جمہوریت ناگزیر ہے!

پاکستانی عوام کو موجودہ دور حکومت میں بھی جمہوریت کے سو فیصد ثمرات حاصل نہ ہو سکے۔ غربت معدوم ہوئی، نہ عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں ۔ پٹرول ، بجلی ، گیس کے مسائل ہوں یا پی آئی ۔ اے، ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کی زبوں حالی۔ بلوچستان، خیبر پختونخواہ میں ہونے والی دہشت گردی ہو یا کراچی جیسے صنعتی شہرکی خونریزی۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کارکردگی واقعی میں سوالیہ نشان بنی رہی۔ اس سب کے باوجود یہ بجا کہ بد ترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہر حال بہتر ہے۔ درحقیقت موجودہ حکومت کا اپنے عرصہ اقتدار کی تکمیل کے قریب تر ہونا خوش آئند امرہے۔ تمام تر نا کامیوں، لعزشوں اور خامیوں کے با وجود وفاقی اور صو بائی حکومتوں کا قائم رہنا بہت سی جمہوری روایات کی مضبوطی کا باعث بنا۔ ماضی کے بر عکس سیاست دانوں کے طرز عمل اور اداروں کی کارکردگی سمیت بہت سے معاملات میں بہتری آئی ۔ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف پیہم بر سر پیکارمسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے خاص طور پر اس تمام عرصے میں بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اور باہمی اختلافات اور رنجشوں کے باوجود کسی قدر تحمل اور برداشت کا رویہ اپنائے رکھا۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) اپنی تمام تر مخالفت ، تنقید اور حکومت کا کڑا محاسبہ کرنے کے باوصف حکومت گرانے کے لیے کسی سازش کا حصہ بننے سے گریزاں رہی اور غیر جمہوری عناصر کی حوصلہ شکنی اور پیش بندی کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کی مضبوطی اور تسلسل کا باعث بنی اور بدلے میں فرینڈلی اپوزیشن اور نورا کشتی کا طعنہ بھی سنتی رہی ۔ تمام تر نا اہلی اور نا توانی سے قطع نظر، وفاقی حکومت نے بھی بہت سے معاملات میں دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔متفقہ ترامیم کی منظوری ہو یا اپوزیشن کے تجویز کردہ الیکشن کمیشنر کی تعیناتی یا کئی دیگر معاملات، حکومت کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کا یہی تسلسل اداروں کی مضبوطی کا باعث بنا۔ ماضی میں افواج پاکستان اور عدلیہ کا کردار بھی قابل رشک نہیں رہا ۔ جمہوریت پر شب خون مار کر آمرانہ حکومتیں قائم کی جاتی رہیں اور عدلیہ کی جانب سے ان آمرانہ اقدامات کی حمایت میں فیصلے صادر کر کے آمریت کو تحفظ فراہم کیا جاتا رہا۔ مگر موجودہ دور جمہوریت میں ان دونوں اداروں نے خود کو ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ قابل اعتماد اور قابل قبول بنایا۔ ماضی کی روایات کے برعکس یہ دونوں ادارے بارہا غیر جمہوری اقدامات کے خلاف مزاحمت کا اعادہ کرتے دکھائی دیئے۔ سچ تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کئی بار ایسے مواقع فراہم ہوئے جو شب خون کے لیے حوصلہ افزاء تھے۔ مگر جنرل کیانی کی سربراہی میں افواج پاکستان کا مہم جوئی سے گریزاں ، جمہوریت پسند رویہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ۔یہی طرز عمل افواج پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے اور آمریت پسندی کی چھاپ معدوم کرنے میں معاون رہا ۔ دوسری جانب عدلیہ نے بھی منصفانہ اور غیر جانبدار نہ فیصلے صادر کر کے اپنا وقار بلند کیا ۔ ان اداروں کی بہترساکھ نہ صرف پاکستانی عوام کے لئے حوصلہ افزاء رہی بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر بنانے کا باعث بنی۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں حکومت کی ناقص کارکردگی کو بنیاد بناتے ہوئے تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹ کر طویل مدتی نگران سیٹ اپ لانے کی بات بھی کی جاتی ہے۔گو ماضی میں آمرانہ حکومتیں بھی انہی نعروں کو بنیاد بناتے ہوئے قائم کی گئیں ۔ مگر کسی بھی دور آمریت میں نہ تو انقلاب بپا کیا جا سکا اور نہ ہی عوام کی زندگیوں میں کوئی دیر پا اور مثبت تبدیلی لائی جا سکی۔ البتہ ملک کو تباہی کے دہانے پر ضرور دھکیل دیا گیا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہی بے اختیار اور غیر مفید حکومت اور نا اہل سیاستدان ناکافی ہی سہی مگر بہت سی مثبت تبدیلیاں لانے کا ذریعہ بنے ۔ جو کسی آمر کی حکومت میں ممکن نہ ہو سکتی تھیں۔ آج اگر الیکشن کمیشن اسقدر طاقتورہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سرکاری اشتہارات سے صدر آصف علی زرداری یا میاں نواز شریف کی تصاویر ہٹانے کا حکم صادر کرتے ہیں تو یہ آزادی اور طاقت اسی جمہوری نظام کی دین ہے جو بر سر اقتدار پی پی اور حزب اختلاف (ن) لیگ کی باہمی رضا مند ی اور دانشمندی کی بدولت چلتا رہا ۔ آج جعلی ڈگری اور دوہری شہریت کے حامل افراد پارلیمنٹ سے باہر کی راہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔عدالتیں اسقدر بااختیار اور مضبوط ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے متفقہ طور پر منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا جا تا ہے اور ایک عہدہ دار وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔ اور اپنے تمام تر احتجاج کے با وجود حکومت یہ فیصلے ماننے پر مجبور ہے ۔ میڈیا اسقدر توانا ہے کہ سیاستدانوں سمیت تمام طاقتور افراد اور اداروں کا احتساب کرتا ہے ۔ یہ آزادی بھی جمہوریت کی ہی دین ہے۔ اصل میں یہی تبدیلی ہے اور یہی جمہوریت کے ثمرات ہیں ۔سیاست دانوں کی یہی بالغ نظری اور اداروں کی مضبوطی کامل تبدیل نہ سہی ، تبدیلی کا آغاز ضرور ہے ۔ درحقیقت پاکستان اورپاکستانی عوام کسی ناگہاں تبدیلی کے متحمل نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی لٹھ کے زور پر انقلاب اور تبدیلی ممکن ہے۔ تبدیلی ایک مسلسل اور متواتر عمل کا نام ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جڑ پکڑتا اور افراد میں قبولیت اور مقبولیت حاصل کرتا ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی حکومت کی نااہلی اور نا توانی جمہوریت کی نا اہلیت اور معذوری ہرگز نہیں ۔ اگر کوئی حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام کو ووٹ کی طاقت استعمال کر کے اسے بے اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔مگرکسی حکومت یا چند سیاستدانوں کی ناکامی کو جواز بناتے ہوئے جمہوری نظام کو موردالزام ٹھہرانا اور جمہوریت کو پٹری سے اتارناقطعا درست نہیں ۔لہٰذا جمہوری نظام چلتا رہنا چاہیئے کیونکہ فقط جمہوریت ہی پاکستان کے تمام مسائل کا حل ہے ۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.