علم اور ذوقِ سلیم

تعلیم یاثقافت کا مقصد صرف اسقدر ہے کہ ہم میں علم کے سلسلے میں ذوقِ سلیم اور اطوار کے سلسلے میں خوبی پیدا ہو۔ صرف کتابین رٹ لینے اور مختلف نظریات کو یاد کرلینے سے یا کچھ اعداد و شمار اور نامون کو یاد کرلینے سے اور بوقت ضرورت حوالے دے لینے لینا "علم" نہیں ہے۔ بلکہ علم یہ ہے کہ انسان غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سمجھے ، ناپسند کو ناپسند کرے اور قابل قبول چیزون کو اچھا سمجھے۔

اچھی اور پسندیدہ چیزوں سے رغبت اور ناپسندیدہ اور بری چیزوں سے نفرت ہی اصل علم ہے۔ اور یہی علم ذوق سلیم کہلاتا ہے۔ اور اسی ذوق سلیم سے دلکشی جنم لیتی ہے۔ ذوق سلیم اور جراتؑ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ گویا بصرت ، عرفان اور شعور حقیقی ، اور جرآت و بیباکی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ایسے ذوقِ سلیم رکھنے والے جرآت مند طالبعلم کبھی کسی مصنف اور مفکر کے نام سے متائثر نہیں ہوتے، بلکہ وہ خود اپنے ذوقِ سلیم و بصیرت کی کسوٹی پر پرکھ کر کسی مسئلہ کی راستی اور حسن و خوبی کو تسلیم کرتے ہیں ، اور یہی وہ صحیح وجدان ہے، جو عالم حقیقی اور طالبِ فطرت کی اصل پہچان ہے۔

قانون فطرت کے پیروکار تنہاء رہتے ہیں اور تنہائی محسوس نہیں کرتے ، ہجوم میں رہتے ہیں ، تو ہجوم کے شور سے پریشان نہیں ہوتے، وہ 32 بتیس دانتوں میں زبان کیطرح رہتے ہیں، دنیا کے انتھائی کثیف مقامات اور گناہ کی اتھاہ گہرائیون میں بھی رہ کر وہ کنول کے پھول کیطرح الگ تھلگ اور پاک رہتے ہیں۔ اور عرفان و آگہی کی منازل کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ اور اپنی منزلِ مقصود کو پا لیتے ہیں۔ اور اُنکے ادوار صدیون پر مُحیت ہوتے ہیں۔ انکا یہی ذوقِ سلیم جب ذوقِ آگہی میں تبدیل ہوتا ہے ۔ تو وجدان و بصیرت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ جو انہیں دوسرون سے بلنداور منفرد بناتے ہیں۔ اور انکے منہ سے نکلا ہو ا ہر لفظ اور جملہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسے لوگون کی راہنمائی کے لئے قدرت، عرفان و آگہی کے دروازے کھولتی دیتی ہے۔ اور کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیتی۔

آج ہم جس علم سے فائیدہ اُٹھا رہے ہیں، یہ انہی شخصیات کو چھوڑا ہوا ورثہ ہے۔ جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں متحرک نظر آتا ہے۔ چاہے وہ سائینس ، فزکس، ریاضی، فلکیات، ارضیات، نفسیات، معاشیات، سماجیات، یا طب ِ ، سرجری، کا علم ہو یا اخلاقیات، ادبیات، سوزو سخن کا علم ہو۔ ذوقِ سلیم کی مرہون منت ہی نظر آتا ہے۔جسے حضرت علامہ اقبال نے ان اشعار میں جاویدان کر دیا ہے۔
ہزاروں سال نرگس انوری پے روتی ہے۔ پنی بے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے ، چمن میں دیدہ ور پیدا۔

فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 20647 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More