لندن میں مقیم الطاف بھائی کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے- ہم نے سنا تھا
کہ مظاہرے خلاف ہوئے ہیں مگر حق میں مظاہرہ مخالفانہ مظاہروں سے زیادہ بڑا
ہوتا ہے، برادرم فاروق ستار خالد مقبول صدیقی حیدر عباس رضوی اور دوسرے
دوستوں نے پاکستانی حکمرانوں کے خلاف تقریریں کیں انہیں غصہ برطانوی پولیس
پر تھا، وہاں کی پولیس حکمرانوں کی غلام نہیں ہوتی، غصہ اتارنے والوں میں
جوش وخروش بہت زیادہ تھا میری پہلی درخواست ہے کہ الطاف بھائی فورا پاکستان
آجائے یہاں وہ بالکل محفوظ رہیں گے، یہاں سیاستدانوں کو کچھ بھی نہیں ہوتا،
پاکستان میں قانون کی حاکمیت نہیں ہے، برطانیہ میں تو قانون سخت ہے وہاں
قانون سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ پاکستانی وزیر قانون سے پوچھا گیا کہ آپ وزیر
قانون ہو مگر قانون کہاں ہے، اس نے کہا کہ ہمارے ہاں وزیر خزانہ ہے مگر
خزانہ لوٹ کر خالی کردیا گیا ہے وزیر خارجہ ہے مگر خارجہ پالیسی نہیں ہے۔
وزیر تعلیم ہے مگر تعلیمی نظام نہیں ہے، وزیر داخلہ ہے مگر مداخلت کس کی ہے،
تو پھر میرا کیا قصور ہے،برطانیہ میں حکمران بھی قانون سے بچ نہیں سکتے
یہاں تک کہ ملکہ برطانیہ بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی وہاں لوگ
قانون توڑنے کی جرات نہیں کرسکتے انہیں سزا ملنے کا پکا یقین ہوتا ہے-
برطانیہ میں الطاف حسین کو اتنی سکیورٹی نہیں مل سکتی جو پاکستان میں مل
سکتی ہے ۔اس سے اندازہ کریں کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تفیش لندن میں
ہورہی ہے مگر اسکے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کراچی میں ہورہے ہیں، ایسے کسی
مظاہرے کا تصور بھی لندن میں کیا جاسکتا ہے؟
الطاف بھائی کی کئی باتیں مجھے بہت پسند ہیں۔ انکی ایک غیر سیاسی کتاب
فلسفہ محبت جس کو شاندار پذیرائی ملی کیا کہنے جی میں الطاف بھائی سے پھر
گزارش کرتا ہو کہ وہ پاکستان آجائے، پاکستان میں انکے لیے کوئی خطرہ نہیں
ہے، جن کے جان نثار اتنے زیادہ ہوں جن کی محبت میں لوگ گھروں سے نکل آتے
ہیں اتنی بار اپنے لیڈر کے لیے کوئی نہیں نکلا ہوگا، ایسے لوگوں کے درمیان
الطاف بھائی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے، نائن زیرو اب بھی محفوظ جگہ ہے جب
الطاف بھائی کراچی میں تھے تو بلاول ہاؤس سے بھی محفوظ جگہ تھی،
پاکستان میں سیاسی دولتمندوں اور حکمرانوں نے اپنی سکیورٹی کے لیے کرائے کے
لوگ رکھے ہوئے ہیں تنخواہ دار زاتی ہوں یا سرکاری ہوں وہ تو بس ملازمت
کررہے ہوتے ہیں، اگر حفاظت ساتھی کریں تو وہی حفاظت ہوتی ہے،ہمارے ملک میں
ایسے خطرہ ہوتا ہے جیسے سکیورٹی فراہم ہوتی ہے ظالموں کو معلوم ہوجاتا ہے
کہ یہ لازما کوئی وی آئی پی ہوگا آج کل وی آئی پی ٹارگٹ ہیں ورنہ ٹارگٹ
کلنگ صرف ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں مقتول کہا جاتا ہے، ہر مقتول آجکل شہید
ہیں، اور یہ حکمرانوں کی سیاست ہوتی ہے،
میری ایم کیوں ایم کے سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ وہ جس رنگ کی جزباتی
تقریریں کررہے ہیں اس سے الطاف بھائی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان
ہوگا، جلسے جلوسوں مظاہروں اور جوشیلی تقریریں کرنے کے بجائے الطاف بھائی
کو فورا پاکستان لانے کی کوشش کرنا چاہیے، جن دو آدمیوں کے لیے برطانوی
پولیس پاکستان سے مطالبہ کررہی ہے۔ ان کے لیے جلد کوئی ٹھوس فیصلہ کرنا
چاہئے، اسکے لیے مظاہروں سے کام نہیں چلے گا۔ برطانوی پولیس سے بات چیت کی
جائے انہیں مطمئن کیا جائے خواہ مخواہ درمیان میں الطاف بھائی کو نہ لایا
جائے، ہمیں برطانیہ کا قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے ڈاکٹر عمران
فاروق قتل کیس کو الجھایا نہ جائے اور نہ سیاسی بنایا جائے بلکہ خوش اسلوبی
سے تمام معاملات قانون کے مطابق سلجھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کراچی میں زور
دکھانے سے پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومت تو مرعوب ہوسکتی ہے پر
برطانوی حکومت مرعوب نہیں ہوسکتی۔
صوبے میں پیپزپارٹی کی حکومت ہے سندھ حکومت اور پیپزپارٹی کی طرف سے آج بھی
ایم کیوں ایم کے لیے نمائمندگی اور ترجمانی رحمن ملک کے پاس ہے، اور انکا
رابطہ الطاف بھائی سے ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔
مجھے اپنے دوستوں سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ وہ کس کو ڈرانا چاہتے ہیں،
پاکستانی حکمران تو پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں اب وہ اسکے عادی ہوگئے ہیں کیا یہ
بیرونی قوتوں کا کوئی نیا منصوبہ ہے جس سے ان سب کو بے خبر رکھا ہوا ہیں، |