اسلام میں حربی اخلاقیات

بسم اﷲالرحمن الرحیم

(جنگ وجدل کی اسلامی تعلیمات)

اسلام نے جہاں ہر میدان میں تعلیمات فراہم کی ہیں وہاں میدان حرب کو بھی آداب انسانیت سے آشنا کیاہے۔دنیا کی تمام اقوام کے ہاں حالت امن اور حالت جنگ کے پیمانے مختلف ہواکرتے ہیں،حالت امن میں تہذیبوں کے دروس و بیانات اور تلقین و ارشادات امن ،پیار،محبت،آشتی اور رکھ رکھاؤ کے ہوتے ہیں اور انہیں دشمن،دوست،امیر غریب،کمزوراور طاقتور سب برابر نظر آرہے ہوتے ہیں اور بلند بانگ دعووں کی حد تک وہ سب کے لیے اپنے دامن میں پیار ہی پیار پاتے ہیں اور اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے نظر آتے ہیں۔حالت جنگ میں عام طور پر اور فتح یاب افواج کے ہاں خاص طور پر یہ پیمانے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں اور اپنوں کے لاشے خون میں لت پت دیکھ کر مفتوح اقوام کے افراد کے بارے میں فاتح تہذیبوں کا رویہ بالکل تضاد کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک دم سے چند لمحے پہلے کے پیارومحبت اور برداشت و اعلی اخلاقیات کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انتقام و بدلہ اور عداوت و دشمنی ان کی جگہ لے لیتی ہے۔یہ کام اگرچہ میدان میں اور مفتوح علاقوں میں افواج ہی کرتی ہیں لیکن ان افعال کے ذمہ داراس تہذیب کے اولین راہنمااوراس ثقافت کی تعلیمات ہوتی ہیں جو ان افواج کی رگوں میں دوران تربیت خون کی طرح دوڑائی جاتی ہیں اور وہ افواج قتل و غارت گری کے دوران دراصل اپنی اقوام و تہذیب کانمائندہ کردار پیش کر رہی ہوتی ہیں۔کم و بیش کل انسانی تاریخ و تہذیب کے برعکس اسلام نے ایک بالکل مختلف انداز سے اپنے کردارکو انسانیت کے سامنے پیش کیاہے خاص طور پر امن کے حالات کے علاوہ جنگ کے حالات میں بھی اور جذبہ انتقام اور مفتوح اقوام پر مکمل دسترس کے باوجود مسلمانوں کے پیمانے حالت امن اور حالت جنگ میں یکساں ہی رہے ہیں۔

