گیارہ مئی کیانتخابی مہم کو’’فتح‘‘ کرنے کے لییہر سیا سی
جماعت نے ایک جنگ لڑی۔لفظوں کی اس جنگ کو اگر وعدوں کی جنگ کہوں تو بے جا
نہ ہوگا۔اس لیے کہ ہر سیاسی جماعت نے پاکستا ن کے سادہ لوح عوام کو شیشے
میں اتارنے کے لییوعدوں کے انبار لگا دئیے۔کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب
کچھ جائز ہوتا ہے۔اس قوم کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاستدانوں نے ہر وہ وعدہ کیا
جس کوکبھی بھی پورا نہیں کیا جا سکتا تھا اور نہ کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں اور
وعدوں کی اس جنگ میں مسلم لیگ نواز سب سے آگے تھی اور تحریک انصاف دوسرے
نمبر پر وعدوں اور لفظوں کی اس جنگ کی فاتح مسلم لیگ نواز رہی، انتخابات کے
نتائج کے حوالے سے اپنے اپنے تحفظات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے نتائج کے
بہتر مستقبل اور جمہوریت کے استحکام کے لیے قوقبول کیا۔اس وقت سے اب تک
مسلم لیگ نواز ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اقتدار سے بھرپور مستضفیض ہو
رہے ہیں۔ بلکہ انکی اولادیں بھی سرکاری خزانے کے بل بوتے پر ’’موجاں ‘‘ کر
رہے ہیں۔
انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز کے راہنماوں نے حکومت بنانے کے بعد مسلسل
کورس کی صورت میں جو گیت سب سے زیادہ گایا وہ تھا’’ خزانہ خالی ہے خالی ہے
خالی ہے…… خزانہ خالی ہے خالی ہے کالی ہے خزانہ خالی ہے‘‘ اس کے ساتھ
پاکستان کے سیدھے سادے عوام کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ ہم خزانے کو بھرنے
میں کوشاں ہیں۔میاں نواز شریف کے بیرونی ممالک کے دورے اسی سلسلے کی کڑی
ہیں۔
اپنے وزیر خزانہ قوم کو بتاتے رہے ہیں کہ خزانہ خالی تھا ہم نے اسے بھر دیا
ہے۔ اور اب یہ کبھی خالی نہیں ہوگا بلکہ یہ مذید بھرتا ہی جائیگا۔لیکن
پچھلے ایک ہفتے سے خبریں آ رہی ہیں کہ خزانہ میں زر مبادلہ کے ذخائر تین
ارب ڈالر سے بھی کم سطح پر آگے ہیں۔ابھی دو تین روز قبل ہی ہمیں امریکہ سے
کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پچاس کروڑ ڈالر ملے ہیں ۔اور وزارت خزانہ کے
ذرائر نے اسکی تصدیق بھی کر دی ہے کہ پچاس کروڑ ڈالر ہمیں مل گے ہیں۔لیکن
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ، تویہ خبر بجلی بن کر مجھ پر گری ہے کہ ’’
ذرمبادلہ کے ذخائر تیرہ سال قبل کی نچھلی ترین سطح پر پہنچ گے ہیں۔’’ سٹیٹ
بنک کے پاس اس وقت دوارب ڈالر کا زر مبادلہ رہ گیا ہے جوتین ہفتوں کے
درآمدی بل کے لیے بھی کم ہے‘‘ اسٹیٹ بنک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے
مطابق سات فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران تین کروڑ ڈالر سے زائد کی
کمی واقع ہوئی ہے۔
فکر کی بات اس لیے ہے کہ ابھی اس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی جس میں
یہ خوش خبری سنائی گئی کہ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے پچاس کروڑ ڈالر
اسٹیٹ بنک کو مل چکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا دوارب ڈالر کی کم ترین سطح
پر آنا حکومت کے ’’ماہرین ‘‘ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ مجھے وزیر خزانہ کے اس
