وقت کا کام گزر جانا ہے۔ مگر ستم یہ ہے کہ وقت صرف گزرتا
نہیں، بلکہ اپنے ساتھ ہمیں کئی سُرنگوں سے گزار دیتا ہے! اور ہم زندگی بھر
گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے کبھی ہنستے ہیں، کبھی روتے ہیں۔
جوانی وہ زمانہ ہے جو آنے سے پہلے ہمیں کئی مراحل سے گزارتا ہے اور گزر
جانے کے بعد تو خیر کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ہم اِس میں سے کئی بار گزرتے ہیں۔
سوچا تھا ویلنٹائن ڈے پر کچھ ہلکا پُھلکا لکھا جائے۔ مگر صاحب جس کی جوانی
کو گزرے ہوئے ڈھائی عشرے گزر چکے ہوں وہ دِل و دِماغ کے بھاری پن کو لپیٹ
کر کون سے طاق پر رکھے؟ طاقِ نِسیاں پر تو ویسے ہی بہت کچھ دَھرا ہے۔
چند برسوں سے ویلنٹائن ڈے اِس دُھوم سے منایا جارہا ہے کہ ہم جیسے بہت سے
’’مورکھ‘‘ حیرت و سکتے کی ملی جُلی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے
جیسے دُنیا میں محبت پہلی پہلی بار دریافت ہوئی ہے۔ ابتداء میں تو ہم بھی
یہی سمجھے کہ شاید اب تک جو کچھ محبت کے نام پر ہوتا آیا تھا وہ کچھ اور
تھا۔ یا تو ہماری دنیا معلوم کائنات میں نہ تھی یا پھر اِس کی محبت کچھ اور
تھی۔ یاروں نے سینٹ ویلنٹائن کو نئے سِرے سے دریافت کیا اور دُنیا کو بتایا
کہ جب جوانی آئے تو باقی سارے دھندے چھوڑ دو اور محبت کے ہو رہو۔ اور یہ مت
سوچو کہ نشا اُترے گا تو کیا ہوگا۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ سینٹ ویلنٹائن
کو تو نئے سِرے سے دریافت کرلیا گیا مگر اُن کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے
اُس کا کوئی سِرا ہاتھ نہیں آرہا!
آج ہمیں اپنی جوانی کا زمانہ یاد آتا ہے تو شُکر کے سجدے کرنے کو جی چاہتا
ہے کیونکہ جس طور ہماری جوانی گزری تھی اُس کی رُو سے تو ہم آج کے شُرفا کی
صفِ اول میں ہیں! اب سوچ سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ تب جوانی وارد ہوتی تھی تو
سوچا جاتا تھا کون سی لائن میں کیا کرنا ہے، زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا
بننا ہے۔ بھری جوانی کے سَر پر زندگی کی فکر پہاڑ کی طرح براجمان ہوتی تھی۔
آج کی نئی نسل مزے میں ہے کہ جوانی ہی کو کُل زندگی سمجھ کر خوش ہو رہتی ہے۔
ہمارے زمانے میں سادگی کی انتہا یہ تھی کہ گلاب کا ڈھیر دیکھ کر گُل قند
بنانے کے علاوہ کوئی خیال ذہن میں کوندتا ہی نہیں تھا! اور اگر کچھ گلاب
گُل قند کی تیاری سے بچ رہتے تھے تو اُن کی پتیوں سے خوشبودار پانی تیار
کیا جاتا تھا تاکہ میلاد کی محفل یا قبر میں چھڑکنے کے کام آئے!
اُس بھلے دور میں دو دِلوں کو ملانے کے معاملے میں گلابوں کو کوئی کردار
ادا کرنے کی زحمت نہیں دی جاتی تھی۔ یہ کانٹے دار مرحلہ خاندان کے بُزرگ طے
کیا کرتے تھے۔ گلاب اگر یاد بھی آتے تھے تو اُس وقت جب دولھا میاں بارات کی
سربراہی کے لیے نہاکر نئے کپڑے پہن چُکتے تھے۔ تب لوگ تھوڑی سی سجاوٹ کے
لیے گلاب کا ہار گلے میں ڈال دیا کرتے تھے تاکہ چیز ذرا اچھی بن جائے!
شُکر ہے آج میڈیا والے نئی نسل کو گلاب کے دُرست استعمال سے آگاہ کر رہے
ہیں۔ ذہنوں پر گلاب کی ایسی بمباری کی گئی ہے کہ اب اِس پُھول کو دیکھتے
ہوئے دِل و دِماغ میں محبت کے گھنٹے بجنے لگتے ہیں! اب اگر کبھی گلاب کو
دیکھ کر سُونگھنے کا جی چاہ رہا ہو تب بھی ہم اپنی خواہش کو دبا دیتے ہیں
کہ کہیں ہاتھ میں گلاب دیکھ کر لوگ کسی تازہ محبت کی بُو نہ سُونگھتے پھریں!
میڈیا والے ’’رضاکارانہ طور پر‘‘ بہت کچھ سِکھانے پر تُلے ہوئے ہیں مگر
صاحب! آج کی نئی نسل اِس بات کی مُکلّف کب ہے کہ اُسے کچھ سِکھایا جائے،
ہاں اُس کے اَن سیکھے پن سے ہم بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کریں تو کچھ ہرج
نہیں۔ اب نئی نسل کِھلے ہوئے پُھولوں سے کہیں بڑھ گُل کِھلانے پر یقین
رکھتی ہے! عنفوانِ شباب کی کیفیت کو پُھولوں کی حاجت کیا ہو، اُس کی حیثیت
تو خود ایک گلستان کی ہے! عمر کے اِس خطرناک موڑ پر تو بوندا باندی میں بھی
سیلاب برپا کرنے کی طاقت ہوتی ہے!
