فکر قاسمی کو فرو غ دینے و الے مولانا خالدسیف اﷲ رحمانی کی کا و شوں کو سلام !!

حجۃ الاسلا م حضرت مولانا محمد قاسم نانو تو ی رحمۃ اﷲ علیہ کانام تقریبا دو صدی سے گونج رہا ہے، بر صغیر کے ہر خطے میں ان کی بیش بہا خدمات کا تذکر ہ ہو رہا ہے قرآنی علوم و معارف کی بات ہو یا حدیث کے اسرار و حکم کی بحث، جدید و قدیم کا مسئلہ ہو یا اسلامی تشخص کی بقا ء ،مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کی ورق گردانی ہو رہی ہو یا آزادی و طن کی تحریک کا تذکرہ ،مدارس اسلامیہ کے قیام پر گفتگو ہو یا شعائر اسلام کی حفاظت کی فکر مندی، ہر مجلس میں یہ نام انتہائی ادب و احترام کے ساتھ لیا جا رہا ہے ،ان کے علو م و معارف کے حو الے دئیے جا رہے ہیں ،ان کے نام سے اپنی ذات کو و ابستہ کر کے عالم ہونے کی دلیل دی جارہی ہے، ان کے ارشادات و بیانات سے سند پیش کیا جارہا ہے، ان کے نام سے ادارے قائم کیے جارہے ہیں ۔

کیونکہ انہوں نے تاریخ کے ایسے موڑ پر ملت اسلامیہ کی رہنمائی کی جب ذہنی و فکر ی انتشار برپا تھا،حالات نے دل و دماغ کو ماؤف کر رکھا تھا، مسلمانوں کے حاکمانہ اقتدار کا چراغ گل ہو چکا تھا، تاریکیوں کا ایک خطر ناک طوفان ہر طرف سے گھرتا جارہا تھا، خطرناک کانٹوں سے بھری ہوئی وادیاں راہ میں حائل تھیں، حق و باطل میں موت و زیست کی جنگ جاری تھی، باطل کی ظلمت حق کی روشنی پر اپنی پوری توانائیوں سے حملہ آورتھا، سامراجی طاقتیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر نا چاہتی تھیں، بر صغیر سے اسلام کے چراغ کو ہمیشہ کیلئے گل کر نے کی پلاننگ کی جارہی تھی، شعائر اسلام کے خاتمے کی تحریک چلائی جا رہی تھی، اسلامی تعلیمات کے حصول کی راہوں کو مسدود کی جارہی تھی اور مساجد و مدارس کو زمین بوس کی جارہی تھی ۔

یہ انتیسویں صدی کا سیاسی ،سماجی او رملی نقشہ تھا ،مسلمانوں کو ایک مدبر ،رہنما اور مسیحاکی تلاش تھی ،قوم کی ڈوبتی نیا کو ساحل سمند رتک پہونچانے کیلئے ایک دانشور کی جستجو تھی ،ملت کو قعر مذلت سے با عزت زندگی فراہم کرنے کیلئے ایک حکیم و داناکی ضرورت تھی جس کی تکمیل حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کے ذریعہ سے ہوئی ،زوال پذیر قوم کو عروج و ار تقاء کے بام عروج تک پہونچانے ، ذلت و پستی سے نکال کر عزت و بلندی کے مقام تک لے جانے ،اسلامی تہذیب و تمدن کی بقا اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی ذمہ داری حضرت حجۃ الاسلام نے اپنے ہاتھوں میں تھام لی اور اس مقصد کی تکمیل کیلئے انہوں نے تگ و دو شرو ع کر دی۔

و طن عزیز کو انگریزی اقتدار سے پاک رکھنے کیلئے انہوں نے شاملی کے میدان میں مجاہدین کی قیادت کی ،جب یہاں ناکامی ملی تو 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈال کر اسلامی علوم و فنون کی آب پاشی کی ایک نئی تحریک شروع کردی ،اسلام کانام و نشان مٹانے والے انگریزوں کامقابلہ کر نے کیلئے انہوں نے مدارس اسلامیہ کے قیام کا سلسہ شروع کیا اور مسلمانوں کے سات سو سالہ اقتدار پر کوئی آنچ نہ آنے دی اور نہ ہی ہندوستان میں اندلس کی تاریخ دہرانے کا مو قع دیا، اپنی علمی صلاحیت ،بہادرانہ عزم و حو صلہ، خلوص و ﷲیت ،و رع و تقوی ،سادگی ،شرافت نفسی ،اور ملکوتی صفات کے ذریعہ اسلام او ر مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنادیا، ہر طاغوتی طاقت کاکامیاب مقابلہ کیا ،ہر فتنے کے سدباب ،اورہراسلام مخالف سرگرمیوں پرپابندی لگانے میں اپنی عمر عزیز صرف کر دی۔اسلامی معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے والی خرافات و بد عات کاخاتمہ کیا ۔اپنی حیات مستعار کے ہر حر کت و سکون سے اسلامی زندگی کاصحیح عملی نمونہ پیش کیا اور دارالعلوم دیوبند کی صور ت میں ایک مینارہ نور قائم کر کے صحیح اسلامی فکر کی حفاظت کا انتظام کیا ۔