محسن انسانیت ﷺ کی آمد سے قبل انسانی معاشرے جنگل کا روپ دھار چکے تھے اور خاص طور پر جنگ و جدل جو اگرچہ انسانوں کے درمیان ہواکرتی تھی لیکن انسانیت سے بالکل عاری ہو چکی تھی اور اس بات کا کوئی تصور ہی نہ تھا کہ جنگ کے دوران بھی کوئی اخلاقیات انسانی رویوں میں در آسکتے ہیں؟؟افراد،شعوب،قبائل اور اقوام کے درمیان تو جنگ اگرچہ وحشت و بربریت اور درندگی و سفاکی کا نشان بن ہی چکی تھی لیکن حد افسوس تو یہ ہے مذاہب کی چھتری تلے ہونے والی جنگ بھی جائزوناجائزاور درست و غلط کے تصور سے بالکل عاری نظر آتی تھی اور مخالف مذہب کے پیروکارکسی رنگ،نسل،زبان اور جنس سے تعلق رکھتے ہوں زن و مرد ہوں یا پیروجوان و بچگان ہوں یا بیمارو ناتواں ہوں حتی کہ ان کی لاشیں ہی کیوں نہ ہوں مذہبی تعلیمات نے ان کو بھی انسانیت کے ترازو میں تولنے سے انکار کیااور ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی الامان و والحفیظ۔لیکن اسلام نے اپنی آمد کے بعد حرب و جنگ کے ان معیارات کو یکسر تبدیل کیااور بامر مجبوری میدان حرب میں آجانے کے بعد بھی اخلاقیات کے دامن کو چھوڑناگوارانہ کیااور حرام و حلال کی حدود کو پامال کرنا مناسب نہ سمجھااور ایک ہاتھ میں تلوار تھماکرتو دوسرے ہاتھ میں کتاب اﷲ کومضبوطی سے پکڑادیاکہ ان دونوں کا تعلق دوران قتال بھی قائم رہے اور انسانوں کے ہاتھوں سے درس انسانیت نکلنے نہ پائے۔اسلام کے اصول ہائے جنگ کاخلاصہ اس فرمان سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے جو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقرضی اﷲ تعالی عنہ نے اپنے اولین لشکرجو حضرت اسامہ رضی اﷲ تعالی عنہ کی قیادت میں روانہ ہورہاتھا اس کو حکم فرمایاتھا:
1۔دشمن کو قتل کرنے بعد اس کی لاش کا مثلہ مت کرنا۔
2۔بچوں اور بوڑھوں کو جو تم سے لڑنے کی سکت نہ رکھتے ہوں ان کو قتل نہ کرنا اور عورتوں سے بھی کوئی سروکار مت رکھنا۔
3۔فصلوں اور باغات کو مت اجاڑنا۔
4۔گزرگاہوں کو نذرآتش مت کرنا۔
5۔پھل دار درختوں کو مٹ کاٹنااوراتنے جانور ذبح کرناجن کا گوشت کھانے کے لیے کافی ہواور جانوروں کا ضیاع مت کرنا۔
6۔عبادت گاہوں میں مصروف لوگوں کو کچھ مت کہنااور انہیں اپنے کام میں لگے رہنے دینا۔
یہ حقائق بتاتے ہیں کہ اسلا نے جنگوں کا جو حکم دیاہے وہ محض رضائے خداوندی کے لیے ہی تھااور اس کا مقصد سورش،ہنگامہ اور خون خرابہ ہر گز نہ تھا اسی کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیاکہ :
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

اور یہ اسلامی تہذیب کا ہی خاصہ ہے کہ جنگوں کے دوران بھی اپنے لکھے ہوئے اصولوں پر سختی سے کاربند رہے اورانسانیت اور للھیت کادامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔اوراگر دشمن سے کوئی معاہدہ کیاتواسے اس وقت تک نبھایاکہ جب تک وہ دشمن کی حد امکان میں موجود رہاکیونکہ قرآن مجید نے حکم دیاہے کہ :
’’اﷲتعالی عدل و احسان کاحکم دیتاہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتاہے ،وہ تمہیں نصیحت کرتاہے تاکہ تم سبق لو۔اﷲ تعالی کے عہد کو پوراکیاکرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھاہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اﷲتعالی کو اپنے اوپر گواہ بناچکے ہو،اﷲ تعالی تمہارے افعال سے باخبر ہے ۔‘‘(سورہ نحل آیات90,91)

مسلمانوں کی فتح ایک ایسے گروہ کی فتح ہوتی ہے جو ایک خدا کو خوش کرنے کے لیے جنگ کرتے ہیں اور میدان جنگ میں مر جانے کو اﷲ تعالی کے راستے میں شہادت سے تعبیر کرتے ہیں۔ایسا گروہ فتح کے بعد بھی ایسے ہی کام کرے گا جو اس کے خداکی خوشنودی کاباعث ہوں ۔قرآن مجیدنے ایسے فاتحین کے بارے میں فرمایا کہ :
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ،زکوۃ دیں گے اورنیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اﷲ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘(سورۃ حج آیت41)

