آزمائشوں کا سفر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

پادری اور اس کی بیگم کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان

اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔مغربی ممالک میں ہی نہیں اسلامی ممالک میں بھی غور و فکر کرنے والے غیر مسلم ، اسلام کی آغوش میں پناہ لینے پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔مگر کوئی سوچ سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے والے پادری محبوب بشارت نومبر 2006ء سے تا حال چھپتے پھر رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ۔لاہور میں اسلامک سینٹر برائے مطالعہ مذاہب کے ڈائر یکٹر مولانا عبد الرٔوف فاروقی نے خبر ملنے پر محبوب بشارت کو تلاش کیا۔ان سے رابطہ ہوا تو ہوشر باداستان سامنے آئی کہ قبول اسلام کے جرم میں کیا کیا اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔

محبوب بشارت پاکستان کے واحد مسلم بلیورز بیک گراؤنڈ چرچ (ایم بی بی سی)کے پادری تھے۔ ان کے ذمہ مسلمانوں کو ہر ممکن طریقہ سے مسیحی بنانا اور مسیحیت کے چنگل میں پھنس جانے والے مسلمانوں کے دل و دماغ میں مسیحیت کو راسخ کرنے کا ہدف تھا اور وہ اپنا کام پوری تندہی سے سر انجام دے رہے تھے کہ حق کی کرنوں نے ان کے دل کی راہ دیکھی اور وہ مسلمان ہوگئے۔محبوب بشارت بتاتے ہیں کہ قبول اسلام کا اعلان کرتے وقت وہ شمالی علاقوں میں زلزلہ زدگان کے کیمپوں میں امداد کی آڑ میں ارتدادی سرگرمیوں کی نگرانی کررہے تھے۔چرچ کو جیسے ہی علم ہوا کہ بشارت مسلمان ہوگیا ہے تو فوری طور پر وارث روڈ لاہور کے چرچ کے ساتھ ان کی رہائش سے تمام سامان قبضے میں لے کر ان کی پہلی بیوی اور 2بچیوں کو مسیحی ہوسٹل میں منتقل کردیاگیاجبکہ ان کے ساتھ اسلام قبول کرنے والی دوسری بیوی روما جو نام بدل کر عائشہ ہوچکی تھی،بچ نکلی۔اس خبر پر وہ ایبٹ آباد سے فوری طور پر واپس آئے تو معلوم ہوا کہ پہلی بیوی جو خود بھی پادری ہے بچوں کے ساتھ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہے اور اس نے سیشن جج لاہور کو درخواست دی ہے کہ بشارت مسلمان ہوچکا ہے اور اپنے بچوں کو قتل کرنا چاہتا ہے۔مقدمہ کی کاروائی شروع ہوئی اور پولیس نے عدالت کو بتایا کہ خاتون جس ہوسٹل میں رہائش پذیر ہے وہاں تو پولیس کو بھی داخلے کی اجازت نہیں،اسے کیسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس پر یہ مقدمہ خارج کردیا گیا۔اس دوران میں چرچ کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی جاری تھیں کہ دسمبر آگیا۔20دسمبر کو دوسری بیوی عائشہ کی والدہ نے بشارت کو فون کیا کہ دیکھو کرسمس آرہی ہے، لوگ آئیں گے ہم کیا جواب دیں گے،اور نہیں تو ہماری خوشیوں کا خیال کرلو۔بیٹی کو کرسمس تک بھیج دو پھر لے جانا ۔بشارت نے اس پر اسی روز اپنی بیوی عائشہ کو اس کے ماں باپ کے ہاں پیر غازی روڈ اچھرہ چھوڑدیا۔جہاں سے 23دسمبرکو بشارت کو عائشہ کا فون کا آیا کہ میری جان خطرے میں ہے مجھے یہاں سے نکالو ،مگر اکیلے نہ آنا۔بشارت برداشت نہ کرسکااور خود ہی جاپہنچا جس پر سسرال نے اسے ما ر پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔بشارت بتاتا ہے کہ میں وہاں سے تھانے گیا اور تھانہ اچھرہ میں درخواست دی کہ میری بیوی کی جان کوخطرہ ہے مگر کسی نے پرواہ ہی نہ کی ، حتی کہ تحصیل ناظم کے ٹیلی فون پر کہا گیا کہ سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر دے جاؤ ہم دیکھ لیں گے مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔اگلی صبح بشارت ابھی وکیل سے مل کر بیلف کا بندوبست کررہاتھا کہ اسے اطلاع ملی کہ اس کی بیوی کو وہاں سے منتقل کیا جارہا ہے۔اس نے اپنے ایک دوست کو فون کیا وہ اسی گلی میں تھا اور یوں معلوم ہوا کہ LWJ417نمبر کی سیاہ رنگ کی کار میں لڑکی کو زبردستی ڈال کر لے جایا گیاہے۔ بشارت کے دوست نے پیچھا کیا تو جی او آر ون میں ایک سنسان سڑک پر آکر گاڑی سے ایک بندے نے اتر کر موٹر سائیکل والے بشارت کے دوست سے موٹر سائیکل کی چابی چھین لی اور گاڑی لے کر نامعلوم مقام پر چلے گئے۔بشارت نے 15پر فون کرکے پولیس کو گاڑی کا نمبر دیا مگر بے سود۔الٹا پولیس والوں نے اسے جھوٹا قرار دیا اور مسیحی انتہا پسند اس کی بیوی کو اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔

