ویسے تو گزشتہ ماہ سیرت کے حوالے سے بہت
کچھ بیان کیا اور دکھایا گیا لیکن سیرت کی مناسبت سے منعقدہ ایک پروگرام نے
مجھ کو بہت متاثر کیا۔ اس پروگرام کی نوعیت کا علم لکھاریوں کی ایک مجلس
میں ہوا۔ جہاں برادرم اکرام اﷲ واحدی جو کراچی کے ایک معروف دینی ادارے
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نقیب رسالہ’’اسوہ حسنہ‘‘کی ادارتی ٹیم میں سے
ہیں،نے بتایا کہ فروری کے آغاز میں طارق روڈ پر سیرت کے حوالے سے ایک نمائش
منعقد ہو رہی ہے۔ چونکہ ربیع الاول میں میلاد النبی ؐکے حوالے سے منسوب بہت
سے پروگرامات و تقاریب دیکھنے کا موقع مل چکا تھا، اس لیے میں نے اس نمائش
میں کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا اور اسے بھی دیگر مذہبی تقریبات جیسا
سمجھا، جس میں جدید گانوں کی طرز پر کچھ نعتیں سنائی جاتیں اور پھر کچھ
علماء کرام بڑے میٹھے اور خوبصورت الفاظ میں سیرت الرسولؐ بیان کرتے،لیکن
ایسی تقاریر میں نبیؐ کا چہرہ مبارک، داڑھی، دندان مبارک کی خوبصورتی اور
مکمل صورت تو بیان کی جاتی ہے مگر سیرت بیان نہیں کی جاتی۔ پھر ان نعت و
درود کی تقریبات میں حُب الرسول ؐسے بھرے ہوئے مسلمان سر دھندتے اور وجد
میں آکر واہ واہ کرتے تو نظر آتے ہیں مگر اپنے کرداد و اطوار سے ان کا
محمدعربیؐ سے تعلق اور لنک نظر نہیں آرہا ہوتا، بلکہ جس سے محبت کی جاتی ہے
محب تو محبوب کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیتا ہے۔ مگر پتا نہیں ہم مسلمانوں
کی کیسی محبت ہے کہ ہم نبیؐ سے محبت کے دعویدار تو ہیں مگر ان کے نہ تو
فرامین پر عمل کرتے ہیں اور نہ ان کی صورت و سیرت اپنانے کو تیار ہوتے ہیں۔
بہر حال موضوع اس سے پہلے کہ کسی اور رُخ پر چلا جائے میں اپنی تحریر کا رخ
ابتدائی تذکرے کی طرف موڑتا ہوں۔ میری عدم دلچسپی کو محسوس کرتے ہوئے برادر
اکرام اﷲ واحدی نے نمائش کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی عام نمائش
نہیں بلکہ اس میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی
ڈالی جائے گی۔ پھر کچھ دن بعد اس تقریب کا دعوت نامہ بھی آگیا اور میں 2
فروری کو کراچی کے اہم تجارتی مرکز طارق روڈ کے ایک ہال میں موجود تھا۔ ہال
میں داخل ہوتے ہی بڑے جہازی سائز کے پینا فلیکسبورڈ، اہم مقامات کی تصاویر،
نقشے اور پھر سب سے بڑھ کر مختلف عہد نبوت سے وابستہ مختلف علاقوں کے اہم
واقعات کی مناسبت سے بنے ہوئے مٹی کے ماڈلز کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہاں
اس نمائش میں کچھ تو خاص ہے۔ خاص باتکیوں نہ ہوتی یہ نمائش کوئی عام نمائش
نہ تھی بلکہ خاتم الانبیاء، سید الرسل، پیغمبر انسانیت رحمۃ العالمین
محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے والی
تھی۔ جس میں اکابر علماء نے اپنی علمی تحقیق کے نچوڑ اور کئی ماہ کی ان تھک
محنت سے نبیﷺ کی مکی و مدنی زندگی کا مکمل نقشہ کھینچا تھا۔
المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کی جانب سے سیرت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے
منعقد کی گئی اس سیرت رحمۃ اللعالمین نمائش میں نبویﷺ دور کے مکہ و مدینہ،
ہجرت، مختلف غزوات، خانہ نبوت اور شجرہ نسب، اہم اسلامی شعائر کے متعلق
مختلف تصاویر، چارٹس اور ماڈلز کے ذریعے بڑے جدید انداز میں آگاہی فراہم کی
گئی تھی۔ پھر نمائش میں آنے والوں کو قرآن و حدیث سے حاصل کردہ مستند تاریخ
