محسن قوم

اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کا کوئی قانون نہیں توڑا تھا۔ وہ اس قوم کے محسن اور ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ غلط تھے پاکستان نے این پی ٹی معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کوئی ملکی قانون نہیں توڑا تھا۔ یہ صرف ایک آمر کی کاروائی تھی جو اپنے اقتدار کو بچانے اور امریکی حمایت کے حصول کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ٹی وی پر لے کر آئے اور ان سے زبرستی بیان دلوایا۔ مشرف نے امریکہ کو یقین دلایا کہ میں آپ کا بہترین خادم ہوں۔ دنیا کے نقشہ پر پاکستان پہلا مسلمان ملک ہے۔ جس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ بھارت، اسرائیل، ساؤتھ افریقہ، ایران، شمالی کوریا جیسے ملکوں نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لئے دنیا کے کسی نہ کسی ملک سے تو تعاون حاصل کیا ہی ہوگا۔ یہ قانونی طور پر ہوا یا غیر قانونی طور پر یہ ایک جدا بحث ہے۔ اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے سلسلے میں برطانیہ نے مدد کی امریکہ آج بھی اس کی پشت پناہی پر کھڑا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے۔ جس نے اپنے سائنسدانوں کے ساتھ یہ حشر کیا ہو۔ پرویز مشرف نے جو جرائم کئے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر قدیر کی توہین کا سنگین جرم بھی شامل ہے۔ جو پوری قوم کی توہین کے مترادف ہے۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا نا ضروری ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کئی ممالک کو غیر قانونی طور پر فراہم کرنے کے الزام میں چار برس سے زیادہ کا عرصہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے گھر پر نظر بندی میں گزارا۔ سنہ دو ہزار چار میں ڈاکٹر قدیر سے سرکاری ٹیلی ویژن پر زبردستی نشر کروائے جانے والے بیان میں کہلوایا گیا تھا کہ ایٹمی راز منتقل کرنا ان کا ذاتی فعل تھا اور اس میں حکومت یا اس کا کوئی ادارہ ملوث نہیں تھا۔ جس کے بعد سے اسیر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل وحمل اور میل جول پر پابندیا ں عائد کردی گئی۔ جو بعد میں نئی حکومت کے آنے اور عدالت سے ملنے والے ریلیف کے نتیجے میں ان کی رہائی پر ختم ہوئی۔

یورپی اور امریکی دنیا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ایک عرصے سے سازش کے انداز میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اور اکثر یہ خبریں گردش میں رہتی ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور جوہری ہتھیار غیر محفوظ ہیں، اور یہ کسی بھی وقت شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، جسے ایک خام خیالی، یا چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کا پروگرام محفوظ اور ذمہ دار ہاتھوں میں ہے۔ اور اب تک ہمارے سائنسدانوں نے اس بارے میں انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔

امریکی سفارت خانے نے حال ہی میں اسلام آباد میں سفارت خانے کے لئے حکومت سے ۸ا ایکڑ زمین اور ۵ا سو سے زیادہ میرین رکھنے کی درخواست کی ہے۔ جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہونی چاہیئے۔ کیوں کہ اس طرح پاکستان کا ایٹمی منصوبہ براہ راست خطرے کا شکار ہوجائے گا۔ پاکستان میں توانائی کے حالیہ بحران میں بھی یہ بات پوشیدہ ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی پرامن مقاصد اور توانائی کے حصول کے لئے ایٹمی بجلی گھر بنانے اور چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور کراچی میں قائم ایٹمی بجلی گھر پر ہمیشہ شک و شبے کا اظہار کیا گیا۔

