پاکستانی سیاست میں الیکشن مہم
اور حکومت چلانا دو الگ الگ مہارتوں کا نام ہے۔ پاکستان میں نو کروڑ عوام
اور سولہ کروڑ عوام پر حکومت کرنے والی دونوں بڑی پارٹیاں ماضی میں دو
دوبار حکومت کے مزے لوٹ چکی ہیں۔ مگرعوام کو یاد نہیں رہتا کہ ان کے پچھلے
ادوار میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ ان میں سے کون سا سیاستدان ہے جس پر کرپشن کے
الزامات نہیں ہیں۔ ہر جانیوالے پر بعد میں آنے والی پارٹی نے کرپشن کے
مقدمات بنائے۔ اور عوام کو انکی لوٹ مار سے آگاہ کیا۔ انکے پچھلے دور حکومت
میں چھوٹے چور اور بڑے چور کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ اس دور میں عوام نے
بالآخر اس پر سمجھوتہ کیا تھا کہ ہیں تو دونوں چور اور تیسرا آپشن نہیں ہے
اس لئے چھوٹے چور پر انحصار کیا جائے۔
پیپلز پارٹی کا شروع سے ہی نعرہ روٹی کپڑا مکان کا رہا ہے۔ جس کی آڑ میں
عوام بیوقوف بنتے آئے۔ الیکشن ۲۰۰۸میں نون لیگ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران
گلی محلہ میں اشتہار لگوائے کہ ہم جب ۹۹ میں بر سر اقتدار تھے تو اشیاء کے
یہ ریٹ تھے اور آج مہنگائی کی وجہ سے یہ ریٹ ہوگئے ہیں۔ یہ عوام کے ساتھ
ظلم اور ناانصافی ہے۔ چنانچہ عوام سے وعدہ کیا گیا کہ وہ اس مہنگائی کو
روکیں گے اور ریٹ کم کریں گے۔ پاکستان کے بھولے بھالے عوام بیچارے یہ سمجھ
بیٹھے کہ اگر شرفاء کی حکومت آگئی تو ہمارے تو وارے نیارے ہوجائیں گے اور
قیمتیں آج سے دس سال پہلے والی حالت پر چلی جائیں گی۔ مگر انہیں کیا معلوم
تھا کہ یہ صرف الیکشن کی باتیں ہیں الیکشن کے بعد سے ان کا کوئی تعلق نہیں
ہے۔
چنانچہ الیکشن کے دوران یہ اشتہارات ہوتے تھے بجلی بند ،گیس بند، آٹا بند،
ہر طرف بم دھماکے، ہم ان سب کے ذمہ داروں کا احتساب کریں گے۔ جب الیکشن میں
توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوگئِی تو پریشانی لاحق ہوگئی کہ اب یہ سب وعدے
کیسے پورے کریں۔ چنانچہ پہلے تو فوری طور پر اقتدار کا حصہ بن گئے اور اپنے
پندرہ وزیر بنوالئے اور انہوں نے حلف بھی اپنے سیاسی دشمن مشرف سے لیا۔ مگر
جب اقتدار میں بیٹھے تو معلوم ہوا کہ عشرہ کے قریب یہ شرفاء ملک سے باہر
رہے اور خطہ کی سیاسیت سے ناواقف رہے تو اس دوران پاکستانی سیاست کا تو
نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ یہاں قومی سیاست وجود میں آچکی تھی۔ نئی طرز کے جمہوری
ادارے وجود میں آچکے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ تو قدم قدم پر ہماری سابقہ
طرز حکمرانی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کریں گے۔ نواز شریف صاحب کے اپنے
الفاظ ہیں کہ “ مشرف نے ایسا طرز حکمرانی قائم کردیا ہے “ اب پاکستان میں
