مشکوک محبتوں کا ولایتی جشن

کسی مانگے تانگے کے تہوار کے بغیر جوانی کی دہلیز کو دنیاوی پرہیز گاری کے ساتھ پار کر چکے تمام بڑے بوڑھوں کے بقول فروری جیسے غیر مقدس مہینے میں جدیدیت ، اور گلیمر کے کھڈوں میں اپنی ٹانگیں پھنساتی ، اندھے رومانس کو منہ مارتی نوجوان نسل اورہمارے ضرورت سے زیادہ ایڈوانس اورروشن خیال میڈیا کے سر پر جشن محبت کا وہ بھوت انگڑیاں لینے لگتا ہے جسے دیکھ کر پورے چودہ دن ان بزرگوں کی شرافت صدمے سے ڈری اور سہمی لا حول ولا کا ورد کرتی رہتی ہے۔کچھ احتیاط پسند اور بے بس بزرگ تو صدقہ خیرات کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی بکثرت ایک ہی وظیفہ کرتے رہتے ہیں’’ آل تو جلال توبے حیائی کے اپ کمنگ ریلے کو ٹال تو‘‘۔موسم بہار میں بھی بزرگ گلوں کے نہ ہی کھلنے کی دل سے دعائیں کرتے ہیں کہ یا خدا عزتوں پہ بھاری یہ مہینہ خیر خیریت سے گرزجائے۔ حالانکہ محبت کرنے والوں کو اپنے بزرگوں کی اس مد میں مانگی گئی دعاؤوں کی اشد ضرورت سارا سال ہی رہتی ہے۔ دوسری طرف محبت کے سچے پرستار جس خلوص نیت سے یوم محبت کے نام نہاد فیض و برکات سے لالو لال ہونے کے لیے ڈھول تاشے باجے اور رنگ برنگے سامان تعیشات کا اہتمام کرتے ہیں اس تہوارکے حقیقی ورثاء بھی یہ عالم بے خودی دیکھ کر ہکے بکے رہ جاتے ہیں۔ چلیں مان لیا دل کے ہاتھوں مجبور بلکہ مغربی کلچر اور انڈین فلموں کے سامنے بے بس نوجوانوں کامسلہ تو ان کی حد تک کا جنیو ئن ہی سہی مگر میڈیاکن گناہوں کی بخشش کی خاطر فی سبیل اﷲ اس کار خیر کا بیڑا اٹھائے پوری جانفشانی سے دیکھنے والوں کو کئی دن پہلے ہی یہ یقین دلانے کی جدوجہد کرتانظر آتاہے کہ ویلنٹائن نامی پردیسی تہوار کا جشن ہر محبت کرنے والے پر منانا واجب ہوچکا ہے ، یہ میڈیا والے ہی جانے ۔ گورے تہوار کو اپنا سمجھ کر منانے والوں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے دیس میں ہر شے خالص ملتی ہے سوائے محبت۔۔۔