دو روزبعد بشارت کے کسی دوست نے فون پر بتایا کہ جس گاڑی میں اس کی بیوی کو اغوا کیا گیاتھا وہ فلاں جگہ کھڑی ہے۔بشارت بھاگا بھاگا پولیس کے پاس گیا اور خوش قسمتی سے گاڑی ڈرائیور سمیت پکڑی گئی مگر ڈرائیور جسے بشارت پہلے سے جانتا تھا کہ وہ یوسف مسیح ولد جگا مسیح کا بھائی ہے،اس نے کہا کہ اسے اس واردات کا علم نہیں مگر تعاقب کرنے والے بشارت کے دوست نے پہچان لیا کہ اس سے موٹر سائیکل کی چابی چھیننے والا یہی تھا جس پر اسے ماننا پڑا اور بشارت کی بیوی عائشہ کو تھانے میں بشارت کے حوالے کرنے کی راہ ہموار ہوئی مگر اس کے باوجود پرچہ درج نہیں ہوا ۔پولیس نے مسیحی غنڈوں کا ساتھ دیا۔

20دسمبر کو والدہ کے گھر جانے کے بعد کیا بیتی؟اس پر بات کرتے ہوئے بشارت کی اہلیہ عائشہ نے بتایا کہ 20دسمبر کو جب اس کے شوہر نے اسے والدین کے گھر چھوڑا تو وہاں اشتعال کی فضاتھی ۔والد ،بہنیں اور والدہ مسلسل اسلام اور شوہر کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کرتے رہے۔انکار پر والد نے تشدد کا نشانہ بنایا جس پر میں نے کسی ذریعے سے اپنے شوہر کو فون کرکے بلایا۔وہ چونکہ اکیلا آیا تھا اس لئے اسے بھی مار پیٹ کر بھگادیا اور اس پر والدین نے ایک گھنٹے بعد میسن روڈ کے رہائشی اور بشپ سیموئل عزرایا کے قریبی آدمی یوسف مسیح کو فون کیا تو وہ اگلی صبح وہاں آیا۔اس رات مجھے کچھ نہیں کہا گیا۔
یوسف کے آنے پر میری ماں اور بہنیں زبردستی اس کی گاڑی میں ڈال کر لے گئیں اور مجھے مزنگ چونگی کے قریب مشہور مسیحی لیڈر جوزف فرانسس کے دفتر پہنچادیا گیا اور اس دفتر کی تیسری منزل پر اس وقت جوزف فرانسس،پطرس غنی او رپادری عمانویل کھوکھر بھی موجود تھے۔

جوزف فرانسس نے اسلام چھوڑنے کا کہا اور انکار پر گالیاں دینے لگا اور کہا:تم نے اگر اسلام نہ چھوڑا تو ننگا کرکے ذلیل کروں گا ۔میری ضد قائم رہی تو اس نے والدہ اور بہنوں سے کہا:آپ جائیں میں خود ہی اس مسئلے کو سلجھا کر لڑکی واپس بھجوادوں گا۔23سالہ عائشہ کے بقول والدہ کے واپس جاتے ہی گالیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور جوزف نے بشپ ا ٓف رائیونڈ ڈائسز چرچ آف پاکستان ، سیموئل عزرایا سے فون پر بات کروائی جس نے کہا کہ جیسا جوزف کہتا ہے ویسے ہی کرو ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔میرے انکار پر جوزف جنونی ہوگیا۔اس نے ایک بوتل میں مٹی کا تیل لاکر میرے کپڑوں پر پھینکااور گالیاں دیتے ہوئے آگ لگادی۔میں چیخی چلائی مگر وہ دروازہ بند کرکے تالا لگا کر نیچے بھاگ گئے۔بڑی مشکل سے آگ بجھائی مگر اس دوران میں پیٹ بری طرح سے جل گیا ۔زور زور سے شور مچایا، آوازیں دیں، مگر ساری رات اذیت میں گزری۔صبح وہ لوگ واپس آئے اور آتے ہی کہا کہ تمہارے شوہر نے پرچہ کرادیا ہے،ہوسکتا ہے تمہیں تھانے لے جانا پڑے ۔تھوڑی دیر بعد مجھے تھانے لے جایا گیا تو راستے میں یوسف کے بھائی منظور نے دھمکی دی کہ اگر ہمارے خلاف بیان دیا تو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

