ہندو انتہا پسند کسی نئے مظفرنگر کی تلاش میں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

تحریر: حبیب اﷲ سلفی

برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے بعد سے بھارت میں ہزاروں مسلم کش فسادات میں لاکھوں کی تعداد میں نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیاجاتا رہا ہے لیکن ہزاروں قاتل درندوں کو ہمیشہ بھارت میں برسراقتدار طبقہ کی مکمل مددوحمایت حاصل رہی ہے۔پچھلے ادوار کی طرح آج بھی جن ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں وہ کھلے عام بے خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں اور پھرسے کسی احمد آباد گجرات اور مظفر نگر کی تلاش میں ہیں۔بھارتی ذرائع ابلاغ کی طرح دنیا بھر میں ہندو مسلم فسادت کے حوالہ سے چشم کشا رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن معصوم بچوں اور عورتوں سمیت مسلم نوجوانوں اور بوڑھوں پر بدترین مظالم ڈھانے والے چونکہ ہندو ہیں ‘ اس لئے کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ کسی مسلمان ملک میں چھوٹا ساکوئی واقعہ ہوجائے تو طوفان بپا کردیا جاتا ہے مگر بھارت میں ہونے والے ان فسادات پر کبھی اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر حقوق انسانی کے عالمی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔بھارت میں مسلمانوں کو قدم قدم پرپریشانیوں کا سامناہے۔ تعلیم و صحت کے میدان میں وہ سب سے پیچھے ہیں۔ عبادات میں ان کو آزادی نہیں ہے۔ہندو انتہا پسند سرکاری دفاتر سمیت چوکوں و چوراہوں میں بھی زبردستی مندر تعمیرکر رہے ہیں اور اس حوالہ سے سرکاری سرپرستی میں بھرپور مہم چلائی جارہی ہے لیکن مسلمانوں کیلئے نئی مساجد تعمیرکرنا تو درکنار‘ جو پہلے سے بنی ہوئی ہیں ان کا تحفظ کرنابھی انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔بابری مسجد سمیت سینکڑوں مساجد اب تک شہید کی جاچکی ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی مسجدکی جگہ ماضی میں مندر ہونے کا دعویٰ کر دیا جاتا ہے اور پھر فسادات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سی مساجد ایسی ہیں جنہیں تاریخی ورثہ کے نام پر محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ وہاں مسلمانوں کو تو اندر داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ہندو انتہا پسند وہاں آزادی سے نا صرف آتے جاتے ہیں بلکہ وہاں بیٹھ کر ہی مسلمانوں کے قتل عام کی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں۔بی جے پی ، کانگریس اور دیگر تنظیمیں ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کر کے ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں اور اب جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں مسلمانوں کے دل لبھانے کیلئے فریب دہی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے ۔ ایک پارٹی مسلمانوں کے زخم پرنمک چھڑکتی ہے تودوسری پارٹی کے لیڈران مرہم پٹی کے ساتھ اپنے آپ کوماضی کا محسن اورمستقبل کے رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں اوران کے خیرخواہ بن کر ووٹوں کی بھیگ مانگتے پھرتے ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی بھی اب کہہ رہا ہے کہ گجرات میں ترقی کیلئے ہم ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو پہیوں کی طرح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرا رویہ ہے جو بی جے پی وغیرہ نے اختیا ر کر رکھا ہے۔ تاریخی حقائق کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ بی جے پی درحقیقت ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا ہی سیاسی ونگ ہے۔ اور اس کی چھتری تلے ہی خونی کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں۔