حکومت کرنا آسان نہیں رہا۔
پھر معافی نامہ کے ذریعہ اختیار کی گئی معاہداتی جلاوطنی کا سات سالہ دور
ایک ایسی ریاست میں گزارا تھا جہاں جمہوریت نام کا لفظ ابھی تک ڈکشنری میں
موجود نہیں۔ پاکستان میں تو آمریت نے بھی جمہوریت کا میدان سجایا تھا۔ مگر
سعودی ریاست میں تو عوامی نمائندگی اور جمہور کی آواز کا کوئی تصور ہی نہیں۔
چنانچہ یہی کچھ تو ننانوے میں شریف برادران کا خواب تھا جس کیلئے تین چیف
آف آرمی اسٹاف بدلے گئے۔ فوج کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی۔ اس وقت کے چیف
جسٹس پر حملہ کروایا اور اس کو اٹھا کر سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر پھینکا
اور اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگوایا۔ اب جبکہ ان سعودی بادشاہوں کو حکومت
کرتے دیکھا، جہاں کوئی چوں چراں بھی نہیں کرسکتا۔ کچھ اس طرح کے خواب سجا
کر یہ شرفاء براستہ لندن امریکہ سے راہنمائی لیکر پاکستان تشریف لائے تھے۔
امریکہ نے پاکستان میں سازشوں کے جال بچھا کر فوجی حکومت کو اتنا بے بس
کردیا تھا کہ اب سول سیٹ اپ کے علاوہ ریاست کو چلانا ممکن نہیں تھا۔ یہاں
مختلف قسم کی تحریکات کھڑی کی گئیں۔ ان کو امریکہ یورپ سے فنانس کیا گیا۔
میڈیا نے اس مہم جوئی میں بھر پور کردار اد کیا۔ امریکہ نے نئے مہرے کے طور
بے نظیر اور اس کے ذیل میں نواز شریف کو چنا۔ میرا تجزیہ نگاروں سے سوال ہے
کہ نون لیگ اور پی پی میں وہ کون سی نظریاتی و سیاسی تبدیلی واقع ہوئی ہے
کہ وہ آج حسب سابق امریکی ایما پر حکومت نہیں کریں گے۔
بے نظیر اور مشرف میں امریکہ نے ڈیل کروائی تھی یہ سوچ کر کہ وہ بے نظیر کے
ذریعہ پاکستان میں فوج کو نتھ ڈال کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرے گا۔ مگر
بے نظیر نے پاکستانی سر زمین پر آکر چند دنوں میں اندازہ لگا لیا تھا کہ
یہاں کی سیاست میں کیا اتار چڑھاؤ واقع ہوچکا ہے چنانچہ مرحومہ نے دو
کشتیوں میں پاؤں رکھنے کی کوشش کی۔ ایک طرف پاکستانی فوج کے ساتھ چلنے کی
اور دوسری طرف امریکی وعدوں کو پورا کرنے کی۔ جب امریکہ نے حالات کاجائزہ
لیا اور دیکھا کہ پاکستانی ریاست بدستور ہماری گرفت سے باہر ہے تو امریکہ
نے عدم استحکام کے شکار پاکستان کو مزید غیر مستحکم کرنے کیلئے بے نظیر کا
قتل کروا دیا۔ اس قتل کا ذمہ دار ماسوائے امریکہ کے کوئی دوسرا نہیں اس کا
مہرا کوئی بھی بنا ہو اس مہرہ کی حیثیت ثانوی ہے۔
اب ان شرفاء کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تواس موجودہ سیاست کا حصہ بن جاؤ۔
اس سے وہ امریکہ سے کئے گئے وعدہ پورے نہیں کرسکتا تھا یا پھر اقتدار سے
علیحدہ ہوکر ان اداروں کو کمزور کیا جائے جو عوام میں اپنی جڑیں پکڑ رہے