یہ وہ حدود کار ہیں جو اسلامی تہذیب نے فاتحین کے لیے مقرر کر دی ہیں کہ وہ انسانیت کی فلاح کا انتظام کریں گے،عدل اجتماعی قائم کریں گے حقوق وفرائض کی ادائگی کے ضامن ہوں گے اور خیر و شر کے فرق کو معاشرے میں رائج کریں گے۔

ایک زمانے سے دنیا دیکھتی آرہی ہے کیسی کیسی اقوام جن کی کتب میں شاندار دروس اخلاقیات کنداں ہیں لیکن عملاََ ان کا کردار خاص طور میدان حرب میں ظلم و ستم وتعدی اور وعدہ خلافی اور زوروزبردستی پر مبنی ہوتاہے۔ماضی بعید سے صرف نظر کرتے ہوئے ماضی قریب کی سیکولر استعماری طاقتیں جن کی زبان انسانیت کی تسبیح سے تھکتی نہیں ہے بیسویں صدی کے آغاز سے اختتام تک دنیاکے نقشے پر کھیلی جانے والی خون کی شرمناک ہولی سے ان کا دامن بری طرح آلودہ اور رنگین ہے۔اپنے دور اقتدراکے عروج میں انہوں نے اپنے ہی قائم قائم کیے ہوئے اصولوں کو کس طرح پائمال کیا ،یہ نوشتہ دیوار ہے جسے مورخ کے قلم نے بڑی دیانتداری کے ساتھ سپرد قلم کیاہے اور تاریخ کے طالب علم سمیت آج ہر اخبار بین اس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہے۔برطانوی،فرانسیسی اور امریکی طاقت برداروں نے انسانوں کی بستیوں کی بستیوں اور شہروں کے شہر تارج کیے اور اس آسمان نے دیکھا کہ دریاؤں میں پانی کی جگہ انسانی خون بہنے لگا ۔اس کے برعکس ایک ہزار سالہ اسلامی تہذیب کے دور اقتدار میں اعلی انسانی اقدارنے انسانوں کی بستی میں خوب خوب پرورش پائی اور غیروں کے قلم بھی اس کی رطب اللسامی میں محوتحریر نظر آتے ہیں۔

اسلام نے جنگ کو محدود پیمانے پرصرف دفاعیانہ مقاصد کے لیے جائزرکھااور اسکا مقصد اعلائے کلمۃ الحق بتایا نہ کہ حوس ملک گیری۔قرآن میں اﷲ تعالی نے فرمایا:
’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اﷲ تعالی یقیناََ ان کی مدد پر قادر ہے۔‘‘(سورۃ حج آیت39)

اسلام نے جن امورکو حالت امن میں جائزاور ضروری رکھاانہیں کو حالت جنگ میں ضروری اور جائز رکھاچنانچہ فرائض کی بجاآوری حالت جنگ میں بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح حالت امن میں اور فرائض کسی طرح سے بھی مسلمان افواج سے ساقط نہیں ہوتے۔حالت امن میں جو جائز اور ناجائز ہے حالت جنگ میں بھی وہ اسی طرح جائزو ناجائز ہے۔اور حالت جنگ میں بھی افواج کو یہ اجازت نہیں ہے وہ راستے میں آنے والی آبادیوں نکو تاراج کرتے جائیں یاجو چاہیں ان سے سلوک روارکھیں اور سوچیں کہ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔اور قرآن مجید نے حکم دیا ہے لڑائی صرف لڑنے والوں سے ہی کی جائے:
’’اورتم اﷲ تعالی کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگرزیادتی نہ کرو کہ اﷲ تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،ان سے لڑو جہاں بھی تمہاراان سے مقابلہ پیش آئے اورانہیں نکالوجہاں سے انہوں نے تمہیں نکالاہے ۔اس لیے کہ قتل اگرچہ براہے مگرفتنہ اس سے بھی براہے ۔اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے نہ لڑومگرجب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اﷲ تعالی معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے ۔تم ان سے لڑتے رہویہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲ تعالی کے لیے ہو جائے پھراگروہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی جائز نہیں‘‘۔(سورۃ بقرہ آیات189-193)