اسلام کے مطابق رہنمائی فراہم کر رہے تھے۔ ہزاروں مرد و خواتین نے بڑے جوش
و خروش کے ساتھ اس نمائش میں شرکت کی۔
نمائش کے منتظمین میں سے مولانا خالہ حسین گورایہ اور شیخ حماد چاولہ نے
بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کی پاکستان میں پہلی نمائش ہے۔ جس میں سیرت کو اس
جدت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ منتظمین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ
سال اس نمائش کا بڑے پیمانے پر ایکسپو سینٹر میں اہتمام کیا جائے گا۔ سیرت
رحمۃ اللعا لمین نمائش ظلمتِ شب میں ایک تارے کی مانند لگی جس سے لوگوں تک
صحیح اسلامی تعلیمات کا نور پہنچتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ بڑی مسرت و شادمانی
کی بات ہے کہ پاکستان میں بھی جلسے جلسوں اور علامتی ریلیوں سے ہٹ کر سیرت
کا پیغام ہر ایک تک پہنچانے کے لیے ایسی نمائش منعقد کی گئی۔
آپ کی کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اگر مسلمان سیرت کا
صحیح طور پر مطالعہ کر لیں تو انہیں اس میں اپنے سارے مسائل کا حل مل جائے۔
جب تک مسلمانوں نے اﷲ تعالیٰ کے حکم اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کو
اپنائے رکھا اس وقت تک وہ سیاست سے سفارت تک، معیشت سے ادب تک، گھر سے
معاشرے تک ہر ہر میدان میں کامیاب ہی رہے، ہر جگہبطور مثال پیش ہوئے۔ دنیا
کی بیشتر اقوام نے مسلمانوں سے سیکھا اور ان کی طرز زندگی کو اختیار کرنے
کی کوشش کی۔ مسلمانوں کے شہری و رفاہی نظام و قوانین کو اپنایا اور جب
مسلمانوں نے اپنے دین اپنے نبی کی تعلیمات کو چھوڑ کر دوسروں کی چکا چوند
سے متاثر ہوئے۔ انہیں اپنے نظاموں کے بجائے دوسروں کی نقالی اچھی لگنے لگ
گئی تو پھر وہ وقت مسلمانوں کے عروج کی انتہاء اور زوال کی ابتداء بنا۔ آج
مسلمان اگر دنیا میں دوبارہ سے سرخرو ہونا چاہیے ہیں تو انہیں دوبارہ سیرت
کی تعلیمات سے استفادہ کرنا ہو گا۔ اب ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ اسلامی
شعائر اورسیرت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ملک کے طول و عرض میں قرآن
وحدیث کی تعلیمات پر مبنی ایسی ہی منفرد پروگرامات منعقد کریں۔ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنی زندگی کو ڈھال لیں۔ سنت کے مطابق
زندگی گزاریں۔ ایسا نہ ہو کہ دین کا بعض حصہ جوہمیں اچھا اور آسان لگے اس
پر عمل کر لیں۔ یا سنت کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر ایک نئے سانچے
میں ڈھال لیں۔ یا اپنی نفسانی خوہشات کو سنت پر ترجیح دے دیں۔ یا نبی ؐ کی
ذات اور فرامین کو چھوڑ کر کسی امتی یا کسی دوسرے مذہب والے کی اتباع شروع
کر دیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں ایک ایک سنت پر عمل کرنا چاہیے،
یہی سیرت کا پیغام اور نبی ؐ سے محبت کی سچی دلیل ہے۔
میری سیرت سے محبت رکھنے والے تمام افراد سے گزارش ہے کہ وہ بھی سیاست و
حکومت، دولت و اقتصاد، معاشرتی و خانگی معاملات، انسانی و بین الاقوامی
تعلقات کے حوالے سے سیرت کے تمام پہلو نمایاں کرنے کے لیے اسی طرز کے
پروگرامات کا انعقاد کریں اور اپنے مطالعہ و تعلیمی نصاب اور مختلف
اجتماعات و مجالس میں قرآن و سنت سے حامل سیرت النبیﷺ کو سرفہرست رکھیں
کیوں کہ اسی میں لوگوں کی اصلاح و تربیت ہے اور اس میں ہماری دنیاوی
کامیابی اور اخروی نجات ہے۔
٭……٭……٭……٭
|