قارئین! آج کا میرا مضمون کوئی
سیاسی یا کسی معاشرتی مسائل کے حوالے سے نہیں بلکہ آج کا میرا یہ مضمون
حضرت محمد مصطفی ﷺ اور عاشقان رسول کے حوالے سے ہے ۔ 1724ء میں بہاول پور
شہر کی کی بنیاد رکھی گئی ۔ وقت کیساتھ ساتھ شہرکی تعمیر وترقی ہوتی رہی ۔
بہاول پور علم و ادب اور دینی حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل شہر ہے جہاں
نوابین بہاو ل پور نے متعدد درسگاہیں بنائیں جو ملک و بیرون ملک سے آئے
طلباء و طالبات کے علم کی پیاس کو پورا کر رہا ہے ۔ اسی دوران میں ملکی و
غیر ملکی طلباء کی دینی تعلیمات کیلئے جامعہ عباسیہ کی بنیاد رکھی گئی جسکے
پہلے مہتمم اعلیٰ جناب حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی ؒ تھے انکی دین پر
دسترس اور فقہ کے حوالے سے مثالی کردار آج بھی ملک و بیرون ملک مانا جاتا
ہے ۔ جناب شیخ الجامعہ گھوٹویؒ نے فتنہ قادنیت کیخلاف بھر پور عدالتی جنگ
لڑ کر قادیانیوں کو کافر قرار دلوایا ۔ اس مشہور ’’ فیصلہ مقدمہ بہاول
پور‘‘ کے تاریخ 1926ء سے 1935ء تک کی ہے جو کہ ہائیکورٹ بہاول پور میں زیر
سماعت رہا۔ ان 9سالوں میں جانب جناب حضرت علامہ غلام محمد گھوٹویؒ نے
انتہائی ثابت قدم رہ کر فتنہ قادنیت کو نہ صرف جڑ سے اکھاڑ پھینکا بلکہ
مسلمانوں کے دلوں کو آنحضرت ﷺ کی محبت سے بھی منور کیا۔
7فروری 2014ء کو اُسی جامعہ عباسیہ میں جہاں کبھی جناب حضرت علامہ غلام
محمد گھوٹویؒ مہتمم ہوا کرتے تھے اور جنہیں موجودہ دی اسلامیہ یونی ورسٹی
آف بہاول پور کا پہلا وائس چانسلر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور علامہ
غلام محمد گھوٹویؒ کی علمی و فکری اور عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے دی
جانیوالی خدمات کے حوالے سے جناب سیّد ظفر علی شاہ گھوٹوی پوتا حضرت
گھوٹویؒ نے اسلامیہ یونی ورسٹی کے گھوٹویؒ ہال میں ہی ایک تقریب کا اہتمام
کرایا جسے شیخ الجامعہ سیمینار کا نام دیا گیا ۔ عاشقانِ رسولؐ کے حوالے سے
سجائی گئی یہ محفل زیر صدارت عزت مآب جناب ڈاکٹر محمد مختار وائس چانسلر
اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور تھی۔ اس روحانی محفل میں سیّد جعفر شاہ مہر
آباد شریف ( لودھراں) پیر سیّد ظفر علی شاہ جامعہ غوثیہ (لودھراں) جو کہ
علامہ غلام محمد گھوٹوی صاحب کے پوتے بھی ہیں جبکہ پروفیسر غلام نصیر الدین
شبلی (اسلام آباد) ‘ محمد صادق قادری (مدینہ منورہ ) ‘ پروفیسر غلام محمد
جی اے حق (اسلام آباد) سٹیج پر براجمان تھے۔ اور انکی درمیان میں رکھی گئی
ایک کرسی خالی تھی جس پر موجودہ وائس چانسلر نے براجمان ہونا تھا ۔
بہاول پور کے شہری اور خصوصاً اخبار بین خواتین و حضرات جانتے ہیں کہ
اسلامیہ یونی ورسٹی میں اتنی پڑھائی نہیں ہوتی جتنی یہاں تقریبات سجائی
جاتی ہیں اونٹ ہوں ‘ پھولوں کی کیاریاں ہوں ‘ مختلف این جی اوز کے سیمینارز
ہوں ‘ مختلف سرکاری اعلیٰ افسران کی آمد ہو یا پھر کوئی وفاقی وزیر کی
خصوصی آمد ہو موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر مختار احمد ہر جگہ پیش پیش ہوتے ہیں
