عبد الصمد انصاری - دھیمہ سالہجہ ۔ تھوڑی سی شوخی

عبد الصمد انصاری سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ یاد پڑتا ہے کہ۱۹۷۲میں یم اے کرنے کے بعد ملازمت مل گئی تھی لیکن حلقہ عثمانی و سبزواری میں داخل ہونے کے باعث اکثر جامعہ کراچی جانا ہوتا جہاں پر شعبہ لائربری سائنس جو جامعہ کراچی کی لائبریری (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری )کی پانچویں منزل پر تھا اکثر احباب سے ملاقاتیں ہوتیں۔ انہیں دنوں معلوم ہوا کہ میرے بعد ایم اے کرنے والے کچھ طلبہ میں سے ایک عبد الصمد انصاری، اقبال الرحمن فارقی عرف لڈو میاں، فاروق عظیم ، صمید بیگ اور چند دیگر نوجوان بھی عثمانی و سبزواری کے نیازمندان میں سے ہیں۔یعنی سبزواری صاحب کے عشق میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس خبر پر اطمینان ہوا کہ چلو میرے پیر بھائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دیکھنے کا اشتیاق بڑھا۱۹۷۴کے ایک دن سبزواری صاحب کے کمرہ میں ملاقات ہوگئی۔ نوجوان دیکھنے میں خوبصورت ،منا سب، گور ارنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، کالے گھنے بالوں میں اب رنگنے کے باوجود سفیدی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔کچھ کچھ شباہت کسی اداکار کی سی تھی، پہلے تو خیال ہوا کے شاہد موصوف اداکار بھی ہوں لیکن یہ راز بعد میں عیاں ہوا کہ میرا خیال بڑی حد تک درست تھا، یہ خود تو اداکار نہیں البتہ معروف ادا کار قاضی واجد انکے ماموں زادبھائی ہیں۔ گویا بہ ذوق خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں نے زندگی میں اپنے دوستوں کو ممکن حد تک سنبھال کر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ، جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہوگیا اس سے ناتاجوڑے رکھا، بے شمار دوستوں کی ناپسند باتوں اور عادتوں کو محض اس وجہ سے درگزر کیا، کیونکہ میں دوست بنانے کا تو قائل ہوں ، دوست گنوانے یا چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے مخالفین بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا، دوستی کے بارے میں میری یہ سوچ ہے کہ ’’دوستی قربانی چاہتی ہے‘‘۔ دوستوں کی کڑوی کسیلی ، کسی حد تک نا پسند باتوں کو اس وجہ سے درگزر کیا جائے تاکہ دوستی قائم رہے، میں اس میں بڑی حد تک دوستی کے اس فلسفے پر کامیاب بھی رہا، باوجود اس کے کہ میرے بعض مہرباں میرے اس عمل سے اختلاف رکھتے ہوئے مجھ پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ بقول
میر دردؔ ؂
کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے

صمد انصاری مزاجاً سست اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں، ہمارے استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری انہیں پیار سے ’صمد ڈھیلے ‘ کہا کرتے ہیں اور ان کی اس عادت پر اکثر بیشتر ان کی سرز نشت بھی کرتے ہیں۔ میرے ساتھ لائبریری اسکول میں پڑھاتے ہوئے انہیں ۳۰ سال ہوگئے ہیں، اکثر ایسا ہوتا کہ جس دن اُن کی کلا س ہوتی ہے میں لیاقت لائبریری جا تے ہوئے انہیں لینے ان کی لائبریری چلا جاتا ، میں اکثر پندھرا منٹ قبل ہی پہنچتا، انہیں معلوم ہے کہ وقت بہت کم ، راستہ بھی پندھرا منٹ کا ہی ہیں اس کے باوجود اٹھتے اٹھتے خاصا وقت لگا دینا ان کا معمول ہوا کرتا ہے، جسے بسا اوقات میرے لیے برداشت کرنا مشکل ہوجاتا لیکن برداشت کیا کرتا ہوں۔ جب وہ گاڑی چلا رہے ہوں اور آپ ان کے ہمراہ برابر والی سیٹ پر بیٹھے ہوں، اتفاق سے آپ خود بھی گاڑی چلانا جانتے ہوں تو ان کی سبک رفتار ی کو دیکھتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ انہیں فوری سیٹ سے ہٹا کر بندہ خود گاڑی چلانے لگے ۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ان کی کیفیت کچھ اس شعر کی سی ہوتی ہے۔
خرامہ خرامہ معتر معتر
نسیم آرہی ہے کہ وہ آرہے ہیں