ایک جنگ کے بعد ایک عورت مری ہوئی پائی گئی جس پر محسن انسانیت ﷺ نے اظہار ناپسندیدگی فریاکہ جب یہ لڑ نہیں رہی تھی تو اسے کیوں قتل کیاگیا۔اس کے علاوہ بھی متعدد مواقع پر آپ ﷺ نے جنگ پر روانہ ہونے والے گروہوں کو اسی طرح کے اعلی انسانی اخلاقی اقدارکے حامل احکامات ارشادفرمائے۔

انسانی تاریخ میں سب سے پہلے اسلام نے جنگی قیدیوں کو انسان گردانااور ان کے حقوق متعین کیے ۔جینواایکارڈ سے صدیوں پہلے اسلا م نے حکم دیا کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانی برتاؤ کیاجائے۔اور ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے وعدہ فرمایا کہ
’’نیک لوگ (جنت میں )شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی ،یہ ایک بہتاہواچشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اﷲ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے ،یہ وہ لوگ ہوں گے جو د(نیامیں)نذر پوری کرتے ہیں اوراس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی اور اﷲ تعالی کی محبت میں مسکین،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں صرف اﷲتعالی خاطر کھلا رہے ہیں اورہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی بدلہ‘‘(سورۃ دہر آیات3-9)

محسن انسانیت ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیاکہ جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام اور کفر کی جنگوں میں جو کفار قیدی بن کر آئے ،مسلمانوں نے خود فاقے کیے لیکن انہیں حتی المقدوربہترین کھانا پیش کیا۔بنی قریظہ کے قیدیوں کو خود محسن انسانیت ﷺ کے حکم سے کھجوریں فراہم کی گئیں،ٹھنڈاپانی پلایاگیااور دھوپ سے امن کی خاطران کے لیے چھاؤں کا انتظام کیاگیا۔مسلمانوں کے ہاں اس بات پر اجماع ہے کہ کسی طرح کے جنگی قیدی سے کسی طور کی بدسلوکی جائز نہیں ہے۔قرآن مجید نے بھی اس بارے میں واضع حکم دیا ہے کہـ:
’’پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈبھیڑہوتوپہلاکام گردنیں مارناہے یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو،اس کے بعد (تمہیں اختیارہے)کہ احسان کرویافدیے کا معاملہ کرلو تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ‘‘۔(سورۃ محمد آیت4)

اسلامی شریعت کے مطابق جنگی قیدی ریاست کا معاملہ ہیں اور فرد کا معاملہ نہیں ہیں چنانچہ حکومت ان کے بارے میں قرآن و سنت کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے ۔محسن انسانیت ﷺ نے بعض قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کیا،بعض سے بچوں کو تعلیم دلوائی اور انہیں آزاد کر دیا،بعض کو اس شرط پربھی آزاد کر دیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کریں گے اور نہ ہی مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کریں گے اور اگر وعدہ خلافی کی تو دوبارہ گرفتار ہونے پر قتل کر دیے جائیں گے۔اسلامی شریعت نے قیدیوں کے تبادلے کی بھی اجازت دی ہے ،جس کو کہ آج کے جنگی قوانین میں بھی جگہ دی گئی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی جنگ قوموں کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ قوموں پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہوتی ہے چنانچہ تاریخ میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جب قوموں کے افراد نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ہم وطن اور ہم مذہب ظالم حکمرانوں کے خلاف جنگ کی ہے۔اسلامی قانون میں دشمن ملک کے ساتھ معاہدے کی پابندی اس حد تک ضروری ہے کہ اگر دشمن ملک میں مسلمان آبادی کسمپرسی کی حالت گزار رہی ہے تو بھی اس دشمن ملک سے معاہدہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.