لیکن بر صغیر کی اس عظیم شخصیت او ر نابغہ روز گار ہستی نے ملت اسلامیہ کے لیے جتنا بڑا کارنامہ انجام دیا آنے والی نسلوں نے ان کے ساتھ اتناہی ظلم بھی کیا الغرض ان کی یاد کو زندہ رکھنے نیز ان کی حیات و خدمات کے تعارف کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا، عالمی سطح پران کے افکارو خیالات کو پیش نہیں کیا گیا، ملت اسلامیہ اور عالم عرب کو ان کے علو م و معارف سے آشنا نہ کیا گیا جس کانتیجہ یہ ہو اکہ ملت اسلامیہ کا یہ مفکر اعظم دنیا کی نگاہوں میں گم نام ہوگیا اپنی بے پناہ خدمات کے باوجود عالم اسلام میں متعارف نہ ہو سکا اور اگر ہو ا بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔

خدا جزائے خیر دے فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی جنر ل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور ان کے صاحبزادے جناب مولانا محمدعمر عابدین صاحب قاسمی مدنی کو کہ جنھوں نے اس کی فکر کی اور علوم قاسمی کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ارادہ کیا او راس حوالے سے و ہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو شاید اب تک تاریخ میں کسی اور نے نہیں دیا تھا ۔

جناب مولانامحمد عمر عابدین قاسمی مدنی نے مدینہ یونیورسٹی کی طالب علمی کے زمانے میں ہی محسوس کیاکہ فکر قاسمی عالمی سطح پر متعارف نہیں ہے لہذا اس کو فروغ دینے او رپور ی دنیامیں حجۃ الاسلام کے افکا رکو فروغ دینے کی تحریک چلانی چاہی تو مو لانا نے اس منصوبہ کو اپنے والد گرامی او رشیخ عوامہ کے سامنے رکھا، ا ن دو نوں بزرگ نے ان جذبات کو سراہااور اس عظیم فکر کو بروئے کار لانے میں ان کے معاون بنے اور عصری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے ان حضرات نے 2010ء امام قاسم نانوتوی بین الاقوامی ایوارڈ کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم بنائی/ یہ تنظیم فقہ و فتاوی او ر جدید فقہی مسائل کے حوالے سے مشہور درس گاہ المعہد العالی الاسلامی حید رآباد کے زیر نگرانی قائم کی گئی، ا س کے صدر حضرت مولاناخالد سیف اﷲ رحمانی ہیں ،جنرل سکریٹری مدینہ یونیورسٹی میں شعبہ حدیث کے صدر شیخ عوامہ کے صا حب زادے ڈاکٹر محی الدین عوامہ ہیں جب کہ اس کمیٹی کے سکریٹری اس عظیم فکر کے روح رواں جناب مولانا عمر عابدین قاسمی مدنی صاحب ہیں۔ ایوارڈ کمیٹی کا دو رانیہ کل دو سال ہے، پہلا ایوارڈ تر کی کے عظیم مجاہد او راسلامی تحریک کے سرخیل شیخ محمودآفندی کو دیا گیا تھا،اس عظیم ایوارڈ کی ابتداکے لیے شیخ آفندی کوا سلئے تر جیح دی گئی کہ وہ بھی کفرو ظلمت کے خلاف بر سر پیکار تھے اور تر کی میں اسلامی تہذیب و تمدن کی بقا او ر نشاۃ ثانیہ کی بحالی میں خصوصی کر دار ادا کیا تھا، ا س ادارے کا دوسرا اجلاس جنوبی افریقہ کے مشہور شہر جو ہانسبرگ میں ابھی دو ماہ قبل دسمبر 2013ء میں منعقد ہو ا تھا اس میں تقریبا 80/ ممالک کے 300سے بھی ز ائد علماء نے شرکت کی تھی، بین الاقوامی ایوارڈ کمیٹی کے اس دو سرے ایوارڈ کیلئے ناموں کی ایک لمبی فہر ست تھی لیکن خاندان قاسمی کے اہم چشم و چر اغ خطیب الاسلام حضر ت مولانا محمد سالم قاسمی دامت بر کاتہم کو تر جیح دی گئی او ر ان کی علمی ،ملی ،سماجی اور رفاہی خدمات کی بناء پر 300/ سے زائد علماء کی مو جو دگی میں حضر ت و الا کی خدمت میں ایوارڈ کو پیش کیا گیا ۔

فقیہ العصرحضرت مو لانا خالد سیف اﷲ رحمانی ،شیخ عوامہ ،مو لانا عمر عابدین قاسمی مدنی اور ڈاکٹر محی الدین صاحب او ردیگر و ہ حضرات جنھوں نے امام قا سم نانوتوی ؒبین الاقوامی ایوارڈ کمیٹی قائم کر کے فکر قاسمی کو عالمی سطح پر عام کرنے کی کو شش کی ہے و ہ قابل مبارکباد ہیں اور پوری ملت کو ان کے اس نایاب کارنامے پر فخر ہے ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180704 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More