آر ایس ایس جسے تمام ہندو انتہا پسندوں کی ماں کی حیثیت حاصل ہے‘کا قیام 17اپریل 1926ء کو عمل میں لایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب آزادی کی چنگاریاں شعلہ بن کر ہندوستانی مسلمانوں کوجذبہ جہادسے سرشارکررہی تھی اورمسلمان خصوصاًعلمائے کرام برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہوکر انگریزوں کی گولیوں کانشانہ بن رہے تھے تو ایسے نازک وقت میں اسلامی شناخت کی سرکوبی،مسلم ماؤں‘بہنوں کی عصمتیں پامال کرنے اوربرطانوی اقتدار کی خاطر مسلمانوں کے قتل وخون کا نظریہ پروان چڑھایا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھگوا جھنڈا بنانے کے بعد ترانہ تیار کیا گیا۔ ملیچھ ، زانی ،غیرملکی اورڈاکوسے تشبیہ دیکر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑکرنیکا آغازکیاگیا۔ 1934ء میں اسی آر ایس ایس نے گاندھی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی اورتیس ہزارتنخواہ دار فوجیوں کی ایک خونی جماعت پی ایس پی کے نام سے تشکیل دی جس کے اہلکاروں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔1985ء اور1986ء میں علی گڑھ کی ماؤں‘بہنوں کی عصمتوں کوتارتارکیا گیا۔1987ء میں ملیانہ اور 1989ء میں قتل عام کے دوران بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1992ء میں مسلمانوں کی عظمت کی نشان چارسو سالہ پرانی بابری مسجد کوشہید کردیاگیا۔2002ء مارچ میں فسادات کے دوران ہزاروں ماؤں ‘ بہنوں کواپنی ہوس کا نشانہ بناکرموت کے گھاٹ اتاردیا گیا، مالیگاؤں ، مکہ مسجد، ناندیڑ، ممبئی ٹرین دھماکوں اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث رہیں اور اب حال ہی میں ایک ہندو انتہا پسند ممبر اسمبلی کی جانب سے پاکستانی شہر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے قتل کی ویڈیو کوہندو نوجوانوں کی کہہ کر فیس بک پر اپ لوڈ کیا گیا اور پھر مظفر نگر میں بدترین مسلم کش فسادات بھڑکاکربیسیوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس دوران کئی مسلم ماؤں بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، ہزاروں مسلمان اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں مسلمان آج بھی ریلیف کیمپوں میں سخت مشکل ترین حالات میں اپنی زندگیوں کے ایام گزار رہے ہیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، آئی بی، سی بی آئی اور دیگرتحقیقاتی ایجنسیاں اور ادارے جنہوں نے حالات کو کنٹرول کرنا اور امن و امان برقرار رکھنا ہوتا ہے ۔ ان میں بھی بڑی تعداد میں ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت کے لوگوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ صحیح رپورٹیں پیش کرتے ہیں اورنا ہی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مہاراشٹر پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ میں بالکل درست تجزیہ پیش کیا ہے کہ ہندو انتہا پسندی کی جڑیں انٹیلی جنس بیورو کے اندر تک پھیل چکی ہیں اورہیمنت کرکرے کو قتل ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ ا س نے مالیگاؤں بم دھماکوں کے الزام میں سمجھوتہ ایکسپریس کے مرکزی مجرم کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ ٹھاکر، سوامی دیانند پانڈے سمیت کئی ہندو انتہا پسندوں کو نا صرف گرفتار کیا تھا بلکہ ان کے خلاف عدالت میں فرد جرم بھی داخل کی تھی کہ ان سب کا تعلق ابھینو بھارت، جن جاگرن سمیتی اور دوسری ہندو انتہا پسند تنظیموں سے ہے جو انڈیا کو ایک ہندو راشٹر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ بھارتی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہندو انتہا پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے ہی ہندوستان میں مسلم کش فسادات آج تک رک نہیں سکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مسلم نوجوان جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں کوئی ان کی مددکرنے کا تیار نہیں ہے۔ سالہا سال تک ان کی ضمانتیں نہیں ہوتیں اور دوسری طرف کرنل پروہت جیسے دہشت گردوں کو جیل میں بھی حاضر سروس سمجھتے ہوئے تنخواہیں دی جارہی ہیں اور اگر بی جے پی لیڈر اور نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ جیسے دہشت گرد انیس سالہ عشرت جہاں فرضی جھڑپ کیس میں بے نقاب ہو بھی جائیں تو چارچ شیٹ بد ل دی جاتی ہے اور اصل مجرموں کا نام ہی اس میں سے نکال دیاجاتا ہے۔ایسی صورتحال میں مسلم کش فسادات کیسے رک سکتے ہیں؟ ساری دنیاکا میڈیا بھارت میں جاری مسلمانوں کے قتل عام پررپورٹیں شائع کرتا رہا اسے کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ میں بھارت کی یہ صورتحال دیکھتا ہوں تومجھے پاکستان یاد آجاتا ہے کہ جہاں پانچ سال گزر چکے ہیں کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکامگر ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے دیگر ساتھی ابھی تک ممبئی حملوں کے الزام میں جیل میں قید ہیں ۔ بھارت کی طرف سے پہلے حافظ محمد سعید کے خلاف ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا شور مچایا گیا۔ ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس چلتے رہے۔ انڈیا ڈوزیئرز پیش کرتا رہا ۔ہماری سابقہ حکومت کی طرف سے انڈیاکی وکالت کرتے ہوئے وہ تمام چیزیں جو محض میڈیا میں پروپیگنڈہ کی بنیاد پر شائع ہونے والی معلومات پر مبنی تھیں‘ پیش کی جاتی رہیں لیکن عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہیں کیاجاسکا اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں نا صرف باعزت طور پر بری کیا گیا بلکہ صاف طور پر لکھا گیا کہ حافظ محمد سعید یا ان کی جماعت کے کسی فرد کا ممبئی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ممبئی حملوں کے حوالہ سے حافظ محمد سعید کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا تو ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف انڈیا کہاں سے کوئی نئے ثبوت گھڑ کر لے آئے گا؟۔ یہ ایک سیاسی کیس دکھائی دیتا ہے اور مظلوم کشمیری قوم کا مقدمہ لڑنے والوں کو جیل میں بند رکھنے کی وجہ سوائے بیرونی دباؤ کے اور کوئی نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات میں‘ جب پوری دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی بیرونی دباؤ سے آزادی حاصل کرتے ہوئے انہیں فی الفور رہا کرنا چاہیے اور ملکی سلامتی و خودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 211118 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.