مسائل کا حل تلاش کرنا مشکل بھی ہوتا ہے، صبر آزما بھی
اور احتیاط کا متقاضی بھی اور جب مسائل برسوں پر مُحیط ہوں تو یہ سب کچھ
مزید ضروری ہوجاتا ہے۔ پاکستان اس وقت ایسے ہی ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
دہشت گردی نے پورے ملک کو تہہ و بالا کر کے رکھاہوا ہے، آگ اور خون کا ایک
کھیل ہے جو برسوں سے کھیلا جا رہا ہے، ہزاروں جا نیں جا چکی ہیں اور اب بھی
ہر روز جا رہی ہیں، آُ پریشن بھی ہوئے اور مذاکرات بھی لیکن خون بہنا بند
نہیں ہورہا۔ اب ایک بارپھر اس مسئلے کو مذاکرات کی میز تک لایا گیا ہے اگر
چہ یہ سب کچھ خرا بی بیسار کے بعد ہے اور اسی خرابی کو بنیاد بنا کر ایک
خاص نکتہء نظر رکھنے والے ان مذاکرات کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن بات یہ ہے
کہ کیا ہم مزید اتنی ہی خرابی کے لیے تیا رہو جائیں اور آپریشن کو ہی آخری
حل قرار دے دیں یقینااس کو آخری حل ہی سمجھنا چاہیے لیکن اس سے پہلے پُر
امن حل کی ایک آخری کوشش ضروری ہے جس کے سلسلے میں ہی مذاکرات چل رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی اور دھماکے بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں جن میں
اکثر سے تو طالبان براء ت کا اظہار کر رہے ہیں تا ہم کراچی میں پولیس وین
پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول بھی کر لی گئی ہے۔ اس طرح کے واقعات
مذاکرات کے عمل کو متاثر بھی کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ہمارے میڈیا پر بھی
ایک طرح سے کوشش کی جار ہی ہے کہ کسی طرح بات پلٹ کر آپریشن پر چلی جائے
حالانکہ اس وقت میڈیا پر انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ہر موقع پر اور ہر بات
پر تنقید منفی اثرات چھوڑ سکتی ہے ۔ ایسا ضروری نہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب
ہی ہوں لیکن اس کی ناکامی کی پیش گوئیاں کرنا بھی کسی طرح مناسب نہیں ۔ اور
پھر مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کو بُلا بُلاکر ان سے متجسس سوالات کرنا اور
بہر صورت اُن سے جواب لینا یا لینے کی کوشش کر نا تو اور بھی خطرناک ہے ۔
ظاہر ہے کہ دو فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت میں شروع میں خوشگوار
باتیں کم اور نا خوشگوار باتیں زیادہ ہوں گی، ہر بات حوصلہ افزاء بھی نہیں
ہو گی اور اگر ان نا خوشگوار باتوں کو میڈیا پر نشر کیا جاتا رہے تو اچھے
نتائج آ نے کی اُمید کہاں باقی رہے گی۔ آج کل میڈیا جس طرح کی تفتیشی یعنی
انوسٹیگییٹو رپورٹنگ کر رہا ہے اور جس میں نہ ریاست کے اہم امور کواور نہ
ہی رازوں کو راز رہنے دیا جا رہا ہے۔ میڈیا کا یہ کردار اگر بد عنوانی ،
چور بازاری یا معا شرے کی خامیاں اُجاگر کرنے کی حد تک ہوتو قابلِ تحسین
ہے، یہ رپورٹنگ اگر سیاستدان، جرنیل یا بیورو کریٹ کی ذات میں موجود کرپشن
تک محدود ہوتی تو قوم کی خدمت ہوتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے اداروں کو ہدف
تنقید بنایا جا تا ہے اور ملکی رازوں کو یوں طشت از بام کیا جاتا ہے کہ بعض
اوقات محسوس ہوتا ہے کہ کسی دشمن ملک کے راز ہوں اجمل قصاب کی مثال سب کے
