رضیہ نے جب سے ہوش سنبھالی
اسے اپنے اردگرد اپنی ماں کے سوا کبھی کوئی رشتہ دار نظر نہ آیا۔ ماں ہی اس
کا باپ، اس کی بہن، اس کا بھائی اور اس کی سہیلی تھی۔ چوہدری صاحب کی اس
حویلی کا زنانہ حصہ اس کی کُل دنیا تھی۔ جہاں سے وہ کبھی باہر نہ گئی تھی۔
ماں جو کام کرتی وہ اس کی نقل کرتی یا ساتھ بیٹھ کر اس کا ہاتھ بٹاتی۔ اب
تو آہستہ آہستہ اسے بھی سب کام آ گئے تھے۔ گھر کی صفائی، برتن دھونا، کپڑے
دھونا اور چھوٹے چھوٹے کام کرنا اسی میں سارا دن خرچ ہو جاتا تھا۔
رضیہ نے اپنے باپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لوگ کہتے کہ چوہدری صاحب سے
ناراض ہو کر گھر چھوڑ گیا تھا پھر واپس ہی نہیں آیا۔ بعض دوسرے لوگ چوری
چھپے یہ بھی کہتے تھے کہ اس نے چوہدری صاحب کی نافرمانی کی تھی تو چوہدری
صاحب نے اسے مروا دیا تھا۔ مگر رضیہ کی ماں نے اس بارے کبھی منہ نہیں کھولا
تھا۔ اس نے اس بارے میں بس چپ سادھ لی تھی۔ وہ بھولے سے بھی رضیہ کے باپ کا
ذکر نہیں کرتی تھی۔ اور رضیہ کو بھی اس نے سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ باپ
کا ذکر نہ کرے۔ دونوں ماں بیٹی نے حویلی سے باہر کی دنیا نہ تو دیکھی تھی
اور نہ ہی کبھی دیکھنے کی خواہش کی تھی۔
رضیہ بارہ سال کی ہوئی تو اس کی ماں بیمار رہنے لگی۔ بیماری کی وجہ سے اسے
رضیہ کے بارے فکر ہوئی کہ اس کے بعد اکیلی بچی کیا کرے گی۔ ایک دن ڈرتے
ڈرتے اس نے چوہدرائن کو کہا کہ وہ رضیہ کی شادی کرنا چاہتی ہے۔ چوہدرائن نے
ہنس کر کہا کہ ایسی جلدی بھی کیا ہے۔ مگر رضیہ کی ماں باز نہ آئی۔ ہر دس
پندرہ دن کے بعد چوہدرائن کو اپنی بیماری کے حوالے سے بیٹی کی شادی کی
خواہش کا اظہار ضرور کرتی۔ ایک دن چوہدرائن نے اس کی خواہش کے بارے میں
چوہدری صاحب کو بتایا تو چوہدری صاحب بولے کہ یہ کون سی مشکل بات ہے۔ دو
تین دن میں شادی ہو جائے گی۔ رضیہ کی ماں نے یہ بات سنی تو بہت مطمئن ہوئی۔
اسے لگا کہ کہ اب وہ سکون سے مر سکے گی۔ دلہا کون ہو گا کیسا ہو گا، جہیز
کی تیاری، اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس ایک یقین تھا کہ چوہدری نے کہہ دیا تو
شادی ہو جائے گی۔
علی پانچ سال کا تھا جب وہ اس حویلی میں آیا تھا۔ حویلی میں آنے سے پہلے وہ
کہاں رہتا تھا۔ اس کا اپنا گھر کہاں تھا، اس کے ماں باپ کون تھے، اسے کچھ
پتہ نہیں تھا پچھلے دس سالوں میں اسے کوئی ملنے بھی تو نہیں آیا تھا جو اسے
اپنا کہتا۔ وہ بہت سادہ اور معصوم تھا۔ شاید اس کی اسی سادگی کی وجہ سے
چوہدری اس سے حویلی کے زنانہ اور مردانہ حصوں میں رابطے کا کام لیتا تھا۔
سارا دن مہمانوں کی خدمت کے بعد رات کو ڈرائنگ روم کے ایک صوفے کے پیچھے
قالین پر سو جاتا اور صبح کو پھر اپنے کام پر لگ جاتا۔ علی نے شادی کے بارے
کبھی کچھ سوچا ہی نہ تھا۔ آج عجیب بات ہوئی۔ چوہدری نے ڈرائنگ روم میں آتے
ہی کہا کہ علی کل تیری شادی ہے۔ منشی کو کہو مولوی کو کہہ دے کل کسی وقت آ
کر تمہارا نکاح پڑھا دے۔ میری شادی؟ اس نے حیران ہو کر چوہدری سے پوچھا۔
ہاں ہاں تمہاری شادی۔ چوہدری نے جواب دیا۔ کس سے شادی اور کیوں؟ ایسے
سوالات پوچھنے کی اس میں جرات ہی نہ تھی۔ مگر پتہ نہیں کیوں شادی کا سن کر
اسے خوشی ضرور ہوئی۔ فرصت ملتے ہی وہ منشی کے کمرے میں گیا اور چوہدری صاحب
کا پیغام دیا۔ منشی نے کچھ سوالات کئے تو اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور شرما
کر وہاں سے بھاگ آیا۔
چوہدری صاحب ڈرائنگ روم میں مہمانوں سے گپ شپ میں مصروف تھے کہ مولوی صاحب
آ گئے۔ چوہدری صاحب نے منشی کو اشارہ کیا اور مولوی صاحب کو لے کر ایک طرف
بیٹھ گئے۔ نکاح سے پہلے دلہا دلہن کے بارے جاننا ضروری تھا جو صرف چوہدری
صاحب کو معلوم تھا۔ منشی نے آہستہ سے چوہدری صاحب کے کان میں پوچھا کہ
دولہا کون اور دلہن کون ہے؟ علی اور رضیہ۔ چوہدری نے جواب دیا اور پھر
دوستوں میں مگن ہو گئے۔ مولوی صاحب نکاح نامہ بھرنے لگے۔ دلہا اور دلہن کے
والد کا نام چوہدری صاحب سے دوبارہ پوچھنا مشکل تھا اور شاید چوہدری صاحب
کو بھی دونوں کا نام معلوم نہ تھا۔ منشی نے مولوی صاحب کی منت کی کہ کچھ
بھی لکھ دو۔ ٹھیک ہی ہو گا۔ علی مولوی صاحب کے سامنے اکڑوں بیٹھا تھا۔
مولوی صاحب سب کچھ کرنے کے بعد دلہن سے پوچھنے جانا چاہتے تھے۔ چنانچہ
زنانہ اور مردانہ حصے کی ڈیورھی میں ماں بیٹی کو بلایا گیا۔ مولوی صاحب نے
جب پوچھا کہ بیٹی رضیہ کیا تمہیں علی بالعوض 32 روپے حق مہر قبول ہے تو
رضیہ ہنسنے لگی کہ ماں یہ کیا کہتا ہے؟ ماں نے جھڑکا بیٹا ہنستے نہیں بس
ہاں کہہ دو۔ چنانچہ اس نے ہاں کہہ دی۔ تھوڑی دیر میں مولوی صاحب مبارک دے
کر واپس چلے گئے۔
یہ عجیب شادی تھی نہ کوئی ڈھول بجا، نہ دلہا سجا، نہ دلہن نے سرخ جوڑا
پہنا، نہ چوڑیاں پہنی نہ مہندی لگائی بس شادی ہو گئی۔ اک رسم تھی پوری ہو
گئی۔ چوہدری صاحب نے اندر جانے سے پہلے علی کو کہا کہ آج تم یہاں نہیں سوؤ
گے۔ فارغ ہو کر رضیہ کے ماں کے پاس چلے جاؤ گے۔ اندر آنے کے بعد چوہدری
صاحب نے رضیہ کی ماں کو کہا کہ ابھی کام سے فارغ ہو کر علی تمہارے پاس آئے
گا۔ باقی تم خود دیکھ لو۔ رضیہ کی ماں نے جلدی جلدی کام کیا اور علی کا
انتظار کرنے لگی۔ جو آج سے اس کا داماد تھا۔
آج پہلی دفعہ رضیہ کی زندگی میں ایک تبدیلی آئی۔ وہ روز بھینسوں والے کمرے
میں اپنی ماں کے ساتھ سوتی تھی۔ آج ماں نے اپنی چادر کمرے کے باہر سیڑھیوں
کے نیچے بچھالی تھی اور کمرے کے اندر چادر پر ماں کی بجائے علی اس کے ساتھ
تھا۔
اگلے چار پانچ سال میں اس کے تین بچے ہوئے اور اس دوران اس کی ماں اسے چھوڑ
گئی۔ مرتے وقت اس کی ماں بہت مطمئن تھی کہ اب اس کی بیٹی اکیلی نہیں اس کا
میاں اور بچے اس کے ساتھ ہیں۔ مرتے مرتے البتہ اس نے علی اور رضیہ کو کہا
کہ بیٹا اگر موقع ملے تو حویلی سے باہر نکل کر اپنے بچوں کو پڑھانا تاکہ وہ
ہماری طرح ساری زندگی کسی چوہدری کی حویلی میں قید اپنی زندگی ضائع نہ
کریں۔ ماں چلی گئی مگر رضیہ اور علی کو ایک نئی سوچ دے گئی۔ اس سے پہلے
انہوں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ وہ حویلی میں قید ہیں۔ ان کی ذہنی زندگی
اس قدر محدود تھی کہ انہیں حویلی سے باہر کی دنیا کا کبھی خیال ہی نہ آیا
تھا لیکن اب وہ ہر وقت باہر کی دنیا کا سوچتے او رجانے کی راہ تلاش کرتے
لیکن باہر جا کر کیا کرنا ہے اور کہاں رہنا ہے یہ سمجھ نہ آتی تھی۔
حویلی میں کام کافی زیادہ تھا اور بچوں کے ساتھ رضیہ کے لئے کرنا کافی مشکل
بنا۔ ماں کے ہوتے تو اسے کچھ مشکل نہ تھا مگر اب چوہدرائن نے خود ہی محسوس
کیا تو سرداراں کو صبح سے شام تک کیلئے ملازم رکھ لیا۔ سرداروں کی صورت میں
علی اور رضیہ کو ایک ایسا رہنما مل گیا جس سے حویلی سے باہر کی دنیا کے
بارے میں کچھ معلومات مل سکتی تھیں۔ رضیہ نے سرداراں سے اپنی خواہش کا
اظہار کیا تو وہ حیران ہوئی کہ آج کی دنیا میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے
حویلی سے باہر کبھی قدم نہیں رکھا۔ سرداراں بہت تیز اور جاندیدہ عورت تھی۔
اسے علی اور رضیہ پر ترس آیا اور اس نے پتہ نہ چلنے کی شرط پر ان کی مدد کا
فیصلہ کیا۔
جس دن رضیہ اور علی نے چوہدرائن کو کہا کہ وہ اب حویلی چھوڑ کر کہیں باہر
جانا چاہتے ہیں تو اس دن حویلی میں گویا بھونچال آ گیا۔ شام کو چوہدری صاحب
نے ان دونوں کو بلایا۔ پیار سے سمجھایا کہ کوئی تکلیف ہو تو بتاؤ مگر جانے
کا مت سوچو۔ رضیہ مگر کسی قیمت پر ماننے کو تیار نہ تھی۔ چوہدری تھوڑی ہی
دیر میں دھمکیوں پر اتر آیا۔ کہ تمہارا باپ میرے پیسے لے کر بھاگ گیا تھا
وہ پیسے کون دے گا؟ تمہاری ماں ساری عمر میرے پاس رہی ہے اس کی رہائش،
کھانے پینے او رپہننے کی جو قیمت بنتی ہے وہ کون دے گا؟ مجھے پتہ ہے کہ تم
نے میرے گھر سے کئی چیزیں چرا کر اپنے پاس رکھی ہیں مگر میں نے کبھی نہیں
پوچھا۔ تم یہ سب چیزیں لوٹا دو اور جو کچھ تم پر یا تمہارے والدین پر خرچ
کیا ہے واپس دے دو تو جہاں چاہے چلے جاؤ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ رضیہ
کو پہلی دفعہ پتہ چلا کہ وہ چور بھی ہے۔ اس کی ماں مرتے وقت اسے نہ کہتی
اور سرداراں اسے راستہ نہ دکھاتی تو وہ حویلی کو ہی اپنا گھر سمجھتی تھی۔
اس کی ہر چیز کو اپنی چیز جس کی حفاظت اس کو اپنی جان سے عزیز تھی۔ اس رات
وہ بہت روئی۔ سادہ دل علی اسے حوصلہ دیتا رہا۔ صبح سرداراں آئی تو اس نے
اسے تمام بات بتائی۔ سرداراں نے اسے وقتی طور پر چپ رہنے اور سب کچھ بھول
کر کام کرنے کو کہا۔ اب یہ حویلی اسے بہت پرائی اور قید خانہ لگتی تھی۔ اس
کا جی چاہتا کہ اڑ کر وہاں سے نکل جائے مگر چوہدری علاقے کا سب سے با اثر
اور انتہائی سفاک آدمی تھا جس سے بچ کر کہیں دور نکل جانا انتہائی مشکل
تھا۔ اس کے پاس تو کوئی پیسے بھی نہیں تھے اور نہ ہی کوئی جاننے والا۔ بس
کوئی امید تھی تو سرداراں تھی۔
کئی مہینے اسی طرح گزر گئے۔ رضیہ کی گھٹن بڑھتی گئی۔ اسے اس قید خانے سے
باہر جانا تھا مگر کیسے؟ اس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ آخر وہ
وقت آ گیا۔ چوہدری اپنی بیگم کے ہمراہ کچھ دن کے لئے گاؤں سے باہر جا رہا
تھا۔ چوہدری کے بچوں کو گھر کے معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چوہدری کے
جانے کے تین دن بعد علی صبح ہی بچوں کو لے کر گھر سے باہر چلا گیا۔ سرداراں
کی ہدایت کے مطابق ٹھیک آدھ گھنٹے بعد رضیہ گھر سے نکلی۔ گھر سے باہر پہلی
دفعہ نکلنا اسے بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں جسم سرد
موسم کے باوجود پسینے سے شرابور تھا اور وہ تیز تیز قدموں سے ایک طرف جا
رہی تھی۔ دور سرداراں ایک دوسری عورت کے ساتھ کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر
سرداراں غائب ہو گئی مگر اس کی ساتھی عورت نے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور
اسے لیتی سیدھی بس اڈے پر پہنچی۔ علی بچوں سمیت ان کا منظر تھا۔ سب لوگ بس
میں سوار ہو گئے۔ وہ عورت سرداراں کی بہن تھی جس نے رضیہ اور علی کو حوصلہ
دیا۔ تھوڑی دیر بعد رضیہ کے حواس بحال ہوئے تو اس نے دائیں بائیں نظر ڈالی۔
یہ ایک نئی دنیا تھی۔ رضیہ اور بچوں کے لئے بڑی عجیب وہ چلتی بس کے اندر
اور باہر اپنے دائیں بائیں دنیا کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ آج کے
اس دور میں بھی پتہ نہیں کتنے علی اور کتنی رضیہ جاگیرداروں اور زمینداروں
کی حویلیوں میں بند قدیم دور کے انسانوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کے لئے انسانی حقوق اور آزادی جیسی باتوں کے کچھ معنی نہیں۔ وہ غلام
پیدا ہوئے اور غلام ہی مر جاتے ہیں مگر اپنے آقا کی وفاداری ہی ان کا ایمان
اور زندگی کا پہلا اور آخری مقصد ہوتا ہے۔
پانچ چھ گھنٹے بعد بس کسی شہر کے بس سٹینڈ پر پہنچی تو سرداراں کی بہن زینب
انہیں بس سے لے کر گھر کو چلی۔ رضیہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس نے بچوں
اور علی کو بہت زور کے ساتھ پکڑا ہوا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اس قدر ہجوم میں
