بھارتی پارلیمان میں شرمناک ہنگامہ

بھارتی پارلیمان میں شرمناک ہنگامہ آرائی کے بعد ایوان کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔بھارتی پارلیمان میں ریاست تیلنگانہ کی تشکیل کے معاملے پر ہنگامہ آرائی میں متعدد ارکانِ اسمبلی زخمی ہوگئے ہیں۔ہنگامہ آرائی ختم کروانے کے لیے ایوان کے محافظین کو دخل اندازی کرنا پڑی اور ایوان کی کارروائی بھی ملتوی کر دی گئی۔بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ ہنگامہ آرائی جمعرات کی دوپہر اس وقت شروع ہوئی جب مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے لوک سبھا میں تیلنگانہ بل پیش کیا۔اس موقع پر ریاست کے قیام کے حامی اور مخالف رہنما لوک سبھا کے سپیکر کی نشست کے سامنے پہنچ گئے۔احتجاج کے دوران ٹی ڈی پی کے رہنما گوپال ریڈی نے میز پر لگا مائیک بھی توڑ دیا جبکہ کانگریس کے رکن ایل راج گوپال نے شیشے توڑ ڈالے۔جھگڑا بڑھا تو راج گوپال نے مرچوں والا سپرے چھڑک دیا جس سے کئی ممبران متاثر ہوئے اور انہوں نے راج گوپال پر حملہ کر دیا۔یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ لوک سبھا کے واچ اینڈ وارڈ شعبے کے اہلکاروں کو مداخلت کرنا پڑی۔اس کے بعد پارلیمنٹ کے ڈاکٹر ایوان میں آئے اور کئی ارکان کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا ہے۔لوک سبھا کی سپیکر میرا کمار نے اس پورے واقعے پر افسوس ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی وجہ سے ساری دنیا کی نظروں میں ہندوستانی جمہوریت شرم سار ہوئی ہے۔اس ہنگامہ آرائی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا کہ تیلنگانہ بل ایوان میں پیش کیا گیا تھا اور اب یہ ایوان کی ملکیت ہے۔انھوں نے ایوان میں لڑائی کے مسئلے پر کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔ پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ نے کہا کہ حکومت، وزارت داخلہ اور پولیس لوک سبھا کے سپیکر کی ہدایات کے مطابق کارروائی کریں گے۔ریاست تیلنگانہ کے قیام کے مسئلے پر آندھرا پردیش میں حکمراں کانگریس کے تین ارکانِ ریاستی اسمبلی پربھاکر ریڈی، سریدھر کرشن ریڈی اور بی ستیاندا را بھی مستعفی ہوگئے اس سے پہلے منگل کو کانگریس نے سیمادھرا کے چھ لوک سبھا ممبران پارلیمنٹ کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔

بھارتی قیادت خود کو اس خطے کی سب سے بڑی اور مثالی جمہوریت قرار دیتے ہوئے پھولے نہیں سماتی مگر اس کے مہذب ارکان کی شرافت کا جنازہ اس وقت نکل گیا جب کانگریس کے رکن نے شیشے توڑ ڈالے اور مرچوں والا سپرے کردیا اس کھلی دہشت گردی کے شکار ارکان اب تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں ۔یہ واقعہ دراصل اس انتہاء پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کو بھارت میں تیزی سے فروغ دیا جارہا ہے۔اس کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں ۔شرافت کے لبادے اتارنے والوں پر ہی کیا موقوف وہاں تو وزیر اعظم بھی