اس موقع پر ہمیں تھانہ سول لائن لایا گیا اور پولیس نے بغیر کسی کاروائی کے مجھے اپنے شوہر کے ساتھ بھیج دیا۔ہم مقدمے کے اندراج کے لئے اچھرہ تھانے گئے۔اس کے بعد ہم وکیل کے ہمراہ تھانے پیش ہوتے رہے ہیں اور ابھی تک در در کے دھکے کھارہے ہیں مگر پولیس ہم پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتی ۔میں اب کہاں جاؤں۔ہم نے آخر کیا جرم کیا ہے؟کیا اسلام قبول کرنا جرم ہے؟کہ ہم ابھی تک چھپ چھپ کر رہتے ہیں۔ٹیلی فون پر دھمکیاں ملتی ہیں، نہ معلوم کب کیا ہوجائے،ہم نہیں جانتے ۔یہ مسیحی قائدین جو انسانی حقوق اور قانون کا ہنگامہ کرتے نہیں تھکتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام چھوڑنے والوں کو آزادی دی جائے مگر خود ان کا رویہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔

بشارت اس ساری صورتحال کو صبر سے برداشت کررہے ہیں کہ اسلام قبول کیا جائے اور دکھ نہ ملیں، یہ کیسے ممکن ہے۔مگر وہ سب سے زیادہ جزباتی بلیک میلنگ سے پریشان ہیں کہ بشارت کی دو بیٹیاں ان سے بہت اٹیچ تھیں مگر اب وہ فون پر چرچ کی سکھائی گئی گالیاں دیتی ہیں۔میں پریشان صرف اس بات پر ہوں کہ میری بیٹیوں کو کسی غلط راہ پر نہ لگادیا جائے۔مگر ہوگا وہی جو اﷲ چاہے گا۔

بشارت چونکہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے مشن پر تھے اور لوگوں کو بھٹکاتے بھٹکاتے خود صراط مستقیم پر آگئے لہذا ان کی گزشتہ زندگی بھی کم انکشاف انگیز نہیں۔اس صورتحال کو جاننے کی خاطر بشارت سے ماضی کے حوالے سے سوال و جواب کا سلسلہ چلا تو کچھ یوں صورتحال آشکار ہوئی۔

