سید العارفین، نائب رحمۃ للعالمین، قطب ِربانی، محبوبِ
سبحانی، شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم،
بہت بڑے صاحبِ کشف وکرامت بزرگ اور بہت بڑے داعی ومبلغ بھی ہیں۔ آپ کا
مرتبہ اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں بہت اونچا ہے اور بلا شبہ آپ روئے زمین کے
تمام اولیاء اﷲ کے سردار ہیں۔آپ جب بغداد میں شریعت وطریقت کے علوم ومعارف
حاصل کرچکے تو مخلوقِ خدا کو فیضیاب کرنے کا وقت آگیا۔ ماہ شوال ۵۲۱ھ مطابق
۱۱۲۷ء کو محلہ حلبہ براینہ میں آپ نے وعظ کا آغاز فرمایا۔بغداد کے محلہ باب
الزج میں حضرت شیخ ابو سعید مخزومی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد کردیا۔ آپ کے قدومِ میمنت لزوم
سے طلبا کا اس قدر ازدحام ہوا کہ قدیم عمارت ناکافی ہوگئی تو بغداد کے علم
دوست حضرات نے اسے وسعت دے کر شاندار نئی عمارت تیار کرائی۔ ۵۲۸ھ مطابق
۱۱۳۴ء میں یہ مدرسہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا اورآپ کی نسبت سے مدرسۂ قادریہ
مشہور ہوا۔آپ نے وعظ وتبلیغ کا سلسلہ (۵۲۱ھ مطابق ۱۱۶۶ء) تک جاری رکھا اس
طرح آپ نے چالیس سال تبلیغ اور تینتیس سال تدریس وافتا کے فرائض انجام دیئے۔
اسلوبِ خطابت
ـ سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خطبات میں عموماً سادہ اور عام فہم
باتیں ارشاد فرماتے لیکن کبھی کبھی آپ کا دریائے علم موجزن ہوتا تو عالمانہ
ومحققانہ نکات بیان فرماتے اور آیتوں کی ایسی تفسیر سناتے کہ بڑے بڑے علما
بھی انگشت بدنداں ہوجاتے۔ آپ دینِ متین کی تعلیمات کو بہت پرکشش اور مؤثر
انداز مین بیان فرماتے بعض اوقات صحابۂ کرام اور اولیائے عظام کے ارشادات
بھی زیبِ سخن بنتے۔آپ پر بغداد کی معاشرتی، سماجی اور دینی زندگی کی بگڑتی
ہوئی حالت پوشیدہ نہیں تھی۔ ظلم وستم، جبر واستبداد، تن آسانی اورعیش وطرب
میں ڈوبی زندگی کو ہلاکت کے بھنور سے نکال لانا ہی آپ کا مقصد ِاصلی تھا
اور اسی لیے آپ نے بغداد کو اپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز بنایا۔ بڑے بڑے لوگوں
کو ان کی برائیوں پر بے دھڑک ٹوکتے اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے تھے
اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ منجانب اﷲ ایک داعی ومبلغ کی حیثیت سے دنیا
میں منتخب فرمائے گئے تھے۔
دعوتی اسلوب
آپ نے اس وقت کے ظالموں، عالموں، صوفیوں، فقیہوں سے خطاب فرمایا۔ ان کے
مواعظ سے چند اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔(۱) اے لوگو! تم رمضان میں اپنے
نفسوں کو پانی پینے سے روکتے ہو اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو مسلمانوں کے
خون سے افطار کرتے ہو اور ان پر ظلم کرکے جو مال حاصل کیا ہے اسے نگلتے
ہو۔(۲) اے لوگو! افسوس کہ تم سیر ہوکر کھاتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے
رہتے ہیں اور پھر دعویٰ یہ کرتے ہو کہ ہم مومن ہیں، تمہارا ایمان صحیح نہیں
دیکھو ہمارے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے سائل کو دیا کرتے
تھے، اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالتے، اس کا دودھ دوہتے اور اپنی قمیص سیا کرتے۔
تم ان کی متابعت کا دعویٰ کیسے کرتے ہو جب کہ اقوال وافعال میں ان کی
مخالفت کررہے ہو۔آپ نے اس وقت کے مولویوں، فقیہوں اور زاہدوں کو مخاطب کرکے
فرمایا:(۳) اے مولویو اور فقہیو، زاہدو، عابدو، اے صوفیو! تم میں کوئی ایسا
نہیں جو توبہ کا حاجت مند نہ ہو ہمارے پاس تمہاری موت اور حیات کی ساری
خبریں ہیں۔ سچی محبت جس میں تغیر نہیں آسکتا وہ محبت الٰہی ہے جس کو تم
اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہو اور وہی محبت روحانی صدیقوں کی محبت ہے۔(۴)
یا الٰہی تو منافقوں کی شوکت کو توڑ دے اور ان کو ذلیل فرما۔ ان کو توبہ کی
توفیق عطا فرما اور ظالموں کا قلع قمع فرمادے زمین کو ان سے پاک فرمادے یا
ان کی اصلاح فرما۔
اندازِتبلیغ اورعصرِحاضر
آج جس قدر حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کرامت کو بیان کیا جاتا ہے
اور مبلغین وخطبا حضرات اپنے خطبوں میں زورِبیانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں اس
سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ اگر عوام کے سامنے آپ کے ان
اقدامات ومساعیِ مشکورہ کو جو احیائے دین کے لیے آپ نے کی ہیں ،پیش کیا
جائے تو اس سے دو فائدے ہوں گے اول تو وہ حضرات جو صرف اور صرف آپ کو کرامت
تک ہی محدود جانتے ہیں ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا دوم ہماری عوام اور
خواص کے اندر جذبۂ تبلیغ بھی پیدا ہوگا۔ حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے شریعت کے تن بے جان میں دوبارہ جان ڈال دی اور آپ کی دعوت وتبلیغ نے
ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزلِ مقصود سے ہم کنار کردیا جس کی وجہ سے
آپ کا لقب ’’محی الدین‘‘ مشہور ومعروف ہوگیا۔ آپ کے اسلوبِ دعوت وتبلیغ اور
خطبات سے زمانہ آج بھی فیض یاب ہورہا ہے اور قیامت تک ان شاء اﷲ ہوتا رہے
گا۔ |