اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام اپنے ماننے
والوں کے گھر اور معاشرے کو پر بہار اور مسرت بخش دیکھنا چاہتا ہے ۔اس لئے
اس نے ارشادات و واضح ہدایت کیساتھ کیساتھ اوامر و نواہی کا بھی مربوط نظام
ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے ۔اسلام میں جہاں محبت و اخوت ،احترام و عزت کے
جذبے دلوں میں پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔وہیں مسلمانوں کو ایسی تمام
باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کے باعث اسلامی معاشرے کا امن و
سکون برباد ہو جاتا ہو ۔محبت و پیار کے رشتے منقطع ہو جاتے ہوں اور باہمی
خون خرابہ کا آغاز ہو جائے اور ان تمام باتوں کے نقصانات کو کتاب و سنت میں
بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے ۔فانی دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے
والا انسان ایمان و یقین کے اجالے میں ان کو پڑھ کر غور کرے اور ان سے
اجتناب کرنے لگ جائے تو امن و سلامتی ،عزت و عظمت کے نرالے نمونے وہ اپنی
آنکھوں سے خود دیکھ لے گا۔
اسلامی معاشرہ میں جہاں انسانوں کے دیگر اعضاء کے ذریعے جنم لینے والے
گناہوں نے قبضہ جما رکھا ہے وہیں زبان کے ذریعہ پیدا ہونے والے گناہوں نے
بھی اپنے قدم جمارکھے دئیے ہیں ۔جس کے نتائج سے معاشرے میں نکھار کی بجائے
تخریب کاری پھیل رہی ہے ،جو معاشرے کوسانپ کی طرح ڈس رہی ہے ۔
واضح رہے کہ گناہ کوئی بھی ہو اور کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو اس کا ارتکاب
بندے کو طاعت و عبادات بجالانے سے محروم کر دیتا ہے ۔نیز اس کی نحوست سے
انسان ذلت و رسوائی کے گہرے گڑھے میں چلا جاتا ہے ۔اسی لئے قرآن و حدیث میں
حفاظت زبان کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور بیہودہ گوئی سے اسے بچانے کا حکم
دیا گیا ہے ۔فصاحب و بلاغت سے لبریز یہ کلمات تو ملا حظہ فرمائیے :قد افلح
المؤمنون ،الذین ھم فی صلاتھم خاشعون ، والذین ھم عن اللغو معرضون۔’’بیشک
مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں اور وہ جو کسی
بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے ۔‘‘(مومنون آیت 1تا3)
تیسری آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ’’لغو‘‘جس سے مراد ہر وہ قول اور فعل
ہے جو فضول اور بے فائدہ ہو۔بزرگ فرماتے ہیں کہ:
’’مومن کا تو ہر لمحہ بڑا قیمتی ہے ،اس کے کندھوں پر تو ذمہ داریوں کا بارِ
گراں ہے ۔اس کو فرصت ہی کہاں کہ وہ بیکار اور فضول کاموں میں شرکت کر سکے
۔‘‘
حجۃ الاسلام امام محمد بن غزالی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :’’اے عزیز معلوم
ہونا چاہیے کہ زبان عجائبات صفات الہٰی سے ہے ،اگر چہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا
ہے لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے کیونکہ وہ
موجود و معدوم دونوں کا بیان کرتی ہے ،زبان عقل کی نائب ہے اور عقل کے
احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور جو کچھ عقل ووہم اور خیال میں آتا ہے
زبان اس کی تعبیر کرتی ہے ۔(اس کو بیان کرتی ہے ) انسان کے کسی دوسرے عضو
میں یہ صفت نہیں ہے ۔‘‘(کیمیائے سعادت ،503)
زبان بے شک اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکریہ ہم زندگی بھر کما حقہ
ادا نہیں کر سکتے ،مگر ہم نے اس بے مثال نعمت کی قدر صحیح معنی میں نہیں کی
۔بلکہ اس کے بر عکس اس کے ذریعہ ہم نہ جانے کیسے کیسے غیر شرعی کام کر لیتے
ہیں ۔اسی لئے تو حدیث پاک میں زبان کی حفاظت کے بارے میں تاکیداً حکم آیا