سامنے ہے۔ لیکن اس وقت میڈیا کو اپنے کردار پر غور کرنا ہو گا ۔ اول تو
مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکا ن کو ٹی وی ٹاک شوز میں بُلاناہی نہیں چاہیے اور
اگر بُلایا بھی جائے تو اُ ن سے صرف ایسے سوال کرنے چاہیں جو اس تمام عمل
کے لیے خطرناک نہ ہوں لیکن ہو ایسا نہیں رہا ہے طالبان کی طرف سے کمیٹی کے
ایک ممبر نے ایک اینکر سے درخواست کی کہ ان کو میڈیا پر نہ بُلایا جائے تو
بہتر ہو گا اور میرے خیال میں یہ واقعی بہتر ہو گا ۔ اگر یہ مان لیا جا ئے
کہ قوم کو با خبر رکھنا ضروری ہے تو صرف اس حد تک جس حد تک یہ عمل
متاثرہونے کا خدشہ و خطرہ نہ ہو۔میڈیا پر مذکرات کی مخالفت کرنے والوں کو
بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اب جب ایک سلسلہ چل ہی پڑا ہے تو اس کے نتائج کا کچھ
انتظار کر لینا چاہیے ۔ اگر چہ مذاکرات کے بارے میں ہمارا پچھلا تجربہ کچھ
اچھا نہیں ہے اور ملا فضل اللہ کے بارے میں کوئی حسن ظن بھی نہیں رکھ سکتا
کیوں کہ سوات میں اس کا کردار سب کو یاد ہے لیکن اس وقت قوم کو کسی بھی
صورت امن چاہیے۔ ہا ں اگر یہ مذاکرات خدانخواستہ کامیا ب نہ ہو سکیں تو
ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس آخری حربہ آ پریشن کا ہی ہو گا جس کے لیے فوج اور
حکومت یقیناًتیار ہو ں گے لیکن اس وقت یہ ضروری ہے کہ اگر کسی بھی طرح اس
مشکل کو امن کے ذریعے حل کیا جا سکے تو ملک اور قوم کو ایک بار پھر آپریشن
کی آزمائش سے نہ گزرنا پڑے گا ۔ آُ پریشن میں ظاہر ہے صرف مجرم نہیں مارے
جاتے بلکہ عام آبادی بھی کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس وقت اگر
قو م پر یہ مہربانی کی جائے کہ مذاکرات کے عمل کو چلنے دیا جائے اور اسے
کچھ وقت دیا جائے اور یہ سوچ اور سمجھ لیا جائے کہ مسئلہ شدید اور گھمبیر
ہے اور اس لیے وقت لے گا تو بہتر ہو گا ۔ وقت سے مراد سال دو سال ہر گز
نہیں لیکن دو چار دن بھی نہیں ۔ ہاں دونوں کمیٹیوں کو چاہیے کہ اس سارے عمل
کو تیز کیا جائے اور طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ دہشت گرد کاروائیوں سے
باز رہیں ۔قوم کی اکثریت کو شدت پسندوں اور شدت پسندی سے اختلاف ہے لیکن
اگر وہ اس وقت �آ ئین پاکستان کے اندر رہنے کا کوئی معمولی سا عندیہ بھی
دیتے ہیں تو اس کا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اُنہیں مزید اس طرف لانے کی
کوشش کرنی چاہیے نہ کہ ان کے پُرانے بیانات کو غیر ضروری طور پر اُچھال اُ
چھال کر ماحول کو نا سازگار بنایا جائے ۔ الیکٹرانک میڈیا کو اس جنگ میں
سٹیک ہولڈر کا کردار ادا کرنے کی بجائے حالات کو ملکی مفاد کے مطابق ڈھالنا
چاہیے اور یہ سوچ لینا چاہیے کہ کہیں اس کی تھوڑی سی بے احتیاطی قوم کو
مصیبت سے نکالنے کے بجائے اُ سکی تکلیف کو لمبا نہ کردے اور یہ بھی یاد
رکھنا چاہیے کہ اب عوام کے اعصاب اتنے تھک چکے ہیں کہ وہ ہر صورت اس مصیبت
سے نجات چاہتے ہیں لہٰذا اُنہیں مدد کی ضرورت ہے اورمیڈیا مدد گار کا یہ
کردار بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے اپنے کردار کا خود تعین کر لے اور تجسس
اور سب سے پہلے بریکنگ نیوز کے شوق کو ایک طرف رکھ کر اپنا مثبت کردار ادا
کرے۔ |