اور یونی ورسٹی کا دوسرا عملہ بھی دوڑیں لگانے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ مگر
اس بابرکت محفل جس میں مسلمانوں کی اپنے نبی پاک ﷺکیساتھ ولولہ انگیز محبت
اور ایک سچے عاشقِ رسولؐ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جانا تھا میں
وائس چانسلر ڈاکٹر مختار احمد کا شریک نہ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ؟
اگر کبھی یونی ورسٹی میں کسی این جی او کی جانب سے کوئی ’’لوشے پروگرام‘‘
ہو تو وائس چانسلر موصوف بڑے ’’انداز‘‘ کیساتھ براجمان ہوتے ہیں مگر چاہئے
صادق چیئر کانفرنس ہو یا کوئی روحانی محفل ہو وائس چانسلر موصوف کی طبیعت
ناساز ہو جاتی ہے اب اس میں کیا مصلحت ہو سکتی ہے یہ تو وہی جانتے ہونگے
مگر یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اسی اسلامیہ یونی ورسٹی کے پہلے وائس
چانسلر کی خدمات کے حوالے سے منعقدہ اس تقریب میں یونی ورسٹی کا ایک بھی
ملازم نظر نہ آیا جو حاضرین محفل کو پانی ہی پلا دیتا مگر میں داد دیتا ہوں
حاضرین محفل اور عاشقانِ رسول کو جنہیں سیٹوں کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود
بلا تفریق و بلا امتیاز حیثیت و مرتبہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آقا دو
جہاںﷺ کی حیات مبارکہ کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کو زمین پر بیٹھ کر نہ
صرف انہماک سے سنا بلکہ فتنہ قادنیت کی ×××× زدگیوں کو بھی پہچانا ۔
قارئین !کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ قرب و جوار میں علم کی شمع روشن
کرنیوالا یہ ادارہ دی اسلامیہ یونی ورسٹی آف بہاول پور کی باگ دوڑ آج ایسے
’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کے ہاتھ آ گئی ہے جو دین کی اہمیت اور اپنے ہی پہلے
وائس چانسلر کی دین کیلئے دی جانیوالی خدمات ‘ سابق ریاست بہاول پور کا نام
اونچا کرنیوالے کو طلباء و طالبات میں روشناس نہ کروا سکے اور یہی نہیں اس
روحانی محفل میں بجائے خود آنے کے ایک پروفیسر کو اپنا نمائندہ بنا کر
بھیجنا باعث شرم ہی نہیں بلکہ ڈوب مرنے کا مقام رکھتی ہے کیونکہ انسان کی
اساس یہی ہے کہ جس دل میں نبی پاکﷺ کی محبت نہیں وہ انسانیت کی معراج کو
نہیں پا سکتا ۔ اس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال میرے دوست اور معروف کالمسٹ
مرزا عارف رشید نے اپنے ایک کالم میں بخوبی لکھ دیا ہے جسکے بعد مجھے اس پر
مزید لکھنے کی ضرورت نہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ گورنر پنجاب و چانسلر
اور وزیر اعظم پاکستان خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے دی اسلامیہ یونی ورسٹی آف
بہاول پور کے معاملات کو دیکھیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ وقت دور
نہیں جب یہ یونی ورسٹی علم و ادب کی شمع روشن کرنے کی بجائے کسی اور
’’ڈگر‘‘ پر چل پڑی گی جسکی تمام تر ذمہ داری موجودہ انتظامیہ ‘ افسران ‘
اہلکاران یونی ورسٹی پر عائد ہو گی ۔ |