میں چکوال کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا ۔میرے والد کی 6بیویاں تھیں۔میں سب سے چھوٹی بیوی کا اکلوتا بیٹاتھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ اسلام کیا ہے اور عیسائیت کیا ہے اور میں کون ہوں، البتہ میرے والد کا چرچ سے بہت تعلق تھا ۔وہ مولویوں کو گالیاں دیتے اور پادری کو محترم جانتے تھے۔میں ابھی بہت چھوٹا تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا ،ماں نہیں تھی۔مجھے یہاں لاہور میں وارث روڈ پر اپنی سوتیلی بہن کے گھر رہنا پڑا ۔وہاں بھی کوئی تبدیلی نہیں تھی۔سارے لوگ چرچ جاتے تھے۔عبادت میں شریک ہوتے تھے۔مولویوں کو گالیاں دیتے تھے۔میں بھی ان میں سے تھا۔تھوڑا بڑا ہوا تو احساس پیدا ہوا کہ یہاں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ایک وہ جو مسیحی ہیں۔دوسرے وہ جو تعارف میں خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر ہیں وہ بھی مسیحی ۔میرا باپ بھی غالباً ایسا ہی تھا۔میں اس رنگ میں رنگتا چلا گیا۔سارے گھروں کے بچے سرکاری اسکول مزنگ جاتے تھے۔میں بھی وہاں جاتا اور پڑھتا رہا۔میڑک کے بعد میں ایک میچور مسیحی تھا اور اسی حیثیت میں ،میں نے اپنا شناختی کارڈ بنوایا اور پاکستان نیوی میں 1988ء میں بطور ٹیکنیکل سیلر شمولیت اختیار کرلی۔نیوی میں سیلر کے طور پر میں واحد مسیحی تھا ۔ایک ہمارا سوئیپر تھا۔ہم دونوں دور کسی کے گھر اتوار کو جاکر عبادت کرتے ۔ان دنوں مجھے شوق ہوا کہ خود کیوں نہ عبادت کراؤں اور یوں 1991ء میں ، میں نے نیوی کو خیر باد کہا اور واپس لاہور چلاآیا جہاں مختلف کام کئے اور چرچ سے اپنا تعلق بڑھایا ۔چونکہ میرا تعلق پروٹسٹنٹ فرقے سے تھا لہذا مجھے بالغ ہو کر بپتسمہ کے عمل سے گزرے بغیر بائبل کالج مری میں داخلہ نہیں مل سکتا تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ بپتسمہ سے قبل عیسائیت کی تبلیغ میں ایک سال کا عرصہ لگایا جائے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے ہاں تبلیغی جماعت ہوتی ہے۔اس مقصد کی خاطر عیسائیوں کی مختلف این جی اوز یہ تبلیغی سرگرمیاں سر انجام دیتی ہیں۔اس میں مسیحیوں کو توجہ دلائی جاتی ہے اور ایک پختہ کار مسیحی بننے کی تلقین کی جاتی ہے اور گریٹ مشن کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر مسلمانوں میں بھی عیسائیت کی تبلیغ کی جاتی ہے۔مسلمانوں کو تبلیغ کرنے والوں کو ہیرو کا مقام حاصل ہوتا ہے ۔میں نے بھی ایک ادراہ جوائن کرلیا جو عالمی سطح پر اس طرح کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور ہے۔حقیقی معنوں میں یہی ایک ادارہ ہے جو مسلمانوں میں کامیابی سے تبلیغ کررہاہے اور رزلٹ بھی دے رہا ہے۔میں نے بھی یہاں یہ کام کیا اور اس دوران میں ،میں فیصل آباد ، کراچی اور شمالی علاقی جات گیا۔اس دوران میں ہمیں بھاری مشاہرہ دیا جاتاتھا۔پہلے ٹریننگ ہوتی ، اس کے بعد ہمیں مختلف شہروں میں بھیجا جاتا تھا ۔جہاں سلسلہ یہ تھا کہ پہلے چرچ میں جاکر عیسائیوں کو تبلیغ کی جاتی، اس کے بعد اس تبلیغی ٹیم میں سے کچھ جرأت مند لڑکے مسلمانوں کو تبلیغ کا سلسلہ شروع کرتے جو بازاری منادی کہلاتا تھا۔یعنی بازار میں کھڑے ہوکر اعلان کیا جاتا تھا کہ ہم دینی کتابیں بیچ رہے ہیں ۔ان کے نام مسلمانوں والے ہوتے اور کتابوں کے اندر ارتدادی لڑیچر ہوتا۔پہلے یہ لٹریچر مفت دیا جاتا ۔اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ چاہے 100روپے والی چیز کے 5روپے لیے جائیں لیکن لیے ضرور جائیں،اس طریقہ سے مسلمانوں کو تبلیغ کی جاتی ہے۔
مسیحیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والے سابق پادری محبوب بشارت نے مسیحیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ مسیحی کس طرح سے اور کس کس انداز سے مسلمانوں کو گمراہ کرتے اور مسیحیت کی طرف راغب کرتے ہیں۔چونکہ ان کا تعلق اس شعبہ سے تھا اس لیے انہوں نے بے شمار آف دی ریکارڈحقائق بیان کیے اور بہت کچھ آن دی ریکارڈ بھی کہا جو اہل پاکستان کے حوالے سے چشم کشا ہے اور فکر انگیز بھی۔محبوب بشارت نے کہا کہ ’’مذہبی تعلیمات کے لئے خود کو پیش کرنے والے نوجوانوں کو پروٹسٹنٹ چرچ کے تحت بپتسمہ سے قبل ایک برس کی تبلیغی تربیت دی جاتی ہے۔جس میں انہیں مسیحی عقائد کے ساتھ ساتھ بہت سا اسلامی لٹریچر بھی پڑھایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو لاجواب کرنے کی خاطر مناظرانہ ڈھکوسلے بھی سکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح سے قرآن پاک کی آیات کو چالاکی کے ساتھ پیش کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے اور کس طرح سے مسلمانوں کو ڈگمگانا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے اس مشن پر این جی اوز سرمایہ کاری کرتی ہیں۔جن کے فنڈز کروڑوں میں بلکہ اربوں ڈالرز میں ہوتے ہیں۔یہ تنظیمیں بظاہر آزادانہ کام کرتی ہیں مگر حقیقتاً ان کے پیچھے چرچ ہی ہوتا ہے۔لیکن وہ سامنے نہیں آتا۔مسیحیت میں اس کام کو ’’گریٹ مشن‘‘کہتے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار تنظیمیں اور این جی اوز کام کررہی ہیں۔کوئی ہسپتال ،کوئی تعلیم ،کوئی کچھ،کوئی کچھ ،مگر ان کا اصل مقصد ’’گریٹ مشن‘‘ہے یا ارشاد اعظم کی تکمیل ہے یعنی پوری دنیا کو مسیحی بنانا۔ان این جی اوز میں چرچ آف پاکستان سرفہرست ہے جو این جی او کے طور پر رجسٹرڈہے اور تعلیم و صحت کے بے شمار پروجیکٹس چلاتا ہے مگر مقصد صرف ایک ہی ہے،یعنی گریٹ مشن۔اسی طرح شمالی علاقہ میں ایک این جی او کام کررہی ہے جس نے گڑھی حبیب اﷲ میں ایک ہسپتال بھی قائم کررکھا ہے۔ڈاکٹر ہارون اس ہسپتال کو چلاتے ہیں۔یہ این جی او، صحت اور پینے کے پانی کے شعبہ میں کام کررہی ہے۔اس کے علاوہ ایک مسیحی تنظیم پیپلز انٹر نیشنل کے نام سے کام کررہی ہے۔اس کے ساتھ میں خودکام کرچکا ہوں، زلزلہ کے موقع پر دواڑھائی کروڑروپے کے خیمے اس تنظیم نے تقسیم کیے۔ان سب کا مقصد ایک ہی تھا، مسلمانوں کی ہمدردیاں جیتنا اور ان میں ذرا ڈھیلے لوگوں کو تلاش کرکے مسیحیت کی طرف مائل کرنا۔

خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کو مرتد کرنے والی تنظیموں میں اخوت اندراسیہ نام کی ایک تنظیم بہت فعال ہے۔سینٹ پیٹرزبر ادر اور ہڈ ہے اور اس طرح کی تنظیمیں بہت فعال ہیں۔ایک تنظیم خود میری قیادت میں بھی قائم کروائی گئی جس نے بہت کامیابی سے لاہور میں لوگوں کو عیسائیت کی طرف مائل کیا۔اس کا نام ہے’’تحریک اخوت‘‘یہ اب کی بات ہے کیونکہ حالیہ چند برسوں سے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو مرتد بنانے والی تنظیموں اور اداروں کے نام اسلامی طرز کے رکھے جائیں تاکہ دام رنگ زمین والا معاملہ ہو اور مسلمان جلد اس جال میں آئیں ۔یہ طے ہے کہ ایک بار متزلزل ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔مگر ہ کتنے بھی کمزور عقیدہ کے ہوں دوسرے مذہب کی شناخت رکھنے والی تنظیموں اور اداروں کے چکر میں نہیں آتے ۔اس لئے اب نہ صرف ہم لوگ تنظیموں اور اداروں کے نام اسلام ٹرمنا لوجی کے مطابق کررہے تھے بلکہ یہ بھی طے پایا تھا کہ زیادہ تر اسلامی حلیہ میں رہنے کی کوشش کی جائے اور لوگوں کو یہ احساس نہ ہونے دیاجائے کہ ہم عیسائی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عیسائیت قبول کرلینے والے مسلمانوں کو بھی اپنی بود وباش برقرار رکھنے کا کہا جایا ہے تاکہ وہ مزید لوگوں کو ور غلاسکیں۔

اس طرح ہم نے اب ایک مدرسہ بھی بنایاہوا تھا جس کا سربراہ میں خود تھا ۔’’مدرسۃ الکتاب‘‘ کے نام سے قائم اس مدرسہ سے خط و کتابت کے ذریعے مسلمانوں کو مسیحیت کی طرف مائل کیاجاتا تھا۔ہم اس مدرسہ سے تمام ٹرمنالوجی کو بھی آسان الفاظ میں پیش کرتے تھے کہ کہیں مسلمان بدک نہ جائیں۔یہاں ہمارے پاس ایک سو طلبہ تھے، جن کو میں ہینڈل کرتاتھااور باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعے انہیں مسیحیت کی دعوت دیتاتھا مگر غیر محسوس طریقہ سے ۔یہ لوگ 75فیصد حد تک مسیحی ہوچکے ہیں۔