پچیس تیس سال پہلے اگر محبت کا کوئی ’’کیس‘‘ ہو بھی جاتا تھا تو سات پردوں
میں لپٹا ہوا ہوتا تھا تاکہ زمانے کی ہوا نہ لگے۔ فکر دامن گیر ہوا کرتی
تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ آج کے لڑکوں اور لڑکیوں کو فکر لاحق رہتی ہے کہ
کہیں ایسا نہ ہو کہ زمانے کو اُن کی محبت کا علم نہ ہو اور مُحبّت کی ’’توقیر‘‘
داؤ پر لگ جائے! آگرہ کے نزدیک کچوری گاؤں میں کسی نوجوان کی شادی ہو رہی
تھی۔ وہ ہونے والی بیوی کے ساتھ سات پھیرے لینے ہی والا تھا کہ اُس کی
محبوبہ آدھمکی۔ وہ اپنے باپ اور دو نوجوانوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر آئی
تھی۔ شادی کے شامیانے میں قیامت برپا ہوئی۔ اُس نے دولھا سے صاف کہہ دیا کہ
یہ نہیں ہوسکتا کہ شادی کے وعدے کسی سے اور شادی کسی سے۔ یہ انتباہ بھی کیا
کہ کسی اور سے شادی کی تو جیل کی ہوا کھلاؤں گی! اور پھر سب کے سامنے وہ
دولھا کو موٹر سائیکل پر لے اُڑی! اِس واقعے کو پڑھ کر ہمیں پھر اپنا جوانی
کا زمانہ یاد آگیا۔ تب کے تو بدمعاش بھی اِتنے بدمعاش نہیں ہوا کرتے تھے!
محبت عین موقع پر کیا کیا گُل کِھلاتی ہے، اِس کا اندازہ کچھ اُنہی کو
ہوسکتا ہے جو محبت کی اوکھلی میں سَر دے بیٹھے ہوں۔ ہم تو ذرا سے چاول دیکھ
کر دیگ کا صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کانپور کے علاقے کاکا دیو میں ایک لڑکی
کی شادی ہو رہی تھی۔ تمام رسمیں انجام کو پہنچ چکی تھیں۔ سات پھیرے ہونے ہی
والے تھے کہ لڑکی کا جی مَتلانے لگا۔ تھوڑی سی تازہ ہوا کھانے کے لیے وہ
اپنی ماں کے ساتھ چھت پر چلی گئی۔ اور وہاں ماں کی نظر چُوکی تو لڑکی پڑوسی
کے لڑکے کے ساتھ اُڑن چُھو ہوگئی! معلوم یہ ہوا کہ دونوں کے گھر ہی نہیں،
دِل بھی مِلے ہوئے تھے! اب آپ سوچ رہے ہوں گے جب بھاگنا ہی تھا تو پہلے
بھاگ جاتی، باپ کا شادی کا خرچہ تو بچ جاتا! اور جات برادری کے سامنے تو
ناک نہ کٹتی۔ آپ کی سادگی پر ہمیں ہنسی آرہی ہے۔ نئی نسل کوئی آپ سے پوچھ
کر ایڈوینچر کرے گی! اُس کے اپنے طور طریقے ہیں۔ جو کچھ اُسے کرنا ہے، اپنی
مرضی کے مطابق ہی کرنا ہے۔ اور اِسی میں تو مزا ہے! جہاں تک خرچے کا تعلق
ہے تو صاحب وہ کہاں بچنا تھا؟ لونڈیا خالی ہاتھ نہیں گئی، ڈیڑھ لاکھ کے
زیور بھی لے اُڑی! نئی نسل پاگل ضرور ہے، چریا نہیں ہے۔ اُسے اندازہ ہے کہ
ہنگامی قدم اُٹھانے کے بعد سو طرح کے خرچے بھی بھگتنے ہوتے ہیں۔ اور اگر
لڑکی زیور سمیت بھاگی تو حیرت کیوں؟ اُسی کے لیے تو بنائے گئے تھے!
یہ سینٹ ویلنٹائن ہی کی مہربانی ہے کہ بہت سی بیکار پڑی ہوئی چیزوں کو
عمدگی سے ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ وقت ہی کی مثال لیجیے۔ پاکستانی معاشرے کا
ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ بے مصرف پڑے ہوئے وقت کو کِس طور ٹھکانے
لگایا جائے۔ نئی نسل نے محبت کا تیر کھاکے اب وقت کے سینے میں موبائل نائٹ
پیکیج کا تیر اُتار دیا ہے! وقت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ پڑے پڑے بڑھتا
رہتا ہے۔ اچھا ہے کہ نئی نسل اِسے رات بھر قتل کرتی رہے اور صبح کو توبہ
کرلیا کرے! جواں دِلوں کی رات بھر ’’سرگوشیانہ‘‘ گفتگو بھی دِلوں کا بوجھ
کم کرنے ہی کے لیے ہے۔
دِلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے!
ویلنٹائن ڈے ہماری روایت نہیں مگر اِسے جس خوبصورتی سے ہمارا بلکہ سب کا
بنادیا گیا ہے اُس کی داد نہ دینا ذوقِ سلیم کے منافی ہوگا۔ ویلنٹائن ڈے سے
اِتنا تو ہوا کہ ہماری نئی نسل کہ جس کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا، ٹھکانے سے
لگادی گئی ہے! کیوپڈ کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا ہے۔ کچھ کر گزرنے کی عمر کا
مُثلہ قوم کو مبارک ہو! |