کراچی کی ہنگامہ خیز سڑک جب آپ کے دائیں اور بائیں گاڑیاں ہارن بجاتی ہوئی دوڑی چلی جارہی ہوں صمد انصاری ہیں کے جیسے مال روڈ پر ٹہل رہے ہیں۔اکثر گاڑی چلانے والے جب صمد انصاری کے دائیں یا بائیں سے گزرتے ہیں تو انہیں گھور گھور دیکھتے جاتے ہیں، یقینا دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ کراچی کی سڑک ہے صفاری پارک نہیں۔

حلقہ عثمانی و سبزواری کسی نہ کسی موقع پر پیشہ ورانہ تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے، ایک تقریب عادل عثمانی صاحب کے اعزاز میں منعقد ہوئی جس میں اس نوجوان کے جوہر مزید کھلے، محفلوں میں بولنا جانتا ہے بلکہ اچھا بولتا ، گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اس نوجوان باصلاحیت کے اندر ایک شاعر بھی موجود ہے، یعنی اس کے شعر پڑھنے کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ حساس دل کا مالک اور شعر کو صحیح پڑھنے کا ڈھنگ جانتا ہے۔بس اسی دن غیر ارادی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ دوستی بڑھائی جائے چنانچہ پینگیں بڑھانا شروع کیں، دوسری جانب بھی میرے لئے دوستی کی خواہش نظر آئی، بس اب ہم اکثر و بیشتر ملنے لگے۔دوستی آگے بڑھنے لگی،دوریاں قربتوں میں بدل گئیں۔میں ابتدامیں پریمئر کالج میں بعد ازآ ن عبد اﷲ کالج میں تھا ،ساتھ ہی اسکول آف لائبریرین شپ میں پڑھابھی رہا تھاجب کہ موصوف انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز کے لائبریرین تھے، میں کبھی کبھار ان کے آفس جایا کرتا، ہمارے موضوعات زیادہ تر اکرم صاحب اور عثما نی صاحب ، اس حوالے سے کبھی لائبریری پروموشن بیورو اور کبھی اس کے جاری کردہ رسالے پاکستان لائبریری بلیٹن ہوا کرتے، ہم اکثر مختلف پروگراموں کی منصوبہ بندی کیاکرتے ۔۱۹۷۹ میں جب میں اسکول آف لائبریرن شپ کا انتظامی سربراہ بن گیا تھا، اگر کوئی ٹیچر معزرت کرلے یا چلاجائے تو نئے استاد کی تلاش میری ذمہ داری تھی۔ کسی استاد کے معزرت کرنے کے بعد نئے ٹیچر کی شمولیت کا مرحلہ آیا تو میری پہلی نظر عبد الصمد انصاری پر گئی، میں نے اپنا مدعا بیان کیا، تفصیل بتائی کہ تمہیں ہفتہ میں صرف ایک ۴۵ منٹ کی کلاس لینا ہوگی، یہ کیوں کہ شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی میں جذوقتی استاد رہ چکے تھے، پڑھانے سے دلچسپی بھی رکھتے تھے، صلاحیت بھی تھی۔ انہیں میری بات میں کشش نظر آئی اور یہ میرے پھندے میں آگئے وہ دن سو آج کا دن ہم ایک دوسرے کے اسیر ہوچکے ہیں۔

کہتے ہیں کہ کسی بھی شخصیت کو سمجھنے کے لیے اس شخصیت سے قربت ہی درست پس منظر مہیا کرتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کرنے یا ایک ساتھ وقت گزارنے سے ہوتی ہے ۔ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی بھی شخصیت کی سوانح قلم بند کرنے کے لیے قلم کار کو اپنے موضوع کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑا اس قربت کے نتیجے میں ہی قلم کار اپنے موضوع کو جان سکا اور اس کی زندگی کے بارے میں لکھ سکا لیکن میرا موضوع تو گزشتہ تیس سال سے میرا ہمزاد ہے ، گھر کی زندگی کے علاوہ شہر بھر میں ہونے والی کوئی تقریب ، کوئی محفل ، خوشی کی ہو یاغمی کی یہ میرے ساتھ ہوتا ہے، مختلف قسم کے فلاحی، سماجی، تفریحی اور ادبی پروگرام ہم نے ایک ساتھ ترتیب دئے، شہر سے باہر مختلف شہروں میں ہونے والی کانفرنسوں میں یہ میرا شریک سفر رہا، ہوٹل کے کمروں میں یہی میرا شریک ہوتا ہے۔ اسے میَں نے جتنے قریب سے دیکھا شاید ہی کسی اور نے دیکھا ہوگا۔یہ میرے اور میَں اس کے بہت سے ظاہری اور خفیہ رازوں کا امین بھی ہوں۔ٍٍامانت دار کی حیثیت سے میں اپنے دوست کی صرف ظاہری خصوصیات پر ہی قلم اٹھاؤں گا ، کیونکہ امانت میں خیانت کسی بھی طرح اچھا فعل نہیں۔