بھارت میں کانگریس کی سربراہی میں قائم حکمراں اتحاد نے ریاست آندھراپردیش میں نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دی تھی ۔تلنگانہ ریاست کی آبادی چار کروڑ ہو گی اور اس میں آندھراپردیش کے شمالی حصے میں دس اضلاع بشمول بھارت کا چھٹا بڑا شہر حیدرآباد بھی شامل ہو گا۔تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ1956 ء میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھراپردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔تلنگانہ ریاست کے قیام کے حوالے سے حالیہ سالوں میں احتجاجی مظاہروں میں شدت آئی تھی اور ریاست کے قیام کے حامیوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے کبھی اس علاقے میں ترقی پر توجہ نہیں دی ہے۔ نئی ریاست کے قیام کے مطالبے میں زیادہ شدت اس وقت آئی جب گزشتہ گیارہ روز سے مقامی رہنما چندر شیکھر را ریاست کے قیام کے لیے بھوک ہڑتال پر تھے۔کانگریس کے سینیئر رہنما دگوجئے سنگھ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’’یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن اب ہر ایک کو سنا گیا ہے اور فیصلہ کر دیا گیا‘‘۔

تلنگانہ ریاست کے قیام کے مطالبے پر کئی بار پرتشدد مظاہرے ہو چکے ہیں۔ریاست کے قیام کے مخالفین اس اقدام سے خوش نہیں ہیں کیونکہ تلنگانہ ریاست کا دارالحکومت حیدرآباد ہو گا جو بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کا ایک بڑا مرکز ہے۔کانگریس کے ترجمان اجے ماکن کا کہنا تھا کہ حیدرآباد آئندہ دس سال تک اس وقت تک دونوں ریاستوں کا دارالحکومت رہے گا جب تک آندھراپردیش اپنا علیحدہ دارالحکومت نہیں بنا لیتا۔ بھارت کی انتیسویں ریاست کے قیام کی قرارداد کی اسمبلی سے منظوری لازمی قرار دی گئی ہے۔نئی ریاست کے قیام کے بعد آندھراپردیش میں نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا تھا تاکہ فیصلے کے خلاف کسی بھی ممکنہ پرتشدد مظاہرے کو روکا جا سکے۔آندھراپردیش میں کانگریس کے چیف وئپ ردراراجو بدما راجو کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ ’’ ہم اپنی جماعت کے لیے زہر نگل رہے ہیں، فیصلہ بہت بدقسمت ہے لیکن ہمارے رہنماؤ ں کا فیصلہ ہے جس کا ہم نے احترام کرنا ہے۔ ہمیں آنے والے نتائج اور مسائل کا اندازہ ہے۔‘‘ حکمران اتحاد نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب ملک میں آئندہ سال عام انتخابات منعقد ہونے ہیں اور حالیہ جائزوں کے مطابق کانگریس کی آندھراپردیش ریاست میں پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔2009 ء میں حکمران اتحاد نے نئی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا تاہم بعد میں کہا تھا کہ اس ضمن میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔بھارت میں آخری بار2000 ء میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔جن میں مدھیا پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔

تلگودیشم سے عیلحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر را نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی۔تاریخی اعتبار سے تلنگانہ کا علاقہ نظام حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1948 ء میں ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کے لیے فضل علی کمیشن قائم کیا گیا تب بھی علاقہ کے عوام نے اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست کے موقف کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس علاقہ کو ساحلی آندھرا کے ساتھ ملا کر آندھراپردیش کا نام دیا گیا-ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور با اثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انہوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا-چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علیحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔1970-1969 ء میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں دوسوسے زیادہ لوگ مارے گئے۔اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں تلنگانہ کے عوام نے احتجاج کی قیادت کرنے والی تلنگانہ پرجا سمیتی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا۔ لیکن انتخابات کے بعد اسی پارٹی نے قلا بازی کھائی اور خود کو کانگریس میں ضم کر لیا۔ اس دھوکہ دہی سے تلنگانہ کے عوام اتنے بدظن ہوئے کہ اگلے دو تین دہائیوں تک کسی نے بھی تلنگانہ ریاست کا نام نہیں لیا۔2001 ء میں یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگودیشم سے علیحد گی اختیار کرنے والے چندر شیکھر را نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا۔رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004 ء کے انتخابات کے لیے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔
 

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 57752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.