آج کل طالبان کا ایشو بہت مشہور ہے یا یوں کہیے کہ آج کل
کا ہوٹ ایشو ہے۔اور اس حوالے سے لوگوں میں چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ آیا
مذاکرات کامیاب ہوں گے کہ نہیں۔ کیا حکومت طالبان کے تمام مطالبات مان لے
گی۔ یا پھر طالبان آئین پاکستان کو مان لیں گے؟ اور اگر مان لیں گے اور
مذاکرات کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو کیا پھر شریعت جو طالبان نافذ کرنا
چاہتے ہیں اور جس کے لیے طالبان کی جانب سے ملا فضل اللہ کا نام سامنے آیا
ہے کہ پاکستان کے خلیفہ ہوں گے اور ان میں اس کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں،
تو آئین پاکستان کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ لیکن ایک کنفیوژن اب بھی موجود
ہے جو شاید لوگ سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ ہے کہ حکومت کے لوگ ہی حکومت سے
مذاکرات کر رہے ہیں ۔ وہ لوگ جو اس وقت حکومت میں شامل ہیں یا پھر ایوانوں
میں موجود ہیں جیسا کہ مولانا سمیع الحق صاحب جو کہ جماعت اسلامی سے تعلق
رکھتے ہیں۔ تو پھر طالبان کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی میں طالبان کا کون سا
بندہ براہ راست شامل ہے؟ اب ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ یہ طالبان جو اس
وقت شریعت کی بات کر رہے ہیں وہ دراصل سی آئی اے کی پیداوار ہیں اور سی آئی
اے ہی ان کو کنٹرول کر رہی ہے۔ میاں صاحب اس وقت سمجھنے سے شاید قاصر ہیں
کہ جب تک ان لوگوں کو ملک سے باہر نہیں نکالا جائے گا تب تک اس ملک میں امن
قائم نہیں ہو سکے گا۔۔
اس وقت سی آئی اے اس قدر ہماری صفوں میں گھس چکی ہے کہ ہم لوگ سمجھ نہیں پا
رہے۔ یہ سارا ڈرامہ جس میں مذاکرات شامل ہیں یہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ
لوگوں بٹ جائیں اور کنفیوز ہو جائےں جو کہ لوگ ہو چکے ہیں۔ '' ماہر نفسیات
تھیورڈ ایڈورڈ نے کہا تھا کہ میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہمارے ہاتھ لگا ہے جس
سے ہم لوگوں کو ذہنی اور عقلی پستی پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اب جو سوچ یا
مخصوص کام کرنا ہو اس کو رائے عامہ کا نام دے دیں پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا
ہے۔آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے''
اب وہ لوگ جو میڈیا میں موجو د ہیں اور بڑے بڑے نام رکھتے ہیں یا پھر وہ
میڈیا مالکان جو پیسے لے کر یا یوں کہیں کہ ڈالر پر چل رہے ہیں اور وہ ٹی
وی چینل جو اپنے پروگرام ڈالر کے عوض بیچ دیتے ہیں یا وہ کالم نگار جو
مخصوص سوچ لوگوں پر مسلط کر رہے ہیں وہ کیسے ان بڑے چینل یا پھر اپنے کالمز
میں سی آئی اے کے خلاف لکھ سکتے ہیں۔ وہ کیسے لوگوں کو سچ بتا سکتے ہیں۔ ان
کا کام ہی لوگوں کو کنفیوز کرنا ہے۔ آج کل ہر چینل پر طالبان کی بات چل رہی
ہے۔ہر کوئی مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا رونا رو رہا ہے ۔ اور یہ حالت
ہو گئی ہے کہ اینکرز کے سوالات اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب سمجھنے کی بات
یہ ہے کہ ایک طرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ ہو رہا ہے ، دوسری طرف
پشاور میں دھماکے ہو رہے ہیں، تیسری طرف امریکہ ایک اور حملے کی دھمکی بھی
دے رہا ہے۔اور پھر چوتھی طرف میڈیا کنفیوژن پھیلا رہا ہے۔ ان چار باتوں پر
توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ''ہمارے پیارے آقا ؐ نے فرمایا کہ قیامت کے قریبی
دور میں فتنے علما سے نکلیں گے اور ان ہی کی طرف لوٹ جائیں گے اور اس وقت
مسجدوں کی چھت کے نیچے بیٹھے علما بدترین لوگ ہوں گے''
اب سوچ اور فیصلہ آپ پر منحصر ہے۔ |