صمد انصاری میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، اس نے جب بھی لکھا اچھا لکھا،ادبی مزاج خاندانی ہے، لیکن اس نے اپنے اندر کے قلم کار کو پوری طرح باہر آنے ہی نہیں دیا، شعر کہتا ہے اور اچھے شعر کہے، لیکن بد قسمتی یہ کہ اس نے نہ تو جم کر نثر لکھی اور نہ ہی اپنے اندر کے شاعر کو آزادی کے ساتھ باہر آنے دیا، گویا یہ زندگی کے کسی بھی حصہ میں اس جانب سنجید ہ نہیں رہا، باوجود اس کے کہ یہ نثر لکھنے والوں کے درمیاں رہا انہوں نے لاکھ ٹکریں ماریں کہ یہ سنجیدگی سے نثر لکھے، لیکن اس نے ان کی ایک نہ سنی ، جب خودجی چاہا لکھا، اسی طرح شاعروں کی صحبت میں رہا ، لیکن شاعری میں بھی اسی طرح ڈنڈی مارتا رہا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دامن میں چند غزلیں، چند نظمیں اور کچھ پیروڈیز ہوں گی،
اسی طرح چند مضامین بھی۔ہاں یہ دو کتابوں کا شریک مصنف بھی ہیں ۔

قریبی دوست ہو تے ہوئے بھی میں صمدانصاری کے نکاح کا گواہ نہیں کیونکہ بارات کراچی سے اسلام آباد گئی تھی البتہ جائز ولیمہ کا گواہ ضرور ہوں۔ قسمت سے اچھی بیوی ملی ، پڑھی لکھی اورسیدھی سادھی، میری شاگردبھی رہی۔ بچوں کی پرورش اور تربیت بہت اچھے طریقے سے کی۔ اپنی بیوی کی سادگی کا ایک واقع جو صمد انصاری نے سنا یا ، دلچسپی سے خالی نہیں کہتے ہیں کہ ’میری شادی اسلام آباد میں ہوئی، یعنی سسرال والے اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ بارات گئی ، نکاح ہوا، رخصتی بھی ہوئی اور چند روز وہیں گزارنے کا پروگرام بنا۔ شادی کے بعد انہوں نے بیگم سے کہا کہ میرے ایک دوست نے مری میں رہنے کا انتظام اس طرح کردیا ہے کہ مری میں ان کا اپنا گیسٹ ہاؤس ہے چنانچہ ہم ھنی مون کے لیے مری چلتے ہیں۔ صمد انصاری نے بتا یا کہ جب میں نے اپنی نئی نویلی بیگم سے یہ کہاکہ ہنی مون کے لیے مری چلتے ہیں قیام کا انتظام ہو گیا ہے تو انہوں نے انتہائی سادگی اوربیگانے انداز میں کہا کہ ہم تو مری بے شمار بارجا چکے ہیں، ہر آنے والے مہمان کو مری سیرکرا نے لے جاتے ہیں ، میں مری جا کر کیا کروں گی آپ ندیم کے ساتھ چلے جائیں (ندیم بیگم صمد انصاری کے بھائی ہیں)، وہ آپ کو اچھی طرح مری کی سیر کرا دیں گے۔ ہائے رے تیری سادگی، قربان جائیے اس سادگی پر، آج کل کی لڑکیاں تورشتہ طے ہونے سے قبل ہی ہنی مون کے منصوبے بنا لیتیں ہیں۔میرا دوست صمد انصاری اس سادگی پر قربان ہوگیا اپنے نئے نویلے سالے کے ساتھ مری چلے گئے۔ نہیں معلوم یہ ھنی مون تھا یا کچھ اور۔۔۔۔لگتا ہے صرف مون ہی مون ہوگا کیونکہ ہنی تو اسلام آباد میں ہی رہ گئی تھی۔
اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