واپس اپنے ابتدائی تبلیغی دور کی طرف لوٹتے ہوئے محبوب بشارت نے بتایا کہ ہمیں سکھایا گیا کہ اگر کوئی تمہیں مارے بھی تو ہاتھ نہیں اٹھانا بلکہ کوشش کرنی ہے کہ لوگ ماریں ۔ہماری خواہش ہوتی تھی کہ ہمیں مارے اور جان بوجھ کر ایسا ماحول پیدا کیا جاتا تھا۔

تبلیغی مقاصد کے لئے،مسیحیت دولت، عورت سمیت ہر شے استعمال کرتی ہے مگر انتہائی محتاط طریقے سے۔جیسا کہ میں ایک پادری کو جانتا ہوں جس نے اپنے محلہ میں وفات پاجانے والے ایک سید صاحب کے خاندان سے کہا کہ پریشان نہ ہوں،سارے اخراجات میں کروں گا اور پھر چالیسویں تک لاکھوں روپیہ چرچ کا خرچ ہوا اور نام سید صاحب کے ورثاء کا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر کوئی مذہبی بحث چھیڑے یہ پورا خاندان باقاعدہ عیسائی ہوگیا۔میں ایسے بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں جو اس طرح مسیحی ہوئے ۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان دنوں نیٹ پر چیٹنگ کے ذریعے لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے۔اسی طرح لڑکیوں کے ذریعے تبلیغ کا سلسلہ بہت وسیع ہے اور جاری ہے ۔بے شمار لوگ اس طرح بھی مسیحی ہوئے۔ تبلیغ کا ایک برس مکمل کرنے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی نے پروٹسٹنٹ روایات کے مطابق بشب کے سامنے گناہوں کا اعتراف کیا اور ہمیں بپتسمہ دے کر باقاعدہ بالغ مسیحی کا مقام دے دیا گیا ، ہمیں دوبارہ پیدا ہونے والوں میں شمار کرلیا گیا۔اس کے بعد مجھے اور میری بیو ی کو بائبل کالج مری میں پادری کورس کے لئے داخلہ دے دیا گیا ۔کیونکہ بائبل کالج کے اصول و ضوابط کے مطابق شادی شدہ لوگوں کو اکٹھا داخلہ ملتا ہے،اکیلے اجازت نہیں دی جاتی تھی، البتہ کنوارے لوگوں کو تنہا کورس کی اجازت تھی۔

بائبل کالج کی 3برس کی تعلیم میں چرچ ہسٹری کے علاوہ اسلامیات اور قرآن مجید بھی ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے، بلکہ قرآن مجید 2مرتبہ ترجمہ سے پڑھایا جاتا ہے اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت بھی پڑھائی جاتی ہے تاکہ ایک مسیحی پادری کو یہ علم ہو کہ مسلمانوں کے عقائد کیا ہیں اور وہ ان کے بارے میں کیا مذہبی نظریہ رکھتے ہیں اور کھل کر ہر ایشو پر بات کرسکے۔اس طرح تین برسوں میں 96مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔3سالہ کورس کے بعد چونکہ چرچ آف پاکستان کی نمائندگی کررہا تھا، لہذا مجھے واپس وارث روڈ چرچ لاہور بھیج دیا گیا ۔