بیان کے بعد کہ ’’ حیرانی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں آئی ایم ایف سے
قرضے کی قسط ملنے اور دبئی کی اتصالات سے واجبات کی وصولی سے زر مبادلہ کے
ذخائر کی کمی دور ہو جائیگی‘‘ واہ میرے بولے بادشاہ وزیر خزانہ جی واہ ،کیا
کہنے جناب کی ذہانت اور فراست کے……جناب عالی یہ سبق کسی اور کو پڑھائیںکہ
اتصالات سے واجبات کی وصولی سے یہ مسلہ حل ہوجائیگا……کیسے حل ہوگا ؟
پاکستانی قوم کا بچہ بچہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ’’ اتصالات ‘‘ کب سے
ہمارے واجبات دبائے بیٹھا ہے؟ دبئی کے شیخ ہمارے واجبات دینے کی بجائے ہمیں
ٹھینگا دکھا تے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ کر لو جو کرنا ہے
سینٹ آف پاکستان جیسے ادارے میں کھڑے ہوکر جناب اسحاق دار فرماتے ہیں کہ
گورنر سٹیٹ بنک کا استعفی کسی دباو کا نتیجہ نہیں وہ اپنی مرضی سے مستعفی
ہوئے ہیں۔اس موقعہ پر انہوں نے کہا کہ یہاں وہ گورنر سٹیٹ بنک کی کارکردگی
پر بات نہیں کریں گے۔ نہیں جناب اسحاق ڈار صاحب ! آپ کو سب اداروں کے
سربراہان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔ اگر کسی کو کسی کی
کارکردگی کا جائزہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے تو وہ عوام ہیں جو آپکی
کارکردگی کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ دوسری کی کارکردگی شوق سے جانچئیے مگر قوم
کو یہ بھی تو بتائیے کہ آپ جناب کی کارکردگی کیا ہے؟ آپکی دس گیارہ ماہ کی
کیا یہی کارکردگی ہے کہ ’’ خزانہ خالی ہونے کو ہے ۔سٹیٹ بنک کے پاس تین
ہفتوں کے درآمدی بل کی ادائیگی کے لیے بھی رقم نہیں ہے؟
کہاں گئے آپ کے دعوے کہ ہم ملک کی تقدیر بدل دیں گے …… ہم خزانہ اوپر نیچے
سے بھر دیں گے…… لیکن شائد آپ نے اور آپکی مسلم لیگ کا مقصد قومی خزانہ
بھرنہ نہیں تھا؟ پاکستانی قوم کی تقدیر بدلنے کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا
بلکہ آپ نے اپنی ،اپنے عزیزوں اقارب خصوصا میاں منشا اینڈ کمپنی کی تجوریاں
بھرنے کا وعدہ کیا تھا؟ شائد آپ نے میاں منشاء جیسے دیگر ’’ کاروباری حسہ
داروں کی تقدیر بدلنے کا منشور دیا تھا؟ سو آپ نے انکی تجوریا ں بھرنے اور
انکی تقدیر بدلنے کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ اور اس میں آپکی حکمت عملی
کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔
اسحاق ڈار صاحب ! قوم آپ سے سوال کرتی ہے کہ ماسوائے میاں منشا ء اینڈ
کمپنی کو خوش کرنے کے کیا کیا ہے؟ اگر کچھ کیا ہے تو اسے عوام کے سامنے
لایا جائے۔ رہی بات گورنر سٹیٹ بنک شاہد کاردار اور سلیم رضا کے مستعفی
ہونے کی تو اگر انہوں نے بھی کسی دباو کے تحت استعفی دئیے تھے تو آپ اس راز
سے پردہ اٹھا دیجیے آپکو کس نے منع کیا ہے؟ اور آپکا یہ فرمانا کہ مستعفی
ہونے والے گورنر سٹیٹ کسی دباو کے نتیجہ میں مستعفی نہیں ہوئے۔تو جناب جس
طرح اپنی مرضی سے نادرا کے چئیرمین طارق ملک اور پیمرا کے چئیرمین رشید
چودہری مستعفی ہوئے ہیں بالکل اسی طرح گورنر سٹیٹ بنک بھی مستعفی ہوئے ہوں
گے؟ جناب اسحاق ڈار جی فکر نہ کیجئے ……بس کچھ عرصے کی بات ہے پھر سب کشھ
منظر عام پر آ جائیگا اور عوام حقائق سے با خبر ہو جائیں گے- |