صمد انصاری کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہیں وقت ، حالات اور لمحہ موجود کے حوالہ سے اشعار اور واقعات بہت جلد سوجھ جاتے ہیں اور یہ اسی وقت شعر سنادیتے ہیں یا اس سے مناسبت رکھتا ہوا کوئی قصہ، ایک دن کالج میگزین کے حوالہ سے بات ہورہی تھی، انہوں نے فوری ایک قصہ رسید کردیا ،انہوں نے اپنے ایک کزن کا واقعہ سنا یا کہ ’’پنجاب کے کسی کالج میں ایک انگریز مہمان آئے ، کالج پرنسپل انگریز موصوف کو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اپنے کالج کا میگزین دکھا رہے تھے جس پر شاہین کی خوبصورت رنگین تصویر چھپی ہوئی تھی، وہ انہیں بتا رہے تھے کہ ہم نے اپنے قومی ہیرو علامہ اقبال کے شاہین کی تصویر چھاپی ہے، علامہ اقبال کا شاہین اور ان کا تصور ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اس کے علاوہ علامہ اقبال اور ان کے فلسفہ کے بارے میں تفصیل بتارہے تھے ، اسی دوران اسی کالج کے ایک سنئیر پروفیسر پرنسپل کے کمرہ میں داخل ہوئے ،انہوں نے یہ خیال کیے بغیر کے کوئی غیر ملکی مہمان بھی کمرہ میں موجود ہے میگزین پر ایک نظر دوڑائی اور اپنے مخصوص انداز میں پنجابی میں گویا ہوئے’’اوہی کبوترا‘‘ ان کا کہنا تھا میگزین پر سابقہ میگزین کی طرح شاہین کی تصویر ہے جسے انہوں نے کبوتر سے تشبیح دی، پرنسپل صاحب بھی ان کے اس برجستہ جملے کو سن کر رہ گئے ان کا خیال تھا کہ انگریز مہمان موصوف پروفیسر کے اس جملے کو سنا ان سنا کردیں گے لیکن انگریز مہمان نے پرنسپل صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، پرنسپل صاحب نے انگریز مہمان کو کسی طرح ٹال دیا۔ یقینا بعد میں انہوں نے موصوف پروفیسر کی خبر لی ہوگی۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم دونوں اپنے حلقہ دوستی میں ہر خوشی اور غمی میں اکثر ساتھ ہی جاتے ہیں، کبھی وہ مجھے لے لیتے ہیں کبھی یہ فریضہ میں ادا کرتا ہوں۔پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید کا انتقال ہو اتو جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہم ایک ساتھ تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلا ل الدین حیدراﷲ کو پیا رے ہوئے تو ہم دونوں نے انہیں بوجھل دل کے ساتھ وادی حسین قبرستان میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہا، ڈاکٹر انیس خورشیدکے انتقال کے بعد ہم نے مل کر ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی، اختر حنیف صاحب کے انتقال پر ہم ساتھ ساتھ تھے،ہمارے ایک شاگرد سمیع الدین ،گورنمنٹ کالج برائے کامرس و اکنامکس کے لائبریرین تھے، اچھی خوبیوں کا نوجوان تھا، پہلی شادی ہوئی کامیاب نہ ہوئی ، دوسری شادی ہوئی، ہنسی خوشی زندگی گزر رہی تھی کہ اچانک کسی موزی مرض نے آدبوچا، دیکھتے ہی دیکھتے صحت مند اور خوبرو جوان چٹ پٹ ہوگیا، مغرب بعد تدفین ہوئی، لیاقت آباد میں رہا کرتا تھا وہیں سے جنازہ اٹھا، قبرستان میں صمد انصاری اور میں ساتھ ہی تھے۔ رات کی تاریکی میں جبکہ چاند کی روشنی بھی ماند تھی، شاید ایسی جوان موت پرچاندبھی افسو س کررہا تھا۔ ہم نے اپنے اس شاگرد کو لحد میں اتارا، دل انتہائی دکھی اور افسردہ تھا، لیکن اﷲ کی مرضی جسے جب چاہے اپنے پاس بلالے، مصلحت خدا وندی سمجھ کر سوائے صبر کے انسان کچھ نہیں کرسکتا۔واپسی کا سفر شروع ہوا، قبرستان میں اندھیرا تھا، معمولی سی روشنی کے سہارے ہم دونوں قبروں کو بچا تے ہوئے چلے آرہے تھے ساتھ ہی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا کہ اچانک میری نظر ایک قبر کے کتبہ پر پڑی لکھا تھا ’’سیدہ نجمہ سلطانہ تاریخ وفات ۔۔‘‘ ، میں نے صمد انصاری کو متوجہ کیا اور کہا کہ ذرا یہ کتبہ تو پڑھو ، یہ یہاں کب آگئیں، صمد انصاری نے کتبہ دیکھا اور ہنس دئے، ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے صمد کہنے لگے ارے بھئی یہ بھی ہیں، میں نے کہاکون، کتبہ دیکھا تو لکھا تھا ’’ آمنہ خاتون تاریخ وفات۔۔‘‘، یہ حسن اتفاق تھا ، ہم دونوں کچھ دیر قبروں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور اس اتفاق پر گفتگو کرنے لگے، ہم دونوں نے کہا کہ چلو آگے چلتے ہیں ہوسکتاہے، نسیم فاطمہ اور نسرین شگفتہ بھی یہیں کہیں ہوں، اس بات پر ہم دونوں خوب محضوض ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ ان سب کی عمر دراز کرے، اسکول آف لائبریرین شپ اور لائبریری پروموشن بیورو میں یہ ہماری شریک کار ہیں۔

