بَک کرتے رہتے ہیں۔ گٹکے کا نشا کرنے والوں کو مرزا بہت پسند کرتے ہیں
کیونکہ وہ ہر وقت چُپ رہتے ہیں! اور چُپ کیا رہتے ہیں، اُنہیں مُنہ بند
رکھنا پڑتا ہے۔ گٹکے کو مُنہ ہی مُنہ میں گھماتے رہنے ہی کا تو سارا مزا
ہے! پان کھانے والوں کو پیک تھوکتے رہنے کی زحمت گوارا کرنا پڑتی ہے، گٹکا
چبانے والے اِس زحمت سے بھی چُھوٹے۔
کراچی میں چند برسوں کے دوران ایک ایسا نشا متعارف کرایا گیا ہے جسے نشوں
کا سردار کہا جاسکتا ہے۔ یہ شیشہ۔ جہاں حُقّے کی جدید ترین شکل جس میں
لگژری کا پہلو نُمایاں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک گھنٹہ شیشہ پینا 200
سگریٹ پینے کے برابر ہے! لیجیے، جو نوجوان قوم کے لیے کبھی سیسہ پِلائی
ہوئی دیوار سمجھے جاتے تھے وہ اب شیشہ پِلائی ہوئی دیوار میں تبدیل ہوگئے
ہیں! نوجوانوں نے سوچا یہ کیا سیسہ، سیسہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ ذرا نقطے
لگاکر دیکھتے ہیں۔ بغیر نقطوں کا سیسہ پیا بھی تو کیا پیا!
توقعات کے انبار لگانے والے جب لکھنے پر آتے ہیں تو نئی نسل کو پتا نہیں
کیا سے کیا بناکر پیش کرتے ہیں۔ نوجوان جب اپنے وجود سے وابستہ توقعات کے
بارے میں پڑھتے ہیں تو اُنہیں بھی یقین کرنا پڑتا ہے کہ اُن میں توانائی کے
ذخائر پوشیدہ ہیں۔ یہ یقین اُنہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ خود سُپر مین
سمجھیں۔ مگر کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں اس لیے یہ سُپر مین توانائی کے ذخائر
کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ کوئی بھی چیز پڑے پڑے خراب اور
ناکارہ ہو جاتی ہے۔ اگر نوجوان اپنی بھرپور توانائی کو ٹھکانے نہ لگائیں تو
کیا کریں؟ ضرورت سے زیادہ جوش اور ولولے کا وہ کیا اچار ڈالیں گے؟ اچھا ہے
کہ چند ایک مُسلّمہ اور کارگر نشے دستیاب ہیں جو نئی نسل کی مشکل آسان کرتے
رہتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو گُھن کے ساتھ گیہوں بھی پِس جانے والی کیفیت
پیدا ہوجائے! |