آج کل فیشن اوروبا کی طرح پھیلتے عشق مجازی کی بھاگ ڈور ایسے زندہ دل عاشقوں کے ہاتھ میں ہے کہ جن کا نرالا انداز محبت، پراسرار چال ڈھال اور بکھرے ہوئے بال دیکھ کر خود محبت کی بھی کئی بار ہنسی نکل جاتی ہوگی۔ جبکہ معاملات دل میں بڑھتی ہوئی جملہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کی دیکھ کراس بے چاری پر بھی یقیننا ستاطاری ہو جاتاہوگا۔ حواس بحال ہونے پر یہ اپنے دعویداروں کے سامنے بال کھولے کھڑی کسی لاوارث بیوہ کی طرح فریاد کرتی ہوگی ’’ اے اکیسویں صدی کے بے ہدایتے عاشقوں!تمہارے اندازمحبت و عقیدت کو اکیس توپوں کی سلامی۔۔لیکن یہ بتاؤ! مجھ مسکین کو، کسی طرح اس الزام سے معافی نہیں مل سکتی کہ یہ جو کچھ تم کرتے ہو اسے محبت کہتے ہیں؟‘‘ زیادہ ترنوجوانوں کو ہرہفتے چڑھنے والے سچے پیار کا بخار اس بات کی گواہی ہے کہ محبت کا حال ہی نہیں مستقبل بھی خاصا مشکوک اور مزاحیہ ہوگا، دل والے محبت کے جنازے کو کندھا دینے کے دھوم دھام سے گھروں سے نکلیں گے۔’’ پاکیزہ محبت‘‘’’ صرف ایک خوش نصیب سے محبت‘‘ ’’ صرف ایک بار محبت‘‘’’محبت میں صرف ایک کے ہی ساتھ مکمل اور سچی وفاداری‘‘یہ سب عشق مجازی کی مظلوم اور پریمیوں کے ہاتھوں پہنچے والے جذباتی صدموں سے وفات پانے والی وہ متروک اصطلاحات ہیں جو سچے عاشقوں کی طرح صرف قبرستانوں یا تاریخ کی کتابوں پائی جاتی ہیں یاچند درد دل رکھنے والے پریمیوں کے زبانی کلامی دعووں میں ملتی ہیں ۔
ہمارے ہاں عشق مجازی جب تک پرہیز گاری کے دائرے، لواحقین عاشقاں، محلے داروں، رشتہ داروں ، رشتے کرانے والی ماسیوں،پولیس والوں کی عقابی نظر وں اور خودپر یمیوں کی پہنچ سے دورر ر ہتاہے تب تک باعزت،محفوظ او ر کسی حد تک قابل قبول رہتاہے۔ ؓبڑے بوڑھوں کے بقول محبت میں نمودونمائش اور اپنی معاشرتی اور دینی حدووں کو پھلانگ کر گولیاں ٹافیاں اور پھولوں کے ساتھ ساتھ ایزی لوڈ، موبائل کے تبادلوں جیسی کاروباری بدپرہیزیوں نے روزاول سے خراب پریمیوں کی ساکھ کو مزید خراب اور مشکوک تر کردیاہے۔ شوقیہ عاشقوں نے محبت کے حالات اس قدر خراب دئیے ہیں کہ آج راہ محبت وقتافوقتا اپنی جان تک سے گزر جانے والے مرحومین کی قربانیاں بھی داؤ پر لگی نظر آتی ہیں۔ خود پر انتہا پسند پریمیوں کا لیبل لگوانے والے یہ سر پھرے اور سرپھریاں ایسے جلدبازاور دھن کے پکے نکلے کہ،کسی نے گندم میں رکھنے والی گولیوں سے کام چلایا توکسی نے چوہے مار گولیاں کھا کر،کوئی پنکھے سے جھول گیا تو کسی نے اس طرح کی دوسری جان لوا ترکیبوں سے بے جگری سے مستفیض ہو کر ناکام غازی بن کر جینے سے شہیدمحبت بننامناسب سمجھا۔لیکن اس کے باوجود محبت کرنے والوں کی ساکھ پہلے سے بھی زیادہ خراب اور مشکوک ہے۔آج دوران فلم ہیرو ، ہیروئن کی سچی محبت کے لئے آبدیدہ ہو کر دعا ئیں کرنے والے والدین بھی اپنی اولددکے عشق مجازی کو سچا ماننے اور اس پر ایمان لانے کے لیے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔شاید وہ خود کو چاہتے ہوئے بھی یقین نہیں دلا سکتے کہ ہمارا بچا یا بچی اور سچی محبت۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ بڑا سے بڑا روشن خیا ل بھی ہمارے معاشرے محبت کرنے والوں کے جذباتی اورظاہری حالات دیکھ کر اندر سے ڈر جاتاہے۔ ویسے بھی سچی محبت کا یہ ورژن جس میں خوقسمتی سے شادی ہوجانے کی صورت میں بھی بدقسمتی سے عاشق اور محبوب میاں بیوی طلاق کے لیے رو رو کر اﷲ میاں سے دعائیں اور عملی اقدامات کرتے پائے جاتے ہیں، پرانی نسل کے والدین کی سمجھ میں کیسے آسکتاہے۔

بالی وڈ اور ہالی وڈ اسٹائل کے عشقیہ سیلاب کا ریلا عشق محبت کی مشرقی حدود و قیودکو نہ جانے کب کا بہلا لے گیا۔ اب تو ہوس ، بے حیائی ، بے راہ روی نے محبت کو عزتوں اور زندگیوں سے کھیلنے والاسفاک کھیل بناڈالاہے۔ عشق مجازی پر آئے شدید زاول اور ٹائم پاس محبت کے وبال کو دیکھ اگر آج ہیررانجھا ، سسی پنوں اور اس طرح کی دوسری نامو رعاشق ہستیاں زندہ ہوتی وہ تو یقیننا اپنے گدی نشین محبت فلیوز کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ منت ترلہ ضرور کرتیـ’’ اے ٹیکنکل محبت کے سائنس دانوں ، عشق و محبت جیسے انمول جذبے میں بھی اپنے ہی مفادات کے نگہبانوں خدا کے واسطے، کیوں ہماری ریاضیت کے ساتھ ساتھ ہمارا نام بھی مٹی میں ملانے پر تلے ہوئے ہو۔یہ عشق محبت تمہارے بس کاروگ نہیں تم تو بس سادہ شادی بھی ایمانداری سے نبھا لو تو وہ ہی بڑی بات ہے کیونکہ جتنا تمہارا اسٹمنا ، صبر ہے اور جیسی تمہاری عشق و محبت کی کوچنگ ہے تمہارا ڈائکریٹ شادی ہی کرنا بنتاہے۔ ‘‘

نوٹ: اس کالم کا مقصد عاشقوں کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ انہیں خراج حقیقت پیش کرناہے۔
Ahmed Nawaz Ishaq
About the Author: Ahmed Nawaz Ishaq Read More Articles by Ahmed Nawaz Ishaq: 7 Articles with 5242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.