اس کے برعکس سابق سوویت یونین کے ایک شہر چر نوبل کے ایٹمی مرکز میں فنی خرابی پیدا ہونے سے ۶۸۹۱ء میں دھماکہ ہوا تھا جس کے بعد وہاں سے ایٹمی تابکاری پھیلنے کا عمل شروع ہوا۔ اس کے تباہ کن اثرات اب تک رونما ہو رہے ہیں۔ چرنوبل کے ایٹمی ری ایکٹر کے چاروں طرف ایک وسیع علاقہ (جو انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے مشترکہ رقبہ کے برابر ہے) ایسی تباہی سے دو چار ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چرنوبل کا نام اس سزا کی علامت بن چکا ہے جو ترقی (پروگریس) کی بے قید خواہش کا لازمی نتیجہ ہے۔ اندازہ ہے کہ ۶۸۹۱ء کے اس حادثہ سے اب تک ۰۹لاکھ انسان متاثر ہو چکے ہیں۔ تابکاری سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں پر ابھی تک تباہ کن اثرات کا عمل جاری ہے۔ چرنوبل کے قریب کے علاقے سے چار لاکھ افراد کو ان کے گھروں سے نکالا گیا اور اگلے۰۳ برس تک یہ لوگ واپس اپنے گھروں کو نہیں گئے۔ اس امر کی واضح شہادتیں موجود ہیں کہ بیلور شیار اور یوکرائن کے لوگوں کو ایٹمی بابکاری کے نتیجہ میں خطرناک بیماریاں لاحق ہوگئی جن میںمختلف اقسام کے کینسر بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنس کی دنیا میں اس صورت حال کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی (جاپان کے وہ شہر جن پر امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹم بم پھینکے تھے) کے سلسلہ میں جو تجربات حاصل ہوئے تھے وہ اس تابکاری کے معاملہ میں کسی کام کے نہیں ہے۔ ناگا ساکی اور ہیرو شیما میں ہونے والے دھماکوں کے دوران ایک مختصر گھڑی میں تابکاری کی بہت بڑی مقدار خارج ہوئی تھی، جبکہ چرنوبل کے حادثہ میں خارج ہونے والی تابکاری کی کل مقدار ان دو ایٹم بموں کی تابکاری کی مقدار سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس کا اخراج آہستہ آہستہ اور بتدریج ہوا بچوں پر اس تابکاری کے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔ ان میں Thyroidکینسر کی بیماری میں ڈرامائی اضافہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کا کوئی سراخ نہ مل سکا۔ بہر حال جو اعداد و شمار معلوم ہوسکے ہیں۔ ان کے مطابق صرف رشیا (سودیت یونین کی ایک ریاست میں جن لوگوں کی موجودگی کا پتہ چل سکا ہے۔ ان میں سے حادثہ کے بعد ۰۰۰۷مر چکے ہیں اور ۸۳فی صد ایسے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ سوویت یونین کے سابق اکائیاں، بیلور شیا، رشیا اور یوکرائین اس حادثہ کے سبب پیدا ہونے والے مسائل اپنے محدود وسائل کی وجہ سے حل نہیں کر سکتے۔ بیلور شیامیں چرنوبل کے اس حادثہ کے سبب جو اقتصادی اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ان پر اس ریاست کے سالانہ بجٹ کا پانچواں حصہ خرچ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کا بہت بڑا رقبہ کسی کام کا نہیں رہا۔ وہاں کھیتی باڑی ہو سکتی ہے۔ اور نہ ہی مکانات تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔

یہود ونصاریٰ کی روائتی اسلام دشمنی کے پس منظر میں پاکستان کے بارے میں اسرائیل کے عزائم بالکل واضح رہے ہیں۔ اسرائیل کے بانی وزیراعظم ڈیوڈبن گوریاں نے 1967ء میں سوربون یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کے نزدیک پاکستان عربوں سے بھی خطرناک ہے اور ہم اسے صرف نظر نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ہمیں پاکستان کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ یہ تقریر 9اگست 1967ء کے جیوش کرانیکل، لندن میں شائع ہونے والے یہود کے باقاعدہ ترجمان میں شائع ہوئی تھی۔ بن گوریان نے مزید کہا کہ اسرائیل نے دفاعی حیثیت سے ایک بڑی طاقت عمل تشکیل دی ہے۔(جس کا باقاعدہ مظاہرہ سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر مغربی ذرائع ابلاغ اور بنگلا دیش کے قیام کے لیے انکی تنظیموں وغیرہ کی کارکردگی سے ہوچکا ہے)۔ یہاں تک جیوش کرانیکل نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والے جنرل جیکب کے یہودی ہونے کی اطلاع اپنے پرچے کے ذریعے دنیا کو دی اور اس کے اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں آگاہ کیا۔ 73ء میں پاکستان نے عرب اسرائیل جنگ میں جس طرح عربوں کی اور خصوصیت سے شام کی فضائیہ کی انتہائی نازک موقع پر عملی طورپر مدد کی تھی ۔ اسکی یاد شام کے ایئر پورٹوں پر لگی ہمارے شہید پائلٹوں کی تصاویر سے اب تک تازہ کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کو اپنے خدشے کی مزید تائید اس صورت میں حاصل ہو گئی تھی۔ پھر شام کے علاوہ اردن اور سعودی عرب میں ہمارے فوجی مشن کی موجودگی فلسطینوں کی حمایت سے ہمارا تعلق بہت واضح ہوگیا تھا۔۔۔ یہ بھی یقیناً اسرائیل بہت اچھی طرح جانتا ہے چنانچہ اس نے بعض جملوں کے ذریعے پاکستان کے بارے میں محض اظہار پر اکتفا نہیں کی بلکہ عملاً اپنی حکمت عملی کا ہدف ہمیں بنایا۔ اس نے ہمارے دشمن انڈیا سے خصوصی تعلقات قائم کیے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان تعلقات اور معاہدوں کو حال ہی میں بہت وسعت دی گئی ہے۔ یہود وہنود کی مشترکہ حکمت عملی کے لیے بے حد کام کیا گیا ہے۔۔ ان تعلقات پر جواہر لال نرویونیورسٹی (دہلی) میں ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا گیا ہے۔