صمد انصاری کا تعلق ہندوستان کی ریاست گوالیار سے ہے،انہوں نے اسی ریاست کے شہر ’لشکر‘ میں ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۴ء میں جنم لیا۔قاضی خاندان سے تعلق ہے ان کے خاندان کے اکثر احباب اپنے نام کے ساتھ ’قاضی‘ لگاتے ہیں۔ ان کے جدِ امجد ہندوستان کی معروف شخصیت عبدا لمناف انصاری ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری سے جا ملتا ہے۔صمد اپنے والدین کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں،۱۹۶۳جب یہ کالج کے سیکنڈ ائیر میں تھے والدہ کا انتقال ہو گیا ، ان کی بقیہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ بہنو ں اور بھائیوں نے پوری کی، چھوٹے ہونے کے باعث لاڈلے بھی تھے، بھائیوں نے انہیں خوب خوب آزادی دے رکھی تھے، دوران تعلیم موٹر سائیکل اور کار کا استعمال کیا کرتے تھے، جامعہ میں پہنچے تو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، شکل صورت پر کشش، ہینڈسم ، چاکلیٹی مسکراہٹ اور سونے پر سہاگہ یہ کے چار ویل موجود ،دوستوں خصوصاً لڑکیوں کے متوجہ ہونے کے تمام تر لوازمات موجود تھے۔اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد لائبریری سائنس میں داخلہ لیا، بہت اچھا وقت جامعہ میں گذارا، شعبہ کی طلبہ سوسائٹی کے صدر بھی رہے، الیکشن لڑتے اور لڑواتے بھی رہے۔ اپنے زمانے میں ادبی، سماجی و ثقافتی پروگرام منعقد کرنے میں طاق تھے، اب بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی پروگرام کرڈالیں، سبزواری صاحب کی پاکستان آمد کے منتظررہتے ہیں ، ان کی آمد سے قبل ہی پروگرام ترتیب دینے کی منصوبہ سازی کر ڈالتے ہیں۔

صمد انصاری کی ایک بہن۱۹۶۲ میں جامعہ کراچی سے MScکرنے کے بعد لندن چلی گئی اور وہی مستقل سکونت اختیار کر لی، ان کی دوسری بہن ’حبیبہ خاتون‘ نے بھی لائبریری سائنس میں ایم اے کیا ہوا تھا، صمد کو اس شعبہ میں آنے کی ترغیب انہیں سے ملی، کیونکہ وہ ان سے قبل لائبریری سائنس کی ڈگری لے چکیں تھیں۔ اردو میں بھی ایم اے تھیں، ادبی ذوق بھی رکھتی تھیں، اچھی شاعرہ بھی تھیں، ان کی غزلیں مختلف رسائل میں چھپ چکی ہیں۔ صمد انصاری کے خاندان میں لیٹ شادی کرنے کی روایت رہی ہے، حبیبہ خاتون کی شادی کراچی میں لیکن دیر سے ہوئے، اولاد بھی نہیں تھی، ساتھ ہی زندگی نے بھی وفا نہ کی،دونوں بہن بھائی برابر برابر فلیٹ میں رہا کرتے تھے، ایک دن صمد نے بتا یا کہ بہن پر فالج کا حملہ ہو گیاہے ، صمد نے بہت خدمت کی، ان کے شوہر بھی دیکھ بھال کیا کرتے تھے، صمد بہن کی بیماری سے پریشان رہاکرتے تھے، کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور حملہ ہوا اور وہ کچھ دن زندگی سے لڑتے لڑتے ہار گئیں اور اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔حبیبہ خاتون کی ایک غزل کے چند
اشعار ؂
راہ دل کی تھی نہ کوئے جسم و جان کی بات تھی
کاوشِ پیہم کا مقصد جستجوئے ذات تھی
کائنات ِ وقت میں محصور تھے مجبور تھے
بن گئے کتنے فسانے مختصر سی بات تھی