ہے ۔
چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت ﷺمیں
عرض کیا :’’یا رسول اﷲ ﷺ نجات کیا ہے ؟ فرمایا ! اپنی زبان کو بری باتوں سے
روکو۔‘‘
حضرت سفیان بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک دفعہ دربار
رسالت ﷺ میں عرض کیا ۔یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ میرے لئے سب سے خطر ناک چیز اور
نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں ؟ تو سرکار مدینہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو
پکڑکر ارشاد فرمایا کہ ’’اسے‘‘(ترمذی شریف)
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ ’’جتنا زبان کو قابو رکھنے
کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں ،کیونکہ زبان
کی آفتیں بہت زیادہ ہیں ۔انسان کے سرگناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب
اعضاء سے بڑھ کر ہے ۔‘‘
تو معلوم ہوا کہ زبان سب سے زیادہ ضرررساں اور خطر ناک ہے ۔لہٰذا اس کی
حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لئے بڑی کوشش و جدو جہد کی
ضرورت ہے ۔
حضرت یونس ابن عبد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ :’’ میر ا نفس بصرہ جیسے
گرم شہر میں سخت گرمی کے دنوں میں روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتا ہے ،لیکن
فضول گوئی سے زبان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔‘‘(منہاج العابدین از امام
غزالی)
اب آئیے حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ کے بیان کرد ہ و ہ اصول و
لوازمات ملاحظہ کریں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم کافی حد تک اپنی حیات مستعار
میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں ۔اس لئے کہ بسا اوقات انسان زبان کی وجہ سے
ایسی مشکلات میں مبتلا ہو جاتا ہے جن سے نکلنا امر مشکل ہو جاتا ہے ۔نیز ان
کی وجہ سے زندگی میں موجود سکون بے سکونی میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔امام موصوف
رقم طراز ہیں :
پہلا اصول :وہ جو سیدنا حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انسان
روزانہ صبح جب بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے مخاطب ہو کر اسے تاکید
کرتے ہیں کہ دن میں درستی اور صداقت پر قائم رہنا اور بیہودہ گوئی سے بچے
رہنا ،کیونکہ اگر تو درست اور ٹھیک رہے گی ۔تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر
تو کج روی کے راستے پر چلے گی تو ہم بھی کج روی کے راستے پر چل پڑیں گے ۔
میں کہتا ہوں کہ اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ زبان کی اچھی بری باتیں انسانی
جسم کے تمام اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔اچھی باتیں تو مزید تو فیق خدا
وندی کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں اور بری ذلت و خواری کاباعث ۔
اس سلسلے میں حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ سے جو منقول ہے وہ بھی اس
معنی کی تائید کرتا ہے ۔آپ فرماتے ہیں :جب تم اپنے دل میں قساوت ،بدن میں
سستی اور رزق میں تنگی محسوس کرو تو سمجھ لو کہ تم سے کہیں فضول اور لا
یعنی کلمے نکل گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے ۔‘‘
دوسرا اصول:وقت بہت قیمتی شئے ہے اس کی قدر کرنا بہت ضرور ی ہے اور ذکر
الہٰی کے سوا اس کی حفاظت ناممکن ہے کیونکہ بندے سے لغو اور بیکار باتیں ہو
جاتی ہیں اور ان فضول باتوں میں پڑ کر وقت ضائع ہو جاتا ہے ۔حضرت حسان بن
سنان رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گذر ے تو اس کے