تھے۔ ان شرفاء کو ان کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ اگر ہم حکومت کا حصہ رہے تو
اگلے الیکشن میں عوام ہمیں ووٹ نہیں دے گی۔ اس لئے ایسا کردار ادا کیا جائے
کہ اقتدار اور حزب اختلاف دونوں سے محظوظ ہوا جائے تاکہ ہمارا کام بھی چلتا
رہے اور عوام بھی بیوقوف بنے رہیں چنانچہ انہوں نے وفاقی حکومت سے استعفیٰ
دے دیے اور پنجاب حکومت کو سنبھالے رکھا۔ یعنی پنجاب کی نوکروڑ عوام پر
حکومت ۔اب آپ دیکھیے پاکستان کی باقی سات کروڑ عوام ہو یا پنجاب کی نو کروڑ
عوام ان میں کیا فرق ہے۔ سندھ، سرحد٬ بلوچستان، اور پنجاب کی عوام کو سستے
بازاروں میں دھکے پڑ رہے ہیں، کوئی دس روپے کلو آٹے کا ریلیف دے رہا ہے تو
کوئی دو روپے کی روٹی کا۔ ہمارا میڈیا ہے کہ وہ عوام کو مستقبل میں شریف
برادران کی حکمرانی کیلئے سنہرے دور کے خواب دکھا رہا ہے۔
ابھی چینی کے بحران کا ہی جائزہ لیں تو یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ بجلی
اور آٹے کی طرح یہ بھی مصنوعی بحران ہے۔ بحران تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شے
دستیاب ہی نہ ہو۔ یہ کیا کہ تیس روپے میں تو نہیں ہے مگر ساٹھ روپے میں
دستیاب ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خودساختہ اور من چاہا بحران ہے۔ وفاقی حکومت
نے چینی کا ریٹ ساڑھے انچاس روپے مقرر کیا تو پنجاب کی عوامی حکومت نے کہا
کہ یہ عوام پر ظلم ہے اس لئے اس کا نرخ پینتالیس روپے مقرر کیا جائے چنانچہ
وزیر اعظم نے اس سفارش کو مان کر پینتالیس روپے کردیا۔ اور عوام میں شرفاء
کی واہ واہ ہوگئی۔
عوام بیچاری یہ تو بھول ہی گئی کہ تین ماہ پہلے چینی کی بور ی۲۸۰۰روپے کی
تھی پھر تیس پر نہ رکی، پینتیس پر کسی نے غور نہ کیا، چالیس، پینتالیس پر
کوئی نہ بولا، پچاس پر کسی کو یاد نہ آیا، ساٹھ روپے کلو پر پہنچ گئی۔ اب
ہمارے عوامی لیڈرز ایکشن میں آگئے اور عوام پر احسان عظیم کرتے ہوئے
پینتالیس روپے چینی کی، کارخانہ سے نکلنے کی قیمت مقرر ہوگئی۔ بھولی عوام
کے لئے پندرہ روپے سستی ہوگئی چھوٹے چور اور بڑے چور کو گھر بیٹھے بیٹھائے
سترہ روپے کے منافع میں حصہ ملنے لگا۔ عوام کی اتنی مت مار دی کہ انہیں
معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ حکومتی ناگ کس کس طرف سے ہمیں ڈستے ہیں اور پتہ
بھی نہیں لگنے دیتے۔
اگر عوام ۹۸ اور ۹۹ کے دور کا تجزیہ کریں تو اس دور میں نون لیگ کی مطلق
العنان حکومت تھی۔ اور عوام کو اس دور میں بھی لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر
سستا آٹا ملتا تھا۔ جس کی پرچیاں سفارش سے ملتی تھیں۔ اسی طرح لاٹھیاں
برستی تھیں، اسی طرح کبھی گھی کا بحران تھا تو کبھی کسی شے کا۔ کاش عوام
الیکشن مہم کے دوران ان سے یہ تجزیہ بھی کروالیتی کہ جناب آپ اپنی پہلی