پاکستان نقطہ نظر سے ایک کتاب THE UNHOLY ALLIANCE (عالم اسلام کیخلاف ہند اسرائیلی تعاون پر ) محمد حامد صاحب کی لکھی ہوئی جون 1978ء میں شائع ہوئی۔ اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی کے ریسرچ مصباح الاسلام فاروقی مرحوم نے صہونیت کے عالم اسلام کے خلاف اس کے عزائم کو واضح کرنے کیلئے عالم اسلام میں پہلی مرتبہ کام کیا اور اسے ایک کتاب کی شکل دی۔ jewish conspiracy اس کا اردو میں ترجمہ بھی شائع ہوا تھا۔ بدقسمتی سے ایوب خان کے دور میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ بعد میں شدید دباﺅ کے تحت ہی یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔ فری میسن لاج پر جو عالمی جہموریت کا ایک حصہ ہے پر پاکستان میں پابندی لگا دی گئی۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران جب قادیانی خلیفہ مرزا ناصر قومی اسمبلی کی کمیٹی میں پیش ہوا تو اس الزام سے انکار کیا کہ قادیانیوں کا کوئی مشن اسرائیل میں ہے۔ لیکن 1971ء میں اسرائیلی مذاہب کے بارے میں ایک کتاب اسرائیل سے شائع ہوئی۔ جس میں بتایا گیا کہ اسرائیل میں اسوقت 600 پاکستانی قادیانی موجود ہیں۔ اور انہیں مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ بھی واضح طور پر تحریر تھا کہ قادیانی اسرائیلی افواج میں شامل ہو سکتے ہیں۔ (جبکہ اسرائیل میں موجود عرب مسلمانوں کو اسرائیلی فوج میں داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ )ڈان کراچی (17اگست 1970ﺀ) میں تحریر کیا گیا۔ پچھلے چند برسوں سے امریکہ ، یورپ اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کے ایٹمی تحقیق کے پروگرام کو شک اور تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے اسرائیلی لابی کے لوگوں نے مغربی ڈپلومیٹس کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کہ مسلم ممالک میں پاکستان ہی ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اس امر کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ امریکی حکومت نے پاکستان کے ایٹمی ترقی کے پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم رکھی ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل نواز حلقوں نے پاکستان کے خلاف تیزی سے مہم شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ نے ۶۷۹۱ ہی میں فرانس پر دباﺅ ڈالا کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی مدد نہ کرے۔ کارٹر انتظامیہ نے کسنجر کی لائن پر چلتے ہوئے پاکستان کی اقتصادی امداد بند کردی صرف اس بات کی سز ا دینے کیلئے کہ پاکستان کیوں فرانس سے ری پرسسنگ پلانٹ لے رہا ہے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جاری مہم کو جو کئی برسوں سے جاری ہے۔ اب ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں پیش رفت کے لئے کراچی کا ایٹمی بجلی گھر شروع کیا تھا۔ لیکن پاکستان کے دشمنوں نے اسے اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔ جس کے نتیجے میں یہ ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو درمیانے درجے کی ایٹمی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس کا یہ سلسلہ کامیابی سے جاری ہے۔ اس نے اب ذمہ دار جوہری سائنسدانوں کی باقاعدہ ٹیم تیار ہے۔ جو اپنے ایٹمی پروگرام کو چلانے اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک افواج بھی اپنے اس صلاحیت اور ذمہ داری سے واقف ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کو اس مرحلے پر یہ سوچنا چاہئے کہ اگر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کو پر امن اور توانائی کی سہولتوں کے لئے مواقع فراہم کئے گئے تو یہ ملک نہ صرف امن عالم کی بقا، کے لئے مفید کردار ادا کرسکتا ہے۔ بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی فرنٹ لائن پر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 390668 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More