مالک سے دریافت کیا : یہ بالا خانہ بنائے تمہیں کتنا عرصہ گذرا ہے ؟یہ سوا
ل کرنے کے بعد آپ دل میں سخت نادم ہوئے اور نفس سے مخاطب ہوکر فرمایا :’’اے
مغرور نفس! تو فضول ولا یعنی سوالات میں وقت عزیز کو ضائع کرتا ہے ‘‘
’’پھر اس فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال روزے رکھے ۔‘‘
وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو وقت عزیز کی قیمت جان کر اس کی قدر کرتے ہیں
اور اپنی اصلاح نفس میں مصروف رہتے ہیں اور کتنے بد قسمت اور احمق ہیں وہ
لوگ جنہوں نے زبان کی لگام ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور لغویات میں مشغول رہتے
ہیں ۔
تیسرا اصول:حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے ۔کیونکہ جو شخص
زبان کی نگہداشت نہیں کرتا ۔بلکہ ہر وقت گفتگو میں مصروف رہتا ہے ،تو لا
محالہ ایسا شخص لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے مشہور فقرہ ہے :من کثر
لفظہ کثر غلطہ۔’’یعنی زیادہ گو غلطیاں کرتا ہے ۔‘‘
اور غیبت اعمال صالحہ کو اس طرح تباہ کرتی ہے جس طرح آسمانی بجلی۔ غیبت
کرنے والے آدمی کے اعمال اس طرح ضائع ہوتے ہیں جس طرح پتھر منجنیق (ایک طرح
کی توپ) میں رکھ کر مشرق و مغرب اور جنوب و شمال میں پھینک دئیے جائیں ۔
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کو کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی
غیبت کی ہے ،تو آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کچھوروں کا ایک تھال بھر
کرروانہ کیا اور ساتھ ہی کہلابھیجا کہ سنا ہے کہ تو نے مجھے اپنی نیکیاں
ہدیہ کی ہیں ،تو میں نے ان کا معاوضہ دینا بہتر جانا ۔
حضرت عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ کے سامنے کسی نے غیبت کا ذکر کیا ،تو آپ
نے فرمایا ! اگر میں کسی کی غیبت کرنا درست جانتا ،تو اپنی ماں کی غیبت
کرتا ، کیونکہ سب سے زیادہ میری نیکیوں کی مستحق وہ ہے ۔(منہاج العابدین
صفحہ109,108)
اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی زبان کی حفاظت اسی وقت کر سکے گا، جب خاموشی
اختیار کرے گا ۔جب زبان کھلے گی ہی نہیں تو لا یعنی باتوں کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا ،اسی لئے تو رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! من سکت سلم ’’جو چپ
رہا وہ سلامت رہا ‘‘
اسلام میں خاموشی کی بڑی اہمیت ہے ۔یہ خود اچھا عمل ہے تو جو اس عمل کو
اختیار کرے گا یقینا وہ کئی اعمال اسکے ذریعے کرے گا اور خاموش رہنا تو ایک
طرح سے سوچنا ہے اور کائنات خدا وندی میں غور و فکر کرنا بھی بڑا پسندیدہ
عمل ہے ۔سورۃ الانعام کی آیت کریمہ ۔وھو الذی انزل من السمآء ماء الخ۔کی
تفسیر میں ہے :’’اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا پہچاننا مشکل ہے ،تمہارے
اُوپر اور نیچے تمہارے دائیں اور بائیں میری مصنوعات اور تخلیقا ت کا جو
بازار سجا ہوا ہے۔ اسی میں غور و فکر کرو ہر چیز یہ پکارتی ہوئی سنائی دے
گی کہ وہ اپنی نیرنگیوں اور سمیت خود بخود موجود نہیں ہو گئی بلکہ اس کا
بنانے والا ہے جو سب کچھ جاننے والا ۔ہر چیز پر قدرت والا ہے ۔ذرا دیکھو
بیج کا دانہ شق ہو رہا ہے اس میں ایک نرم و نازک بالی نکل آئی ہے اسے آپ
کمزو رنہ سمجھئے یہ تو مٹی کی کئی انچ موٹی تہہ کو چیر کر نکلی ہے ۔یہ
بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ،وہ بالی اب ایک ننھے سے تنے میں تبدیل ہو رہی ہے
ہوا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کے لئے مناسب فاصلوں پر اس میں گر ہیں ڈالی