صمد کی شادی لیٹ ہوئی، صمد کے سب سے بڑے بھائی اور صمد کی شادی ایک ساتھ ہی ہوئی تھی، لیٹ شادی کے کچھ فوائد ہیں تو نقصانات بھی ہیں جن کا احساس دیر سے ہو ا کرتا ہے۔ صمد کو اﷲ تعالیٰ نے دو بیٹیاں (فائزہ اور مدیحہ) اور ایک بیٹے (سعود ) سے نوازا ، دونوں بیٹیوں کی بالفضل تعا لـیٰ شادیاں ہوچکی ہیں، مدیحہ لندن میں اور فا ئزہ لا ھور میں رہتی ہیں،فائزہ نے فزیا لو جی میں ایم ایس سی کے ساتھ لائبریری سائنس کا کورس بھی کیا ہوا ہے جس ناتے سے یہ میری شاگرد بھی ہے۔ سعود این ای ڈی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے فائنل ائیرمیں ہیں۔

صمد انصاری کے گھر کا ماحول علمی اورشاعرانہ تھا،خاندان کا تقریباـ ًہر شخص شاعری کے ہنر سے واقف تھا انکے بزرگوں میں ریاض جیوری ، معین الدین شیدا ،عبدالرحمن دریا، پروفیسر یوسف جمال ، محفوظ الرؤف اور آصف جمال خاصے معروف ہیں بڑی بہن اور بھائی شعری ذوق رکھتے تھے۔صمد انصاری میں شعری ذوق ابتدا ء ہی سے تھا آٹھویں کلاس میں بچوں کی نظموں سے شاعری کی ابتداء ہوئی ، روزنامہ جنگ میں بچوں کے صفحہ میں ان کی نظمیں شائع ہوئیں۔پاکستان میں اولین رہائش مارٹن کواٹر میں تھی ،گلو کار ایم کلیم ، احمد رشدی ، مسرور انوراور راغب مراد آبادی ان کے ہمسائے تھے۔گھر کا ماحول شاعرانہ تھا، ان کے گھر ادبی نشستیں بھی ہوا کرتیں تھیں سلیم احمد، اطہر نفیس ، خالد علیگ، صادق مدہوش، شیدا گجراتی، اسد محمد خان اور ساقی فاروقی ان شعری نشستوں میں شریک ہو ا کرتے۔صمد انصاری مشاعرے کے شاعر نہیں لیکن انہیں بے شمار موقع محل کی مناسبت سے شعر یاد ہیں، شعر کہتے بھی ہیں۔پیروڈی کے بھی ماہر ہیں۔

مجلسی آدمی ہیں، دوستوں میں رہنا، ہنسی مزاق ، تفریحی ماحول کے شوقین ہیں، دوستوں کے دوست، یاروں کے یار، جس محفل میں ہوں ، نمایاں نظر آتے ہیں، برملا شعر سناتے ہیں یا گفتگو کی مناسبت سے کوئی چٹکلا چھوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
وفاشعار ہیں ہم دوستی میں یکتاہیں
ملے نہ دادِ وفا اس کا غم نہیں کرتے
بڑوں، بزرگوں ، استادوں کا احترام ان کا خاندانی شعار ہے، اپنے استاد ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری
کے پرستاروں میں صف اول میں سے ہیں۔یوں تو سبزواری صاحب کے چاہنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن صمد انصاری اپنے استاد سے جس قدر احترام اور عزت کا عملی ثبوت دیتے ہیں اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔اس عقیدت و محبت میں خلوص و سچائی کی چاشنی پائی جاتی ہے ۔بقول منظر بھوپالی ؂
اپنے اسلاف کی عظمت کے پرستار ہیں ہم
سگ دربار نہیں صاحبِ کردار ہیں ہم

لائبریری سائنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد صمد انصاری نے عملی زندگی کا آغاز جامعہ کراچی کے کتب خانے سے کیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں اپنے روزو شب کی تفصیل ، ملازمت حال اور جناب عادل عثمانی و ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری سے اپنے تعلق کامختصر احوال صمد انصاری نے اپنے ایک مضمون ’’میرے مربی میرے مہربان‘‘ میں اس طرح لکھا ــ’’میں نے جب شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ لیا تو میری خوش قسمتی تھی کہ اسوقت شعبہ کے بانی بابائے لائبریری سائنس ڈاکٹر عبدلمعید شعبہ اور لائبریری دونوں کے سربراہ تھے اور کیا غضب کا معیار اور ڈسپلن تھا ۔معید صاحب کے علاوہ میرے استاد وں میں ڈاکٹر انیس خورشید صاحب، ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری، اظہارالحق ضیاء صاحب اور اختر حنیف صاحب،مظہر باری خان صاحب شامل تھے ۔ عادل عثمانی صاحب اور ممتاز بیگم صاحبہ جزوقتی اساتذہ میں شامل تھے میری بڑی خواہش تھی کہ مجھے عثمانی صاحب کا کورس ملے لیکن مجھے سائنس گریجویٹ ہونے کی وجہ سے مس ممتاز کے کورس میں بھیج دیا گیا مجھے بڑا افسوس تھا کہ میں اس عظیم شخصیت کا شاگرد نا بن سکالیکن یہ افسوس اسوقت ختم ہو گیا جب ۱۹۷۴ میں ایم۔ایل۔آئی۔ایس کے فوراً بعد یونیورسٹی لائبریری میں ملازمت کاموقع ملا ۔ہوا یوں کہ ابھی ہمارا رزلٹ صرف نوٹس بورڈ پر ہی لگایا گیا تھا کہ یونیورسٹی لائبریری میں کچھ نئے پروفیشنلز کی آسامیاں خالی ہوئیں اور سبزواری صاحب جو اسوقت شعبے کے چیئر مین تھے مجھے اور صمید بیگ کو عثمانی صاحب سے ملنے کو کہاصمید بیگ اور ہم دونوں کا شمار اسوقت کے ٹاپ ٹین طلبہ میں کیا جاتا تھا عثمانی صاحب نے ٹیسٹ لیکر کل سے کام پر آنے کے لئے کہہ دیا اسطرح ہم دونوں کا تقررکیٹلاگرکے طور پر کردیا گیا اور یوں ان سے افسر اور ماتحت والا رشتہ قائم ہوگیا اور ہم دونوں نے عثمانی صاحب کے زیرِ تربیت اپنے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا ہم نے عثمانی صاحب کو نہایت مہربان، اصول پسند اورمستعد افسر پایا وہ ہمیں اپنے دفترمیں بلا کر اکثرلائبریری کے مختلف شعبوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے اور محنت سے کام کرنے کی تلقین کرتے صمید بیگ کچھ ماہ کام کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور انکی جگہ ہمارے ہی شعبے کے ایک ذہین طالبعلم سبطِ اختر نصیری کی تقرری ہو گئی مجھے اور سبطِ اختر صاحب کو ٹیکنیکل سیکشن میں درجہ بندی کرنے کے لئے تعینات کردیا گیا جہاں ہماری انچارج مسز خان تھیں اور یوں چند سال میں ہم نے ان سے درجہ بندی سیکھی اور بہت کام کیا بعد میں اسی کام کے تجربے کی وجہ سے شعبہ میں جزوقتی استاد منتخب کرلیا گیا عثمانی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے بلا کر مبارک باد دی وہ خود بھی شعبے میں پہلے سے ہی جزوقتی طور پر ایک کورس پڑ ھا رہے تھے ۔۱۹۷۵ سے ۱۹۷۸ تک مجھے یونیورسٹی لائبریری کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کا موقعہ ملا اس میں بھی عثمانی صاحب کی مہر بانیاں شامل تھیں عثمانی صاحب نے ہی مجھے لائبریری سے شائع ہونے والے نیوز لیٹر کے ادارت میں شامل کیا اور اسطرح میرا لکھنے پڑھنے کا شوق جو کچھ بھی ہے یہ عثمانی صاحب کی وجہ سے ہے بعد میں مجھے انکی زیرِ نگرانی شائع ہونے والے رسالہ’ پاکستان لائبریری بلیٹن ‘موجودہ نام’ پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جنرل‘ میں شامل ہونے کا موقع بھی ملا اس تین سال کے عرصے میں میں نے عثمانی صاحب کو نہایت شفیق اور مہربان افسر اور استاد کے طور پر پا لیا تھا شاید اگر میں انکا ایک سیمسٹر کا شاگرد ہو بھی جاتا تو مجھے اسقدر سیکھنے کا موقعہ نا ملتا جو مجھے ان تین سالوں میں حاصل ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ میرے سب سے عزیز استا د ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری کے سب سے عزیز استاد ہیں اسطرح میں انکو اپنا دادا استاد شمار کرتا ہوں اس طور پر ان سے ایک جذ باتی لگاؤ ہونایقینی تھا جذباتیت سے قطعے نظر عثمانی صاحب ایک نہایت مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے انتہائی خوش لباس اور وضع قطع کے لحظ سے نستعلیق شخصیت کہا جائے تو بیجا نا ہوگا ایسی شخصیات کے جدا ہونے کا افسوس کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہی شعر بار بار پھر زبان پر آتا ہے ؂
اور وہ جو دلنواز تھا وہ توچلا گیا
ایک سوگوار درد سے رشتہ ضرور ہے

