گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور اور فارسی زبان و ادب

اہل فارس کا‘ برصغیر سے صدیوں کا نہیں‘ ہزاروں سال کا تعلق ہے۔ سماجی معاسی اور سیاسی تعلق کے علاوہ‘ ان کی رشتہ داریاں بھی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر کے یودھا‘ ایرانی فوج میں شامل رہے ہیں‘ جس سے باہمی اعتماد کا پہلو‘ واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ علمی ادبی سانجھوں کو بھی کسی سطع پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی تعلیم سے پہلے‘ درس گاہوں میں فارسی کا چرچا تھا۔ پڑھائ کا آغاز ہی سعدی شیرازی کی‘ گلستان اور بوستان سے ہوتا تھا۔ ناصرف فاری کتب کا مقامی زبانوں میں ترجمہ ہوا‘ بلکہ یہاں کے مقامی اہل علم حضرات نے‘ قابل قدر کتب فاری زبان میں تصنیف کیں۔ بعض کتب کو بے حد پذیرائ حاصل ہوئ اور انھیں سند کا درجہ حاصل رہا۔ ان کتب کے مقامی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ کچھ تراجم‘ آج بھی کئ دینی مدارس کے کورس میں داخل ہیں۔ اس حوالہ سے عملی تعلق واسطے کی براہ راست صورت سامنے آتی ہے۔

یہ پہلو‘ فارس سے تعلق کا واضح ثبوت ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں فارسی کی آوازیں اور الفاظ‘ کسی ناکسی صورت میں‘ آج بھی مقامی زبانوں میں داخل ہیں۔ اس امر کا قدرے تفصیلی جائزہ‘ میں اپنے مضمون ‘فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات‘ میں پیش کر چکا ہوں۔

گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور‘ پاکستان‘ کا بھی فارسی سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ یہاں فارسی ناصرف تدریسی مضمون رہا ہے بلکہ اس کالج سے متعلق اہل قلم نے بھی بساط بھر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جس کی تفصیل درج کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے‘ کسی ناکسی سطع پر‘ اہل تحقیق اور اہل ذوق کے کام کی نکلے۔ میں یہاں تلاش کے بعد میسر آنے والی معلومات درج کر رہا ہوں ہو سکتا ہے‘ کوئ کام میری کوشش کے داءرہ میں نہ آ سکا ہو۔ اسے میری کوشش کی کم کوسی نہ سمجھا جاءے بلکہ وقت کی دھول نے بہت سے نقوش کو غاءب کر دیا ہے۔ کسی دوسرے محقق کی سنجیدہ کوشش سے ممکن ہے‘ وہ کام بھی منظر عام پر آسکے گا۔

پروفیسر غلام ربانی عزیز کالج کے پہلے پرنسپل تھے۔ وہ عربی‘ فارسی‘ اردو اور انگریزی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے دیوان غنیمت کنجاہی‘ مثنوی غنیمت کنجاہی‘ دیوان واقف بٹالوی‘ دیوان دلشاد پسروری‘ کلیات آفرین جلد اول اور قصاءد آفرین کی تصیح وترتیب کا کام انجام دیا۔ آخری کتاب کے علاوہ تمام کتب شائع ہوئیں۔ مزید براں انھوں نے‘ غنیمت کنجاہی سے متعلق‘ کالج میگزین کے لیے تین مضامین دیے۔

غنیمت کی شاعری - ١٩٦٠
غنیمت کی شاعری کا ایک پہلو - ١٩٦١-٦٢
غنیمت شکایت روزگار - ١٩٦٢-٦٣

احمد یار خاں مجبور اردو پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے۔ انھوں نے عمر خیام کی رباعیات کا چھے مصرعی‘ پنجابی ترجمہ بھی کیا۔ تین رباعیات کا اردو میں ترجمہ کیا جو ایم فل کے مقالہ ‘بابا مجبور شخصیت فن اور شاعری‘ مملوکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘ اسلام آباد میں موجود ہے۔

مقصود حسنی کالج ہذا میں اردو کے استاد رہے ہیں۔ ١٩٩٦ میں ان کی ‘کتاب شعریات خیام‘ شائع ہوئ۔ اس کتاب میں

عمر خیام۔۔۔۔۔ سوانح و شخصیت اور اس کا عہد
رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ
رباعیات خیام کے شعری محاسن
عمر خیام کے نظریات و اعتقادات
عمر خیام کا فلسفہ وجود

عمر خیام سے متعلق مواد کے علاوہ چوراسی رباعیات خیام کا سہ مصرعی ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔
کتاب میں ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‘ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘ ڈاکٹر اختر علی‘ ڈاکٹر وفا راشدی‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ پروفیسر کلیم ضیا‘ پروفیسر رب نواز ماءل‘ پرفیسر اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر امجد علی شاکر‘ پروفیسر حسین سحر‘ بروفیسر عطاالرحمن‘ ڈاکٹر رشید امجد‘ ڈاکٹر محمد امیں‘ علی دیپک قزلباش‘ سید نذیر حسین فاضل شرقیات کی آرا شامل ہیں۔

مقصود حسنی نے قرتہ العین طاہرہ کی فارسی غزلوں کا اردو اور پنجابی میں ترجمہ کیا۔ مزید براں میاں محمد بخش کی پنجابی مثنوی ‘قصہ سفر العشق‘ کے فارسی حواشی کو جمع کیا۔
کالج میگزین الادب میں پروفیسر منشا سلیمی کے دو مضمون بعنوان
امیر خسرو کی غزل گوئ - ١٩٥٩
بادہءحافظ - ١٩٦٠
شائع ہوئے۔

دو مضمون پروفیسر اکرام ہوشیاری کے‘ درج ذیل عنوانات کے تحت شائع ہوئے۔
شیخ سدی شرازی - ١٩٧٠ -٧١
شیخ سدی شرازی - ١٩٨٦-٨٧

ان مضامین کے علاوہ سات مختلف موضوعات پر الادب میں مضامین اشاعت پذیر ہوئے
١- پاکستان و فارسی زبان فیاض احمد - ١٩٥٨
٢- امیر خسرو کی تصانیف کی تاریخی حیثیت قمرالحق - ١٩٥٨
٣- پروین اعتصامی پروفیسر وحیدہ شیخ - ١٦٦٦
٤- حافظ شیرازی ارشد شیخ - ١٩٦٦
٥- مولانا روم اور ان کی تعلیات شمشیر خاں - ١٩٦٧-٦٨
٦- فارسی میں مرزا غالب کا مقام محمد عباس انجان - ١٩٧١- ٧٢
٧- پنجاب میں حافظ شیرازی کا مقلد! قصوری ڈاکٹر عارف نوشاہی - ١٩٩٧-٩٨

ڈاکٹر عارف نوشاہی اسلامیہ کالج قصور کے سٹاف میں سے نہیں تھے۔ الادب کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے‘ کہ اس کے میگزین الادب میں‘ مختلف موضوعات پر‘ مشاہیر کی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔ فقط ایک ادارے میں فارسی زبان ادب پر معقول کاوش ہا فکر اشاعت پذیر ہوئیں۔ برصغیر میں صد ہا ادارے ہیں‘ وہاں فارسی کے حوالہ سے مواد شائع ہوا ہو گا۔ اس کا‘ اس ادارے کی مثال سے باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم باور رہنا چاہیے‘ کہ یہ مضافاتی تعلیمی ادارے‘ مراکز کے اداروں سے‘ کسی طرح پیچھے نہیں رہے۔
 
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176057 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.