جارہی ہیں اب اس کے سر پر ایک خوشہ سانمودار ہو گیا ہے ،اس کی جیبیں اب
دانوں سے بھر گئی ہیں یہ پودا جو پہلے ہرا بھرا اور نرم و نازک تھا ۔اب
اپنا رنگ تبدیل کر رہا ہے غور کرنے والی آنکھ خود فیصلہ کر لے کہ یہ کیا
اندھے مادے کی کاریگری ہے یا علیم و خبیر پر وردگار کی صنعت کا اعجاز ہے
۔پھل لگنے سے لے کر پکنے تک اس کی مقدار اسکی بو اور اس کے ذائقہ میں آہستہ
آہستہ موقع بہ موقع جو تبدیلیاں رو نما ہو تی رہتی ہیں اسی پر انسان غور
کرے تو حقیقت واضح ہو جائے گی ۔
اسی طرح کئی ایک آیات ربانی میں مخلوقات خداوندی کے بارے میں بھی غور و فکر
کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے ۔
احادیث کریمہ میں بھی رحمت عالمیان ﷺ نے غو ر وفکر کرنے کی اپنے چاہنے
والوں کو تاکید فرمائی ۔
چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ :’’ رموز کائنات میں ایک گھنٹے کا تفکر
و تدبرستر برس کی عبادت سے بہتر ہے ۔‘‘
تو عرض کرنے کا مدعا یہ ہے کہ ہم کائنات خداوندی میں تفکر و تدبر اسی صورت
میں اختیار کر سکتے ہیں جب ہم فضول اور بیہودہ گوئی کے بجائے خاموشی کو
اپنائیں گے ۔یہ بھی واضح رہے کہ چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ
نہیں کہ آدمی بالکل نہ بولے بلکہ مرادیہ ہے کہ انسان ضرورت کی بات کرے
لایعنی باتوں سے پر ہیز کرے ۔اسی لئے تو فرمایا گیا کہ بری بات کرنے سے چپ
رہنا سنجیدگی کی بات ہے اور اچھی بات کہنا چپ رہنے سے بہتر ہے۔ چپ رہنا
سنجیدگی کی علامت ہے جب آدمی چپ ہو تا ہے اور مجلس میں اچھی باتیں کہی جار
ہی ہیں تو گویا وہ صحیح طور پر ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اسلام
ایسے ہی افراد تیار کرتا ہے ۔جو سوچنے والے زیادہ ہوں اور فضول گوئی سے چپ
رہنے کو محبوب جانتے ہوں ۔
اسلاف کرام کی حیات پاک کا مطالعہ کرنے سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ
انہوں نے کس طرح حفظِ لسان کا خیال رکھا اور فضول ولا یعنی باتوں سے اپنے
آپ کو کس طرح بچایا نیز اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کا درس دیا ۔
چنانچہ ابن ابی مطیع رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ۔
۱: ’’زبان (تباہ کرنے میں )گھات میں چھپے ہوئے شیر کی مانند ہے جو موقع
پانے پر غارت گری کرتا ہے ۔
۲: ’’اس لئے اسے خاموشی کی لگام دے کر لغویات سے بند رکھ اس طرح تو بہت سی
آفات و بلیات سے بچ جائے گا۔‘‘
ہمارے اسلاف نے حفاظت زبان کے بارے میں جو مثالی نمونے پیش فرمائے ہیں وہ
ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں ،اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو
گا کہ انہوں نے فضول باتوں سے حفاظت زبان ہمیشہ اپنا شیوہ رکھا ۔اور ’’ایک
چپ سوسکھ‘‘ کے مصداق رہے ۔
لیکن موجودہ معاشرہ فضول گوئی و بیہودگی میں سابقہ ادوار پر نمبر لے گیا
۔گندے مذاق، شغل و یاوہ گوئی افراد معاشرہ میں خوراک کی حد تک رچ پس گئی
ہے۔ ساری ساری رات زبان سے گالیاں ،غیبت اور قہقہے سر عام ہیں نہ نماز کی
فکر اور نہ آداب انسانیت۔
معزز قارئین! جب تک ہم قرآن و سنت اور اسلاف کی پاکیزہ تعلیمات کو اپنا کر
اپنی زبان کی حفاظت نہیں کریں گے تب تک ہمارے رزق میں برکت ، مال کی
فراوانی عزت و مقام اور جاہ و جلال میں اضافہ نہیں ہو سکتا ۔ اﷲ تعالیٰ
ہمیں اپنے محبوب دانائے خفایا و غیوب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے صدقے ’’ حفاظتِ
زبان‘‘ کی توفیق دے ۔آمین!
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں |