ویلنٹائن ڈے: یعنی بے حیائی کا مخصوص دن

 تہذیب و عقائد کی ہم آہنگی قوموں کی بقا کی ضمانت ہے ۔کوئی بھی قوم اپنی تہذیب وثقافت اور طرز تمدن سے ہی دنیا میں اپنی امتیازی شان برقرار رکھ سکتی ہے اور عقائد و نظریات کی بنیادوں پر ہی تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اوراگر کوئی بھی قوم اپنی تہذیب و روایات کو چھوڑ کردوسروں کے طرز حیات اور رہن سہن کے طریقے اپنا تی ہے تو وہ دنیا میں اپنی شان کھو بیٹھتی ہیں اپنی روایات بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں اقوام عالم کی تاریخ میں وہ گم نام ہوجاتی ھے صفحہ ہستی پہ اس قوم کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی ہے۔ ہماری قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ۔ ملت اسلامیہ کئی قسم کی خرافات کا شکار ہے ۔ غیر اسلامی اور غیر تہذیبی بیماریوں نے قوم کو اس طرح جکڑ رکھا ہے گویا احساس سود و زیاں بالکلیہ ختم ہوگیا ہے۔
ہر سال14فروری کو دنیا بھر میں خواتین و حضرات Valentine's Day مناتے ہیں جسے اردو میں یوم عاشقاں کہتے ہیں۔اس مخصوص دن میں محبت کا اظہار کرتے ہیں. اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محبت کے اظہار کیلئے کسی سے شناسائی ضروری نہیں۔اس دن شریف غیر شریف ، خاص و عام ، فنکار، اداکار، طالب علم استاد غرض کہ ہرایک کو دوسرے سے محبت کے اظہار کا بین الاقوامی اجازت نامہ مل گیا ۔ چھوٹا بڑا، نوجوان لڑکے لڑکیاں،کالج و یونیورسٹی کے طلبا ء وطالبات اس دن ایک دوسرے کو محبت کے اظہار کیلئے پھول ،تحفے تحائف اور کارڈز بھیجتے ہیں۔محبت کے اظہار کا یہ کھیل میاں بیوی یا شادی شدہ رشتوں کی بجائے غیر شادی شدہ افراد کے مابین زیادہ زور شور سے کھیلا جاتا ہے۔ اس دن منچلوں اور دل پھینک عاشقوں کی جانب سے نہ صرف رقص و سرور کی محافلکا انعقاد کیا جاتا ہے بلکہ فحش اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا بھی باقائدہ انتظام کیا جاتا ہے۔یعنی اس دن بے شرمی اور بے حیائی کے وہ مظاہرے کئے جاتے ہیں جسے دیکھ کر غیرت و حمیت سر پیٹ کے رہ جاتی ہے۔

ویلنٹائین ڈے کے فروغ میں جہاں میڈیا اور لبرل فاشٹ بڑا کردار ادا کرتے ہیں وہاں ملکی و غیر ملکی کمپنیاں بھی کارڈز اور پھولوں کی فروخت کی مد میں ملک سے برا سرمایا سمیٹنے میں مصروف عمل ہوتی ہیں اور آج کے اس کمرشیل دور میں اس دن کو ایک تجارتی دن کے طور پر پروموٹ کر کے معاشرے کے اخلاقی پہلو کو تباہ کرتی ہیں۔خلاصہ یہ کہ تمام عوام مل کرمحبت کے اظہار کے نام پردراصل معاشرے کی بربادی کا سبب بنتی ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ یورپ کی اس فحش تہذیب اور یوم عاشقاں کو فروغ دینے میں مسلم ممالک اور اسلام کے نام لیوا سر فہرست ہیں کیا وہ قوم جس کا مذہب بمام شعبہائے زندگی پر مشتمل ہے جس کی تعلیمات نے تمام خیر وشر کی صاف لفظوں میں وضاحت کردی ہے یہود ونصاری کی نقالی سے جس قوم کو سختی کیساتھ منع کردیا گیا ہے جو قوم زوال وانحطاط کی شکارہے اپنے پرشکوہ ماضی ہراروں کیلوں میٹر دورجاچکی ہے کیا وہ قوم اس قسم کی فضولیات اور خرافات کی متحمل ہو سکی ہے؟؟۔ کیا اس قوم کی تہذیب اور روایات اسکی اجازت دیتی ہیں؟؟۔ کیااس قوم کا مذہب اسلام اس فحش ، غیر اخلاقی اور فضول رسم یا تہوار کی اجازت دیتا ہے؟؟؟۔بقول شاعر، ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟

مذہب اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے. کسی بھی قسم کی فضولیات، خرافات اور بے حیائی پر مبنی سرگرمیوں کی صراحتا نفی کرتا ہے۔اﷲ قرآن کی سورہ نور میں فرماتا ہے، مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،یہی انکے لئے پاکیزگی ہے،لوگ جو کچھ کریں،اﷲ سب سے باخبر ہے۔اور مسلمان عورتوں سے بھی کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔سورہ نور کی ایک اور آیت کے مطابق، وہ لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں،انکے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے-

حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے،لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا اﷲ کی قسم!کبھی نہیں، ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی ، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اﷲ کی قسم!کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا
اﷲ کی قسم!کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اﷲ کی قسم!کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اﷲ کی قسم کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنادست مبارک اس کے جسم پر رکھا اوردعاء کی کہ اے اﷲ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2259۔