حکومت اور دوسری حکومت کے ریٹوں کا تجزیہ بھی کردیں کہ اس میں کتنا فرق پڑ
چکا تھا اور آپ نے اپنے دوسرے دور میں کتنی قیمتوں کو پیچھے دھکیلا تھا۔
کاش عوام ان سے الیکشن کے دوران انکی منصوبہ بندی کا پوچھ لیتی۔ جس طرح پی
پی پی نے توانائی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا کاش عوام اس قابل ہوتے
اور ان سے پوچھ سکتے کہ انکی کیا منصوبہ بندی ہے۔ تاکہ واضح ہوجاتا کہ یہ
ایران اور چین سے کیے گئے معاہدات سبوتاژ کر کے کرائے کے ناکارہ بجلی گھر
منہ مانگا کرایہ ادا کر کے منگوائیں گے۔ اور عوام بٹن دباتے وقت دس بار
سوچیں گے کہ استعمال کرنے کی کتنی قیمت ادا کرنی پڑی گی۔
الیکشن میں کامیابی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کسی نے بڑے شریف سے پوچھا
کہ جناب مہنگائی، دہشت گردی، اور بجلی کے مسائل کا حل کیسے ہوگا۔ انہوں نے
فرمایا کہ یہ سب مذاق ہے۔ (This is a joke) پاکستانی عوام کا سب سے بڑا
مسئلہ عدلیہ کی بحالی ہے۔ چیف جسٹس بحال ہوگا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
چیف جسٹس کی بحالی ہوگئی۔ نواز شریف اپنی آزاد کردہ عدلیہ کے طفیل تمام
مقدمات سے بری ہوگئے۔ مگر عوام لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے سڑکوں پر ماری ماری
پھر رہی ہے۔ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کیلئےان شرفاء کے بنائے گئے سستے
بازاروں میں پولیس کے ڈنڈے کھا رہی ہے۔ کبھی سخت گرمی میں کسی ٹرک کے پیچھے
لمبی لائن بنا کر آٹا اور چینی کیلئے پسینے سے شرابور کھڑی ہوتی ہے۔ جبکہ
یہ شرفاء اپنے پر تعیش محلات میں امریکی ایلچیوں سے ملاقاتیں کر کے مستقبل
میں اقتدارکے حصول کے تانے بانے بن رہے ہوتے ہیں۔
اگر آج بھی پاکستانی عوام ان سے نہیں پوچھتے کہ یہ اگلی دور حکمرانی کے
منتظر اور عوامی ہمدردی کے دعویدار جو آج عوام کو ان کی بنیادی ضروریات
نہیں دے پا رہے تو کل کیسے پوری کر کے دیں گے اور اگر ان کے پاس کوئی
منصوبہ بندی ہے تو اسے پیش کریں اور حکومت کے باہر رہ کر موجودہ حکومت کے
ساتھ تعاون کر کے کامیا ب کریں۔ اور عوام کو سکھ دیں مگر ان کے سامنے تو
مستقبل کا اقتدار ہے اس کیلئے اس موجودہ حکومت کی ناکامی ضروری ہے۔ ان کے
مستقبل کے اقتدار کی مضبوطی کا تعلق بلدیاتی اداروں کے خاتمہ سے ہے ۔
سترہویں ترمیم کا خاتمہ ان کا ہدف ہے تاکہ تیسر ی بار وزیر اعظم بنا جاسکے۔
کیا ان میں سے کسی چیز کا تعلق جمہور سے ہے۔اور بھولے جمہور ہیں کہ چھوٹے
چور اور بڑے چور کے چکر میں ہیں۔ جبکہ چور چور ہوتا ہے۔ چھوٹا چور ہی کل کو
موقع ملنے پر بڑا چور بنتا ہے اور بڑا ہاتھ مار کر بھاگ جاتا ہے اور کسی
بادشاہ کے ہاں محل میں زندگی گزارتا ہے۔ |