پادری کی حیثیت سے تربیتی طور پر تین ماہ کے لئے لاہور، کراچی اور اسلام آباد رکھا گیا۔ کراچی میں مسیحیوں کی تبلیغی جماعت جس کے ساتھ میں کام کرچکا تھا اس کے کوئی 8یا 10چرچ ہیں جن کو ’’بیپٹزم فیلو شب ‘‘کا نام دیاجاتا ہے۔یعنی ان کا کام ہی مسلمانوں کو مقدس پانی میں غوطہ دے کر عیسائی بنانا ہے۔یہ سب انگریز مشنری کے تحت کام کرتے ہیں۔ان کا پاکستانی چرچ سے تعلق نہیں ۔اس سارے عمل سے فارغ ہوکر مجھے چرچ آف پاکستان ہیڈکوارٹر کے حوالہ کردیا گیا جس نے میری تعیناتی کرائسٹ چرچ سی ایم ایچ کینٹ میں کردی جہاں میں 6ماہ رہا ۔یہ میرا پہلا تقرر تھا۔میرے پہلے ایسٹر پر بشپ آف پاکستان وہاں گئے تو سینئر پادری نے بشپ کا شکریہ ادا کیا کہ نئے پادری محبوب بشارت کی تعیناتی پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں کیونکہ اس نے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کو بھی عیسائیت کی تبلیغ کی جاسکتی ہے۔اس پر میری بے پناہ تعریف ہوئی اور مسیحی نوجوانوں میں مقبولیت بڑھ گئی مگر چونکہ میری خصوصی تربیت ہی مسلمانوں کو ورغلانے کی تھی لہذا میرے لئے یہ کوئی غیر معمولی کام نہیں تھا۔

یہاں سے سینئر پادری اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جارہے تھے تو وہاں لوگوں نے شور مچادیا کہ نیا پادری نہیں آنے دیں گے۔اس سے پورے لاہور کے چرچزکو اندازہ ہوگیا کہ یہ پادری مسلمانوں میں بھی کام کررہا ہے اور ہر چرچ مجھے حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگ گیا۔

میرا تقرر کینٹ سے لکھپت کردیا گیا کہ مسلمانوں میں تبلیغ کے حوالہ سے میں بدھ اور اتوار کو ہیڈ کواٹر وارث روڈ پر وقت دوں اور تربیت کروں۔اسی طرح ہفتہ کا دن کینٹ کے لئے مخصوص ہوگیا اور مسلمانوں میں تبلیغ کی صلاحیت کے سبب لاہور کا مصروف ترین پادری بن گیا اور جلد ہی مجھے ایک مخصوص ذمہ داری سونپ دی گئی۔

ہماری تحریک کے سبب اور کچھ دیگر عوامل کے باعث اسلام چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ۔پرانے پادریوں کے لئے ان لوگوں کو مطمئن کرنا ممکن نہ رہا جس پر مجھے جونئیر ہونے کے باوجود یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی کیونکہ میرے سوا کوئی پادری ایسا نہیں تھا جس نے تبلیغی مہارت حاصل کی ہو۔

مسیحیت قبول کرنے والے لاہور میں ان خاندانوں کی تعداد 50کے قریب ہو چکی تھی لہذا ان کو سنبھالنے کی خاطر یہ شعبہ میرے حوالے کردیا گیا۔اس شعبہ کو پوری دنیا میں ایم بی بی چرچ یعنی مسلم بلیورز بیک گراؤنڈ چرچ کا نام دیا گیا ہے۔پاکستان میں یہ چرچ ایک ہی ہے یعنی لاہور میں ، اور اس کی سربراہی مجھے سونپ دی گئی۔(چرچ سے مراد عبادت گاہ نہیں بلکہ تنظیم ہے)لاہور میں 50خاندان باقاعدہ اس چرچ کے رکن تھے اور عیسائی بننے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی مگر زیادہ لوگ رابطہ میں نہیں آنا چاہتے تھے۔

50خاندان جو میرے رابطہ میں تھے، ان میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔مثال کے طور پر ایک جج صاحب، پولیس آفیسر ، وکیل بلکہ آپ کو حیرت ہوگی کہ علماء دین تک شامل تھے جن کو ظاہر ہونے کی اجازت ابھی نہیں تھی مگر وہ بپتسمہ لے کر عیسائی ہوچکے تھے اور میرے پاس عبادت کرتے تھے۔ان میں سے ایک صاحب کا نام خصوصیت سے لینا چاہوں گا کہ بابا فرید کوٹ مٹھن شریف والے کے دربار کے گدی نشین کا پوتا عیسائی ہوچکا ہے، میں نے خود اسے غوطہ دیا۔اس مقصد کی خاطر ہائی سوسائٹی میں باقاعدہ اعلیٰ قسم کی کرسمس پارٹیاں ہوتی تھیں جن میں اعلیٰ طبقہ کے لوگ صرف عیاشی کی خاطر آتے، اور ایمان گنواجاتے تھے۔ان میں آہستہ آہستہ کئی لوگ باقاعدہ مسیحی ہوگئے ۔ان میں میرا ایک دوست ڈاکٹر بھی شامل ہے، جو سید ہے اور باقاعدہ خود کو مسیحی ظاہر کرچکا ہے۔ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ مسلمان حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ سمجھتے ہیں اور اس عقیدہ کو نہیں مانتے کہ ان کو سولی چڑھا دیا گیا تھا۔اس کا حل مرزا غلام احمد قادیانی نے دے دیا کہ متوفی کے معنی یہ ہیں اور یوں حضرت عیسیٰ ؑ زندہ نہیں ۔اس پر عیسائی پادری ، قادیانیت کے شکر گزار بھی ہیں۔