حضرت ابو بکرصدیق رضی اﷲ نے روائت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ برائی دیکھیں اور اُسے بدلنے کی کوشش نہ کریں،ظالم کو ظُلم کرتے ہوئے پائیں اور اُسکا ہاتھ نہ پکڑیں،تو قریب ہے کہ اﷲ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے، قسم تُم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حُکم دو اور برائی سے روکو،ورنہ اﷲ تُم پر ایسے لوگ مسلط کریگا جو تُم میں سے بدتر ہونگے،اور وہ تُم کو سخت تکلیف دیں گے۔پھر تہارے نیک لوگ اﷲ سے دعا مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوگی۔ صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کے مطابق نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں)یہود و نصاری(کی قدم بقدم)پیروی کروگے۔اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہونگے تو تم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔۔

اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی ایسی غیر اخلاقی حرکات کی قطعا اجازت نہیں۔۔۔۔عیسایت کے پیروکار ممالک بھی ایسے شرمناک اور تہذیب کے قاتل تہوار کو رواج دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ فرانس نے ایک موقع پر اس لغو تہوار کو1776 میں ممنوع قرار دے دیا اور اٹلی،ہنگری، آسٹریلیا اورجرمنی نے بھی اس فحش رسم سے پیچھا چھُڑا لیا جبکہ انگلینڈ میں پیٹرسن کے دور حکمرانی تک اس پر پابندی رہی مگر چارلس دوئم نے اپنے رُمانوی ذوق کی بنا پر اسے دوبارہ ہوا دی۔۔ایک عیسائی روایت کیمطابق "خدا کی مرضی یہ ہے کہ تم پاک بنو یعنی حرامکاری سے بچے رہو")تھسلینکیوں باب4آیت3(
دوسری روایت، اور جیسا کہ مقدسوں کو منسب ہے تم میں حرام کاری اورکسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کاذکر تک نہ ہو۔)افسیوں باب5آیت3.

ایک دوسری جگہ اسطرح ہے سدوم او عارہ اور انکے آس پاس کے شہر جو انکی طرح حرامکاری میں پڑ گئے اور غیر جسم کی طرف راغب ہوئے، ہمیشہ کی آگ میں گرفتار ہو کر جامی عبرت ٹھہرے ہیں۔)یہودہ باب1آیت7(

مندرجہ بالا روایات سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کا ہرمذہبی حلقہ کسی فحش اورلغو پر مبنی سرگرمیوں کی قطعی نفی کرتا ہے۔یہ مذہب سے مفرور ،اخلاق
 کے دشمن اور روایات سے باغی اور تخریبی اذہان کی کاروائیاں دنیا کی مثبت تہذیب اور طرز حیات کے خلاف کُھلی جنگ ہے۔۔۔۔۔ اگرچہ مغرب نے اپنی الحامی کتابوں کے برعکس اپنے مذہب سے بیگانگی اختیار کرتے ہوئے خرافات پر مبنی دنیا میں ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈال دی ہے۔۔۔تو کیا ہم بھی انکی پیروی میں اندھے ہو کر اپنی سماجی و مذہبی روایات اور طرزوتمدن سے رُوگردانی کریں گے؟؟؟ کیا ہم بھی انکی اندھی تقلید کرتے ہوئے اخلاقیات کا جنازہ نکالیں گےء ؟؟؟؟ کیا ہم بھول گئے ہُم دنیا کے عالمگیر مذہب دین اسلام کے داعی اور دنیا میں آنے والے تمام نبیوں کے سردار نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔۔کیا اتنی شان و شوکت کے حامل ہم اس قدر غلیظ اور گھٹیا کام میں اپنی جوانی اور بڑھاپا صرف کریں گے۔ ۔۔اﷲ نے عقل و خُرد جیسی بڑی نعمت سے نواز کر انسان کو جہاں دیگر مخلوقات سے بلند کیا ہے وہاں نبی آخر الزماں کا اُمتی بنا کر مسلمان کو ممتاز مقام دیا ہے۔۔۔۔اب دینی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم شرم و حیا کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کے اُمتی ہونے کی لاج رکھیں۔ورنہ بخاری شریف میں نبی اکرم کا قول ہے کہ، جب تجھ میں شرم نہ رہے تو جو چاہے کر۔

آئے ذرا بے حیائی کے لئے مخصوص اس دن کی تاریخی حیثیت پہ بھی ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں۔یوم عاشقاں کے حوالے سے کیتھو لک انسائیکلو پیڈیا سمیت مختلف انسا ئیکلو پیڈیا میں یہ تاریخ روم کے دیوی دیوتاؤں کے محبت کی داستانوں کی بنیاد پر مشہور ہے کہ جب روم کے مشرک ویلنٹائن مناتے تھے ۔اسی دوران کسی بادشاہ نے شادی اور عیاشی پرپابندی لگارکھی ایک پادری جس کا نام یلنٹائنز تھا اس نے بادشاہ وقت کے حکم کی خلاف ورزی کر تے ہوئے گرجا گھر میں نوجوانوں کو عیش وعشرت کی اجازت دے اور خود وہ پادری بادشاہ کی بیٹی کے عشق میں گرفتار ہوگیابادشاہ نے حکم عدولی کی پاداش میں پادری کو جیل کی سلاخوں میں بند کردیا اور تختۂ دار پرلٹکانے کا حکم بھی جاری کردیا پادری نے پھانسی سے قبل معشوقہ کے نام ایک خط لکھا تھا جس پر 14فروری کی تاریخ درج تھی۔لوگوں نے عشق و محبت کے جرم میں تختۂ دار پر لٹکنے والے اس پادری کو ہیرو بنادیا اور یہ ویلنٹائنز سے سینٹ ویلنٹائنز بن گیا۔یوں پوری دنیا میں یہ دن وسینٹ ویلنٹائن ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے جہاں نکاح کے بندھن کے بغیر عورتوں اور مردوں کا آزادانہ اختلاط 14،فروری کی تاریخ سے منسوب کیاجاتاہے۔
وضع میں تم ہو نصاری توتمدن میں ہنود
.یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164297 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More