’’حکومت کو ہجڑا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔!‘‘

مفت مشورہ دنیا اور شرمندہ کرنا ۔۔۔ یہ دو ایسے کام ہیں جو بلا اجرت کے ہر آدمی خوشی سے کرنے کے لیے ہر وقت تیا ر رہتا ہے۔ مشورہ لینے والے کی مثال تو لینے والے ہاتھ کی طرح ہوتی ہے۔ جو مجبوری میں ہر وقت نیچے ہی رہتا ہے لیکن مشورہ دینے والا تو سخی ، اوپر والا ہاتھ اور ایک فارغ بندہ ہوتا ہے جو اپنے اس مشعلے سے بھرپور لطف اٹھاتا ہے۔ رہی بات کسی کو شرمندہ کرنے کی تو حکومت بھلے کوئی کام کرے یا نہ کرے مگر عوام کو شرمندہ کرنے میں بڑی ماہر ثابت ہو رہی ہے۔ بھٹوصاحب بلا شبہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لیکن عوام اس قدر بد حواسی کا شکار ہو چکی ہے کہ آج بھی ’’ بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگا رہی ہے، زرداری صاحب ۵ سال تک عوام کو خود ساختہ جمہوریت کا آئینہ عوام کو دکھاتے رہے، اور شرمندہ ہونیکے لیے تیار کرتے رہے۔۔۔ زرداری صاحب (بے شک صاحب لکھتے ہوئے مجھے بے حد تکلیف ہو رہی ہے خیر۔۔۔) کے بعد اب بلاول بھٹو ممی ڈیڈی سیاست کا تجربہ کرنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ بلاول بھٹو تقریروں اور زبانی جمع خرچ سے کافی حد تک عوام کو شرمندہ کر چکے ہیں۔۔۔ سوچ رہی ہوں بلاول بھٹو یہ بات کر کے وقت ضائع کرے پر سچ میں شرمندگی ہو گئی کیونکہ ابھی تو وہ سیاست میں ایک سال کے بچے کی طرح Crawling کر رہے ہیں، امید ہے کہ چلنا سیکھ ہی جائیں گے۔۔۔

خیر حکومت تو خالی ٹین کے ڈبے بجاتی ہی رہتی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں، اصل بات تو اس عوام کی ہے جو خالی ٹین کے ڈبے کے شور کو سنتی ہے، برداشت کرتی ہے اور بعض ازاں توڑ بھی دیتی ہے، عوام کے پاس دو طرح کے اختیارات ہوتے ہیں، ایک ووٹ دینے کا اختیار اور دوسرا گالی نکال کر شرمندہ کرنے کا۔۔۔ان دونوں اختیارات کوا ستعمال کرنے میں نہ تو کوئی اجرت دینی پڑتی ہے اور نہ ہی کوئی جگہ۔۔۔ ہاں مگر ذہنی کوفت ہوتی ہے۔۔۔سیا ست پر بات کرنے سے میں ہمیشہ اجتناب ہی کرتی ہوں لیکن کچھ دنوں سے میرے ساتھی کافی بحث مباثہ کرنے لگے، بحث کے دوران سب مختلف آراء دے رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا شریف حکومت بھٹو حکومت سے بہتر ہے، کوئی کچھ کہہ رہا تھا اور کوئی موجودہ حکومت کو ہجڑا تک کہہ گیا۔۔۔اس بیان نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔۔۔کافی دیر تک میں اس Statement کا Analysis Linguistics کرتی رہی کہ لفظ ’’ہجڑا‘‘ حکومت کے لیے کس Context میں استعمال کیا گیا ہے، گویا لوگ سمجھتے ہیں کہ ــ’’ہجڑا‘‘ ایک شرمناک لفظ ہے جوکسی کے لیے بھی گالی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔۔اﷲ تعالی کی مخلوق کے ساتھ اس طرح کا مذاق کرنے سے پہلے ہم لوگ خوف سے مر کیوں نہیں جاتے۔۔۔خیر حکومت کا ہجڑے کے ساتھ Comparison کیا جا رہا ہے۔ اب تجزیہ کرنے کا وقت ہے کہ دونوں میں کون بہتر ہے۔

شریف حکومت کام کے معاملے میں کافی شرافت کا مظاہرہ کر رہی ہے اب دیکھ لیں بجلی کا بحران ایک مسلہ عظمی ہے۔ آنے والی نسلوں کی سات سات نسلیں بھی آجائیں تب بھی یہ بحران حل نہیں ہو پائے گا حل تو تب ہو نا جب اس طرف کوئی نگاہ ڈورائے،۔۔۔۔ تخفظ کی بات کریں تو چڑیا، گدھا، کتا اور انسان تک عدم تخفظ کا شکار ہیں، سکولوں کوبموں سے اڑایا جا رہا ہے، بچوں کو اغوا کیا جارہا ہے۔۔۔ شخصی آزادی چھینی جا رہی ہے۔۔ ۔عام شہری سینہ تان کر چل نہیں سکتا کیا معلوم کہ کوئی نا معلوم فرد ٹکڑا جائے اور دھماکہ کر دے۔۔۔انسان ہی نہیں پاکستان میں تو جانور بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ گائے ، بھنس، بکرے جو بھی تھوڑا سا بیمار ہوتا ہے، تو کیا ہوتا ہے کچھ بھی تو نہیں زیادہ سے زیادہ چھری پھیر دی جاتی ہے ، کھانے والوں کو کیا پتہ کہ کہ گدھے کا گوشت ہے یا بھنس کا۔۔۔ حلال بھی ہے یا حرام۔۔۔کوئی پوچھتا ہے بھلا۔۔۔؟

شرح خواندگی پستی کی برف جارہی ہے لیکن کیا مجال نواز شریف صاحب کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔۔۔ خیر نواز شریف صاحب نے تو خود ڈاکٹری کی ڈگری بغل میں بڑے آرام سے دبا لی۔۔۔ ایک بھائی Laptop بانٹھ رہا ہے، دوسرا بھائی ڈگریاں دے رہا ہے۔۔۔ اور وہ رہی شرافت۔۔۔ رشوت، جعلسازی اور ملاوٹ نے راتوں رات عروج کو چھوا ہے۔۔۔ رشتوں میں ملاوٹ، جذبوں میں ملاوٹ، کھانوں میں ملاوٹ۔۔۔ ریاکاری، خوشامدی اور قبضہ گروپ اپنے اپنے شکاروں میں مصروف ہیں، قتل عام کیا جا رہا ہے، عوام لاوارث ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ اندھیروں میں بھٹک رہی ہے، پانی کی قلت سے مر رہی ہے۔۔۔ شریف حکومت کی شرافت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دو چیزیں شدت سے بڑھ رہی ہیں ایک مہنگائی اور دوسری آبادی۔۔۔ اب با خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کے کیا کارنامے رہے اور مستقبل میں موجودہ حکومت کی کیا کارگردگی ہو سکتی ہے۔۔۔ لہذا حکومت کو ہجڑا نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ہجڑے سے پھر کچھ نہ کچھ گزارہ ہو ہی جاتا ہے مگر حکومت سے گزارہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 41383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.