میرا خصوصی شعبہ ’’لاتبدیل کلام اﷲ ‘‘تھا یعنی خدا کا کلام تبدیل نہیں ہوسکتا ۔مسلمانوں کا ہم پر سب سے زیادہ اعتراض یہ تھا کہ بائبل اصل نہیں، تبدیل ہوچکی ہے۔ہم قرآن سے ثابت کرتے تھے اور جانتے تھے کہ یہ جھوٹ ہے، مگر مسلمانوں کو قابو کرنے کی خاطر چکر چلاتے تھے کہ دیکھو قرآن کہتا ہے کہ انجیل خدا کا کلام ہے اور دوسری جگہ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہوسکتا ،آپ خود بتائیں کہ خدا کا کلام بدل کیسے سکتا ہے۔اس پر عام مسلمان آدمی ڈول جاتے تھے۔یہ دلائل دیتے دیتے دل پر اتنے نکتے لگ گئے کہ ضمیر ملامت کرنے لگ گیا کہ اس میں تو شبہ نہیں کہ رب کا کلام تبدیل نہیں ہوسکتا مگر کیا جو کچھ بائبل کے نام پر پیش کررہے ہیں وہ خدا کا کلام ہے بھی یا نہیں؟اس سوال کا جواب مجھے کیا،ہر پادری کو معلوم تھا کہ نہیں۔بائبل جو ہم پیش کرتے ہیں وہ تو خدا کا کلام ہے ہی نہیں۔اس کے بعد میں نے قرآن کو ایک اورانداز میں پڑھا بلکہ یوں کہیں کہ ٹھونک بجا کر جانچا پرکھا ۔مگر یہ سارے کا سارا رب کا کلام ہی ثابت ہوا۔خود مسیحی تعلیمات بھی اسے رب کا کلام تسلیم کرتی ہیں۔

دوسرے نمبر پر میں نے حضرت محمد ﷺ کی سیرت کو پرکھا ۔سیرت کے بھی اس حصہ کو مجھے بائبل کالج میں پڑھایا گیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر محمد ﷺ نبی نہیں تو پھر کائنات میں کوئی اور نبی ہے ہی نہیں ،ہو ہی نہیں سکتا۔اس دوران جیل روڈ پر ایک نجی دفتر میں مسلم مسیحی مناظرہ ہوگیا ۔میں نے وہاں اہلحدیث علماء سے تسلیم کروالیا کہ موجودہ قرآن عثمانی نسخہ ہے اور پھر ان سے یہ سوال کرکے لاجواب کردیا کہ اگر یہ عثمانی صحیفہ ہے تو محمدی صحیفہ کہاں ہے؟اگر وہ لے آؤ تو میں اسلام قبول کرلوں گا۔علماء جواب نہ دے سکے اور میرے ساتھی مسیحوں نے خوب واہ واہ کی مگر میں رات بھر سو نہ سکا کہ اتنا بڑا جھوٹ اور فریب کہ میں عثمانی نسخہ ٔ قرآن کو محمدی نہیں مانتا حالانکہ اس میں شک نہیں ۔بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ جس مذہب کو سچا ثابت کرنے کی خاطر میں روز دھوکا دہی کرتا ہوں، فریب دیتا ہوں ، اسے چھوڑ کر کیوں نہ اس مذہب کو اختیار کرلوں، جو سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس کے بعد میں نے اپنی پہلی بیوی کو سمجھانا چاہا مگر وہ میرے مقابل ڈٹ گئی البتہ دوسری نے مان لیا اور میرے ساتھ مسلمان ہوگئی۔

اب میں کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میری عمر صرف 36برس ہے اور میں چاہتا ہوں کہ جن کو عیسائیت میں غوطہ دے چکا ہوں ان سے رابطہ کروں اور قائل کروں۔میں نہیں جانتا کہ یہ کس قدر ممکن ہے اور کس قدر نہیں مگر اس کے سوا چین نہیں آئے گا۔
 
Gul Samad Hasan zai
About the Author: Gul Samad Hasan zai Read More Articles by Gul Samad Hasan zai: 3 Articles with 8645 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.