جو اس نے پہلی دفعہ دیکھا تھا کوئی کھو نہ جائے یا وہ ان سے بچھڑ نہ جائے۔
زینب کسی بڑے سرکاری اہل کار کے گھر میں ملازم تھی اور وہیں ان کے سرونٹ
کوارٹر میں رہتی تھی۔ گھر کے باہر دو با وردی اہلکار ہر وقت موجود ہوتے
تھے۔ زینب کا میاں مالک کے بیٹے کی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ سرداراں نے
زینب کو پانچ سو روپے دئیے تھے جو زیادہ تر کرائے میں خرچ ہو گئے۔ اگلی صبح
علی زینب کے میاں کے ساتھ کام پر گیا اور شام کو مزدوری کے دو سو روپے کما
کر لایا۔ دو سو روپے علی اور رضیہ کیلئے ایک بہت بڑی رقم تھی۔ وہ بار بار
ان پیسوں کو دیکھتے اور پھر چھپا لیتے کہ کہیں یہ چھن نہ جائیں۔ زینب انہیں
پیسے خرچ کرنے اور گھر گرہستی کے طریقے بتاتی رہی۔ ہفتے بعد اس کی بچے بھی
سکول داخل ہو گئے۔
سرداراں کا فون آیا۔ چوہدری نے پورے گاؤں میں مصیبت ڈالی ہوئی تھی۔ اس کے
کے آدمی علی اور رضیہ کو ہر طرف ڈھونڈ رہے تھے۔ اسے بھی انہوں نے بہت تنگ
کیا اور بہت پوچھ گچھ کی تھی۔ شاید چوہدری سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رضیہ
اور علی دور شہر میں بس گئے ہوں گے۔ سرداراں نے رضیہ اور علی کو کہیں آنے
جانے میں بہت احتیاط کی ہدایت کی تھی ورنہ ان کے ٹھکانے کا پتہ چلنے پر ان
کے ساتھ ساتھ سرداراں بھی چوہدری کے انتقام کا نشانہ بن جاتی۔
وقت گزرتا گیا۔ دو چار ماہ میں رضیہ اور علی کو معمول کے مطابق جینا آ گیا۔
رضیہ بھی اس گھر میں کام کرتی اور معقول کما لیتی۔ علی مالک کے بیٹے کی
فیکٹری میں مستقل حیثیت سے کام کرنے لگا۔ بچیاں پڑھ رہی تھیں او رجو کچھ
سیکھتیں وہ ماں او رباپ کو بھی سکھا رہی تھیں۔ سرداراں اس کی بہن زینب اور
ان کے دوسرے عزیز و اقارب ہی رضیہ اور علی کے رشتہ دار اور عزیز و اقارب
ہیں۔ سرداراں کبھی کبھار ملنے آتی ہے تو رضیہ اور علی اسے ماں کی طرح
احترام دیتے ہیں۔ سرداراں ایک عظیم عورت تھی جس نے انہیں آزادی سے روشناس
کرایا۔ آزادی جو دنیا کی افضل ترین نعمت ہے اور جس سے وہ نا آشنا تھے،
سرداراں کے وہ مقروض تھے مقروض ہیں اور مقروض رہیں گے۔ سرداراں کے وہ پہلے
دن دئیے ہوئے پانچ سو روپے لوٹانے بھی چاہتے تھے وہ پیسہ لینے سے انکار کر
دیتی۔ اسے انہیں آزاد دیکھ کر جو مسرت ہوتی اس کا شاید کوئی بدل نہیں تھا۔
کوئی قیمت نہ تھی اسے لگتا تھا کہ اس نے پنجرے میں بند دو پنچھیوں کو پنجرے
کا دروازہ کھول کر آزاد فضاؤں میں اڑنے کے لئے آزاد کر دیا ہے اور وہ پرندے
فضا میں اڑتے دیکھ کر اسے ایک ایسی خوشی کا احساس ہوتا جو اس کے اندر سے
پھوٹتی اور اس کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی۔ وہ خوشی جو زندگی میں صرف
انہیں میسر ہے جو لوگوں کے کام آنا زندگی کا مقصد جانتے ہیں۔ |