جامعہ کراچی کے بعد صمد انصاری سعودی عرب چلے گئے لیکن وہاں ان کا قیام مختصر رہا ، واپس کراچی آگئے اور انسٹی ٹیوٹ آف بنکرز کے چیف لائبریرین ہوگئے، میری دوستی انہیں انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز سے کالج کھینچ لائی، انہوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور اور گورنمنٹ نبی باغ کالج کے لائبریرین ہوگئے، وہیں سے ریٹائر ہوئے، مصروفیت کوجاری رکھتے ہوئے گلشن اقبال میں ورکس کوآپریٹیو
ہاؤسنگ سوسائیٹی کے کمیونیٹی سینٹر میں قائم لائبریری میں بطو ر لائبریرین منسلک ہوگئے، تاحال یہ مصروفیت جاری ہے۔

ان کے ہر دل عزیز استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری نے اپنی سوانح حیات’ ’کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گہُر ہونے تک‘‘ میں صمد انصاری کے بارے میں لکھا ’’یہ بھی میرے ہونہار شاگرد ہیں۔ ذرا نازک مزاج ہیں۔ادبی اور شاعرانہ ذوق رکھتے ہیں۔ تعلیم کے دوران خاصے سوشل تھے۔ ایم اے لائبریری سائنس ہیں۔ نبی باغ کالج میں لائبریرین رہے وہاں سے فارغ ہونے کے بعد گلشن اقبال میں ورکس کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کی لائبریری میں لائبریرین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ہمارے ساتھ بیورو (لائبریری پروموشن بیورو) کے کام میں شریک ہیں۔ ہمارے مجلہ میں Associate Chief Editorہیں، مضامین لکھتے رہتے ہیں اور رئیس احمدصمدانی صاحب کے لائبریری اسکول میں پڑھاتے ہیں۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن میں بھی متحرک ہیں اور پیشہ ورانہ انجمنوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک کتاب جو حال ہی میں شائع ہوئی ’اسکول کے کتب خانے‘ کے شریک مصنف ہیں‘‘۔
صمد انصاری کی ایک غزل ؂
وہ مجھے یاد نہیں اور اُسے بھولا بھی نہیں
دل ہے تنہا مگر ایسا تنہا بھی نہیں
دشمنِ جاں بھی نہیں اور مجھے پیارا بھی نہیں
وہ جو اپنا بھی نہیں اور پرایا بھی نہیں
کیوں فضا سرد ہے دل کی مجھے احساس کہاں
آتشِ غم سے سجاؤں کوئی شعلہ بھی نہیں
فضلِ گل آئی ہے لیکن کوئی زنجیر نہیں
ہار پھولوں کا نہیں پاؤں میں کانٹا بھی نہیں
دل بھی زخمی نہیں اور آنکھ میں آنسو بھی نہیں
حال اچھا ہے مگر ایسا اچھا بھی نہیں
غم کا احساس گیا اپنی بھی پہچان گئی
جو مجھے ڈھونڈ کے لائے کوئی ایسا بھی نہیں
اب کے کچھ اور بدل ڈالا ہے میں نے خود کو
کوئی جب دل کو دکھاتا ہے تو ہنستا بھی نہیں
صمد انصاری کی ایک تازہ غزل ؂
اداس شام بہت تھی مگر گز ر ہی گئی
جو تیری یاد میں گزری تو کچھ سنور ہی گئی
جو آگ تیری محبت نے ہم کو بخشی تھی
وہ آگ راکھ ہوئی اور پھر بکھر ہی گئی
وہ آئے بزم میں لیکن ہمیں نہ دیکھ سکے
نظر اٹھی تو مگر ہم سے بے خبر ہی گئی
ہر ایک کاوش گرما کے بے اثر ٹہری
وہ موج در د مگر اپنا کام کرہی گئی
چہار سمت تباہی کا جال پھیلا کر
چڑھی ہوئی وہ ندی آخرش اتر ہی گئی
کراچی، ۱۸ مئی ۲۰۱۱ء
(مصنف کے خاکوں کے مجوعے ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘ میں شامل)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286384 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More